فکر و نظر

نارائن  مورتی کا بیان ،عیسائیوں پر حملہ اور لنگایت چرچ کا سچ

فیک نیوز راؤنڈ اپ:’مودی کے پرائم منسٹر بن جانے کے بعد ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ دنیا کے 80 ملک ہندوستانی پی ایم کو سن رہے ہیں، امریکہ کو سمجھ میں آ گیا ہے کہ دنیا میں اب صرف امریکہ ہی سپر پاور نہیں ہے،  دنیا کو پہلی بار معلوم ہوا ہے کہ ہندوستان سب سے بڑی جمہوریت ہے۔‘

NarayanMurthy_FakeNews

عوام کے ایک خاص طبقے میں وزیر اعظم نریندر مودی کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے چاہنے والے اور بی جے پی کے آئی ٹی سیل کے کارکن  جھوٹ کا سہارا لیکر  مودی کی تعریف کرتے ہیں جو حقیقت کے برعکس ہوتی ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایک گمراہ عوام کی تشکیل ہوتی ہے جو پھر انتخابات میں اپنی گمرہی کے سبب لیڈروں کا انتخاب کرتے ہیں !

گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا میں انفوسس (Infosys ) کے بانیوں میں سے ایک   نارائن  مورتی کے بیان بہت عام کئے گئے جن میں انہوں نے مودی کی بہت تعریف کی ہے اور یہ تعریف دس سے زیادہ جملوں پر مبنی   ہے۔ ان جملوں میں کہا گیا ہے کہ مودی کے پرائم منسٹر بن جانے کے بعد ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ دنیا کے 80 ملک ہندوستانی پی ایم کو سن رہے ہیں، امریکہ کو سمجھ میں آ گیا ہے کہ دنیا میں اب صرف امریکہ ہی سپر پاور نہیں ہے،  دنیا کو پہلی بار معلوم ہوا ہے کہ ہندوستان سب سے بڑی جمہوریت ہے .. وغیرہ وغیرہ !

جب یہ جملے سوشل میڈیا میں عام ہوئے تو الٹ نیوز نے  نارائن  مورتی سے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے کہا:

حالانکہ میں وزیر اعظم کی بہت عزت کرتا ہوں لیکن یہ جو میرے نام سے سوشل میڈیا پر موجود ہے، وہ میرے الفاظ نہیں ہیں !

الٹ نیوز نے واضح کیا کہ مودی کی شان میں عام کئے جانے والے یہ جملے کافی پرانے ہیں جن کو اب نارائن  مورتی کے نام سے منسوب کرکے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ دسمبر 2015 میں آشیش کمار شرما نامی فیس بک پروفائل سے یہ جملے پہلے بھی عام کئے جا چکے ہیں ۔ اس کے علاوہ  جب مودی نے میڈسن اسکوائر امریکہ میں خطاب کیا تھا، اس وقت بھی ہوبہو یہی جملے سوشل میڈیا پر گردش کر رہے تھے۔ ان جملوں میں یہ بھی دعوی کیا گیا تھا کہ براک اوباما کو یہ معلوم ہو گیا ہے عالمی سطح پر اب صرف وہ ہی سیاسی لیڈر نہیں ہیں ! یہ جملہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ  مودی کی تعریف میں نارائن  مورتی کے نام سے منسوب کی گئی باتیں جھوٹی ہیں اور یہ جملے پرانے ہیں کیونکہ اوباما آجکل عالمی سیاست سے بالکل الگ رہتے ہیں !

کرناٹک انتخابات کے نتیجے آنے کے بعد سوشل میڈیا میں ایک ویڈیو وائرل کیا گیا جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ کرناٹک میں شاندار جیت کے بعد بی جے پی اور آر ایس ایس کے کارکنوں نے کرناٹک کے ایک گرجے پر حملہ کر دیا ، یہ ان کے جشن کا حصہ تھا !  ویڈیو:

یہ ویڈیو کافی تعداد میں ان فیس بک پیج پر عام کیا گیا جو اقلیتوں کے حامی ہیں اور اقلیتوں کے معاملات پر نظر رکھتے ہیں۔ الٹ نیوز نے ویڈیو کی حقیقت سے پردہ اٹھایا اور بتایا کہ  یہ ویڈیو تقریبا ً دس سال پرانا ہے اور الجزیرہ نے اس ویڈیو کو رپورٹ کیا تھا جس میں دکھایا گیا تھا کہ کچھ شرپسندوں نے گرجے پر حملہ کیا تھا ۔  ویڈیو:

 الجزیرہ کے علاوہ  ہندوستانی پورٹل دائی جی ورلڈ نے بھی اس کو رپورٹ کیا تھا۔ اور کہا تھا کے گرجے پر حملہ کرنے والے لوگ بجرنگ دل سے تعلّق رکھتے تھے اور یہ حادثہ اس وقت ہوا تھا جب ہندوستان میں عیسائی اقلیتوں پر بڑے ظلم کئے جا رہے رہے تھے۔ بہرحال حقیقت یہ ہے کہ ویڈیو میں جو داستان بیان کی گئی ہے وہ سچی ہے لیکن ویڈیو دس سال پرانا ہے۔ موجودہ دور میں اس کوشیئر کرنا فیک نیوز میں اضافہ کرنے کے برابر ہے کیونکہ کسی خبر کو اس کے پس منظر کے خلاف جاکر عام کرنا بھی فیک نیوز  ہے !

کرناٹک کے انتخابات میں لنگایت طبقے کی کافی چرچا رہی ہے اور ان کے متعلق جعلی خبروں کا سلسلہ بدستور بنا رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے بھی لنگایت سے جڑی فیک نیوز میں کمی نہیں آئی  اور اس بار ایک گرجے کی تصویر سے لنگایت سماج کو نشانہ بنایا گیا !

سوشل میڈیا میں تشکیل پانے والی فیک نیوز میں عام کیا جاتا ہے  کہ لنگایت سماج کے عقیدت مند پہلے ہندو مذہب کا حصہ تھے۔ لیکن کانگریس نے عیسائیوں سے مل کر ان کو ہندو مذہب سے الگ کیا تا کہ وہ آسانی سے عیسائی مذہب کو قبول کر لیں ! اسی پس منظر میں ایک تصویر عام کی گئی جس میں ایک چرچ کے دروازے پر لکھا ہے “لنگایت کیتھولک چرچ”! یہ تصویر دیکھ کر کافی لوگوں میں غصہ بھر آیا اور لوگ اس تصویر کو وائرل کرتے ہوئے لکھ رہے تھے کہ یہ تصویر کرناٹک کی ہے جہاں کانگریس اور مشنریوں نے مذہبی انتشار پھیلا رکھا ہے !

سوشل میڈیا ہوَش سلیئر نے اپنی تفتیش میں بتایا کہ وہ تصویر کرناٹک کی تصویر نہیں ہے، بلکہ  وہ مہاراشٹر کے ایک گرجے کی تصویر ہے جس کو فوٹو شاپ سے تبدیل کرکے جھوٹ پھیلایا گیا ہے ! یہ چرچ مہاراشٹر کا ‘Our Lady of Dolours Church’ ہے اور کرناٹک سے اس کا کوئی تعلق نہیں  ہے۔

LingayatChurch_Fake

گزشتہ ہفتے کرناٹک گورنر کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا میں موضوع گفتگو بنی رہی۔ وجہ یہ تھی کہ کسی تقریب میں گورنر وجو بھائی والا چہل قدمی کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں جب کہ اسٹیج پر قومی ترانہ بج رہا ہے۔ اس ویڈیو کے سبب گورنر پر یہ الزام لگایا گیا کہ انہوں نے قومی ترانے کی توہین کی ہے اور یہ اس وجہ سے ہے کیونکہ وجو بھائی والا آر ایس ایس کے ہمدرد اور کارکن رہے ہیں۔ اس لئے ان کو ہندوستانی آئین اور اس کی قدروں سے محبت نہیں ہے !

بوم لائیو نے اپنی تفتیش میں بتایا کہ یہ ویڈیو تین سال پرانا ہے ۔ ٹائمز اف انڈیا نے تین سال پہلے رپورٹ کیا تھا کہ کرناٹک ہائی کورٹ کے ایک جج کی تقریب تقرر میں ان سے یہ غلطی ہو گئی تھی جس پر انہوں نے معافی طلب کی تھی۔ لہذا ایک پرانی ویڈیو سے موجودہ وقت میں سیاسی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے ! ویڈیو: