ادبستان

شمس الرحمن فاروقی، آہ …اب کون اس شفقت پدری سے مخاطب کرے گا

آج میرے سر سے ایک سایہ پھر سے اٹھ گیا، آج پھر سے یتیمی کا احساس شدید تر ہوتا چلاگیا۔ آج پھر کوئی ‘ بولو بیٹا’ کہنے والا نہیں رہا۔ ایک بار پھر میں اسی صدمے سے دوچار ہوں جب اپنے والد کی محبتوں سے محروم ہوئی تھی ۔

Shamsur Rahman Faruqi. Photo: Twitter/@MayaramArvind

Shamsur Rahman Faruqi. Photo: Twitter/@MayaramArvind

گزشتہ 25دسمبر کی صبح ساڑھے گیارہ کے آس پاس بیٹی کا کال آیا۔ اس نے کہا فاروقی انکل نہیں رہے۔اتنا کہہ کراس نے فون کاٹ دیا  شاید ضبط کی تاب نہ لا سکی ہو۔ میں سکتے میں بالکل بے سدھ تھوڑی دیر کھڑی رہی ۔ مجھے بس ایک آواز کچوکے لگا رہی تھی اور بار بار کانوں میں وہی آواز گونج رہی تھی ‘بولو بیٹا ‘ …

میں جب بھی کال کرتی وہ اسی آواز سے مخالطب کرتے اور بڑی شفقت ست میری اور بچوں کی خیریت پوچھتے۔ آج وہ محبت سے لبریز آواز بھی منوں مٹی میں دب کر رہی گئی آہ…اب کون اس شفقت پدری سے مخاطب کرے گا، یہ سوچ کر میری آنکھیں چھلک گئیں ۔

میں اندر سے بہٹ ٹوٹی اور نڈھال سی محسوس کر رہی تھی کہ سکندر صاحب کے جانے کے بعد ایک سرپرست اور گارجین کی حیثیت سے میری رہنمائی کرتے رہے خواہ وہ گھریلو معاملات ہوں یا سکندر صاحب کی کتابوں کی اشاعت کا معاملہ ہو۔

معروف نقاد اور میرے شوہرسکندر صاحب کے ادھورے کام اور بکھرے مقالات کو اکٹھا کرکے میں کتابی شکل میں لانا چاہتی تھی ۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے جسے مجھے پوری کرنی ہے اور میں نےکیا بھی ۔

ان کی موت کے بعد دو کتاب ‘ طلسمات عروض ‘ اور ‘تنقیدی زاویے’ اشاعت پذیر ہوئی اور یہ کام ا ن کی معاونت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ اشاعت کے تمام مراحل سے گزارنے میں ان کا بھرپور تعاون شامل حال رہا ۔ بڑی دیانت داری سے انہوں نے’ پیش لفظ ‘ بھی لکھا۔

مجھ جیسی کم علم کے لیے ان کی علمی و ادبی صلاحیت پر کچھ لکھنا مناسب نہیں ۔بس میں اتنا جانتی ہوں کہ اس خلا کو کوئی دوسرا پر نہیں کرسکتا ۔ وہ اپنی ذات میں انجمن نہیں ایک جہان تھے ۔تاریخ رقم کرنے والی شخصیت ، تاریخ بن کر ہمیشہ زندہ رہے گی ۔ پوری اردو دنیا مقروض ہے اور یہ قرض کسی طور چکایا نہیں جاسکتا بس ان کی مغفرت کے لیے دل سے دعائیں ہی دی جاسکتی ہیں ۔

ان کی کتابیں ‘شعر غیر شعر اور نثر’ ،’دی سیکریٹ مرر’،’افسانے کی حمایت میں ‘، شعر شور انگیز(تین جلدوں میں )۔ ‘اردو کا ابتدائی زمانہ ‘، گنجہ سوختہ ‘، ‘سوار اور دوسرے افسانے ‘ اور ‘کئی چاند تھے سرآسماں’ وغیرہ ادبی افق پر ہمیشہ روشن ستارے کی طرح جگمگاتی رہیں گی۔ رسالہ ‘شب خون ‘ نے جو کارنامہ انجام دیا اس سے کون واقف نہیں ، اس پر مزید گفتگو کی اہل نہیں ہوں۔

فاروقی صاحب سے میرا اور میرے خاندان کا رشتہ نہ صرف کتابی تھا بلکہ ایک ذاتی رشتہ بھی تھا اور اس رشتے کی بنیاد پر وہ ہمیشہ ایک مشفق باپ کی طرپشت پر کھڑے رہے۔ آگے بڑھنے کا ، زندگی جینے کا حوصلہ دیتے رہے اور غم گساری کرتے رہے۔

گاڈ فادر کی طرح سکندر صاحب کی رہنمائی اور پشت پناہی کرتے رہے ۔ سکندر صاحب کی ادب سے دلچسپی شروع سے رہی حالانہ وہ سائنس کے طالبعلم رہے، مگر طبعیت ہمیشہ تحقیق اور تنقید کی طرف مائل رہی ۔ فاروقی صاحب سے ملاقات کے بعد ان کے اندر کا محقق اور نقاد ابھر کر سامنے آیا اور جنون کی حدتک مطالعہ میں غرق رہنے لگے اوربہت کم وقت میں اپنی  شناخت ادبی دنیا میں قائم کر لی ۔ ان کے تحقیقی اور تنقیدی مقالے سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

بہر کیف ! آج میرے سر سے ایک سایہ پھر سے اٹھ گیا، آج پھر سے یتیمی کا احساس شدید تر ہوتا چلاگیا۔ آج پھر کوئی ‘ بولو بیٹا’ کہنے والا نہیں رہا۔ ایک بار پھر میں اسی صدمے سے دوچار ہوں جب اپنے والد کی محبتوں سے محروم ہوئی تھی ۔

ان کی مغفرت کے لیے بارگاہ خداوندی میں سر بہ سجود ہوں کہ اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور درجات کو بلند فرمائے ۔ آمین۔

(غزالہ سکندر نے مضامین سکندر احمد کے عنوان سے سکندر احمد کے مقالات کو مرتب کیا ہے۔)