فکر و نظر

کسان مکتی مارچ: سڑکوں پر اترے کسان کیا کہتے ہیں؟

ملک کے مختلف حصوں سے آئے کسان اپنی مانگوں کے ساتھ دہلی میں مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ان کی اہم مانگ ہے کہ ان کا قرض معاف کیا جائے اور سوامی ناتھن کمیشن کی سفارشوں کو نافذ کر کے ان کو فصلوں کی لاگت کی ڈیڑھ گنا قیمت دی جائے۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: پچھلے تین مہینے میں تیسری بار کسانوں کو اپنی مانگوں کے ساتھ دہلی کی سڑکوں پر اترنا پڑا ہے۔ ملک کے مختلف علاقوں سے آئے تقریباً 40000 کسان جمعرات سے دہلی کے رام لیلا میدان میں ڈیرا ڈالے ہوئے ہیں۔ کسانوں کی مانگ ہے کہ ان کا قرض معاف کیا جائے اور سوامی ناتھن کمیشن کی سفارشوں کو نافذ کر کے ان کو فصلوں کی لاگت کی ڈیڑھ گنا قیمت ادا کی جائے۔

مہاراشٹر کے نگر ضلع سے آئے 42 سالہ لامٹے بتاتے ہیں کہ ان کی فیملی کے پاس ایک ایکڑ زمین ہے، جس پر وہ گیہوں اور چاول کی کھیتی  کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے اوپر 70000 روپے کا قرض ہے۔ قرض چکانے کے لئے پیداوار کا کافی زیادہ حصہ بیچنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے گھر کے لئے بھی اناج نہیں بچتا ہے۔

لامٹے کہتے ہیں، ‘ ہم اپنی فیملی کی پرورش نہیں کر پا رہے ہیں۔ حکومت نے جو قرض معافی کا اعلان کیا تھا اس کا فائدہ ہمیں ملا نہیں ہے۔ اناج کو بھی مجبوراً بیچنا پڑتا ہےکیونکہ بینک والے پریشان کرتے ہیں۔ ہماری پوری فیملی اپنی زراعت کے علاوہ دوسروں کے کھیت میں مزدوری کرتی ہے، جس سے کھانے کا انتظام ہوتا ہے۔ ‘

لامٹے اس بات کو لےکر بھی مایوسی کا اظہار کرتے ہیں کہ غریبی کی وجہ سے وہ بچوں کو تعلیم نہیں دے پا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘ کھانے کے لئے میرے دو بیٹے بھی دوسروں کے کھیت میں مزدوری کرنے کے لئے مجبور ہیں۔ آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے، اس لئے پڑھنے کے لئے بھی نہیں بھیج پاتے ہیں۔ ہم پریشان ہیں اور حکومت سن نہیں رہی ہے۔

دہلی  میں آئے کسانوں کے الگ الگ مسائل ہیں۔ کسانوں کا سب سے زیادہ غصہ  ایم ایس پی  نہ ملنے، قرض معاف نہ ہونے اور فصل بیمہ یوجنا کو لےکر دکھائی دے رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نہ ان کو اور نہ ہی ان کی جانکاری میں کسی کو بیمہ یو جنا کا فائدہ ملا ہے۔ ان کسانوں کے مسائل اور زیادہ ہیں جن کے مصنوعات پر ایم ایس پی نافذ نہیں ہے۔ شملا سے آئے 50 سالہ اندر کیتھلا بتاتے ہیں کی وہ سیب کی زراعت کرتے ہیں اور جب ان کی فصل برباد ہوئی تو ان کو بیمہ یوجنا کا کوئی فائدہ نہیں ملا۔

اندر آگے بتاتے ہیں، ‘ ہمارے پہاڑی علاقوں میں زیادہ زراعت نہیں ہوتی ہے۔ وہاں لوگ سیب اور چیری کی باغبانی کرتے ہیں۔ ہمارا باغ اگر کسی وجہ سے برباد ہو جائے تو فصل بیمہ یوجنا کے تحت کوئی فائدہ نہیں ملے‌گا۔ ہماری مانگ ہے کہ ہمارے پھلوں کو بھی بیمہ یوجنا کے تحت کور کیا جائے، جس سے ہمیں بھی فائدہ مل سکے۔ ‘

اندر کا کہنا ہے کہ حکومت ہمارے سیب 6.75 پیسے کلو خریدتی ہے، جبکہ فی کلو لاگت 20 روپے ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ‘ حکومت کو اپنی پالیسی کو بدلنا چاہیے، جس سے ہم بھی محفوظ محسوس‌کر سکیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی جب 2014 کے انتخاب کی تشہیر کر رہے تھے، تب وعدہ کیا تھا کہ غیر ملکی سیبوں پر کسٹم ڈیوٹی کو بڑھائیں‌گے، تاکہ دیسی سیبوں کی کھپت ہو سکے۔ انہوں نے ہمیں دھوکہ دیا ہے اور کسٹم ڈیوٹی کو گھٹا دیا۔ پہاڑی علاقوں میں صنعت بھی نہیں ہے، تو ہمارا گذارہ  اسی پر ٹکا ہوا ہے۔ ‘

کسان مارچ میں اتر پردیش کے گنّا کسان بھاری تعداد میں آئے ہوئے ہیں۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ 14 دن میں فصلوں کی ادائیگی کرنے کا اصول بناکر آٹھ مہینے سے پیسہ نہیں دیا ہے۔ بریلی کے 55 سالہ کسان تلارام  نے حکومت سے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا، ‘ حکومت نے اچھے دن کا وعدہ کرکے بربادی والے دن لا دئے ہیں۔ ہمارے گنوں کی ادائیگی ابھی تک نہیں ہوئی ہے اور جب مظاہرہ کرو تو کہتے ہیں زراعت چھوڑ دو۔ یہ بےشرم لوگ ہیں کبھی کھیتی کسانی کئے ہوتے تو پتا ہوتا۔ ‘

تلارام مزید  کہتے ہیں، ‘ اب یہ حکومت کسانوں-مزدوروں کی بات چھوڑ‌کر رام مندر کے پیچھے پڑی ہے۔ مندر سے نہ تعلیم، نہ روزگار، نہ کھانا ملے‌گا۔ دھان کی ایم ایس پی 1635 ہے، لیکن ایک آدمی بھی ایسا نہیں ہے جس کو 1600 بھی مل رہا ہو۔ ہرکوئی 1200-1300 میں بیچنے کے لئے مجبور ہے۔ حکومت نہیں خرید رہی اس لئے دلالوں کو بیچنا پڑ رہا ہے۔ ‘

مرکز کی نریندر مودی حکومت نے گزشتہ  4 جولائی 2018 کو 14 خریف فصلوں کے لئے ایم ایس پی طےکیا تھا۔ حکومت کا دعویٰ تھا کہ پہلے کے مقابلےمیں اب کسانوں کو ان کی فصلوں کی اچھی قیمت ملے‌گی اور ہرجگہ پر ایم ایس پی پر فروخت ہوگی۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر جگہوں پر ایم ایس پی سے کافی کم قیمت پر فصلوں کی فروخت ہو رہی ہے اور اس کی وجہ سے گزشتہ اکتوبر مہینے میں ہی کسانوں کو تقریباً 1000 کروڑ روپے کا نقصان جھیلنا پڑا ہے۔

یہ 1000 کروڑ روپے کسانوں کی جیب میں جانے چاہیے تھے لیکن کم قیمت پر فروخت ہونے کی وجہ سے ان کو نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ دی وائر نے سرکاری ایجنسی ایگمارک نیٹ (ایگریکلچرل مارکیٹنگ انفارمیشن نیٹ ورک) کی ویب سائٹ پر دی گئی جانکاری کی بنیاد پر تجزیہ  کیا ہے کہ گزشتہ  اکتوبر میں خریف سیزن کی 14 فصلوں میں سے 10 فصلوں کی فروخت ایم ایس پی  سے کافی کم  قیمت پر ہوئی ہے۔ ‘ ایگمارک نیٹ ‘ پر روزانہ کے حساب سے ملک کی منڈیوں میں آنے والے اناج کی جانکاری اور اس کی فروخت قیمت اپ ڈیٹ کی جاتی ہے۔

کسان مارچ میں بہار کے لوک  فن کار بھی آئے ہوئے تھے۔ یہ لوگ خود بھی زراعت کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے نغموں  کے ذریعے کسانوں اور مزدوروں کے درد کو  بیان کیا۔ بہار کے اورنگ آباد سے آئے ایک لوک  گلوکار للن پرساد یادو نے کہا، ‘ کسانوا کو بھیجلے موت کے قریب بھیا، دیشوا کا پھوٹل نصیب بھیا۔ توہرا نہ کھائے کے ٹھکان کسان-مزدور، دھرتی کا تو ہی بھگوان۔’