آئی ٹی رولزکی مجوزہ ترمیم میں کہا گیا ہے کہ پی آئی بی کی فیکٹ چیک اکائی کی جانب سے ‘فرضی’ قرار دیے گئے مواد کو سوشل میڈیا سمیت تمام پلیٹ فارم سے ہٹانا ہوگا۔ دی رپورٹرز کلیکٹو کی صحافی تپسیا نے بتایا کہ اس فیکٹ چیک یونٹ نے ان کی ایک رپورٹ کو بغیر کسی دستاویزی ثبوت کے صرف منسٹری آف ویمن اینڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ کے ایک ٹوئٹ کی بنیاد پر ‘فرضی’ قرار دے دیا تھا۔
نئی دہلی: الکٹرانکس اور انفارمیشن ٹکنالوجی کی وزارت نے منگل (17 جنوری) کو انفارمیشن ٹکنالوجی رولز،2021 کے مسودے میں ترمیم جاری کی، جن کا نتیجہ انتہائی سخت سرکاری سنسر شپ کے طور پر سامنے آسکتا ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ پریس انفارمیشن بیورو (پی آئی بی) کی فیکٹ چیک اکائی کے ذریعے ‘فرضی’ سمجھی جانے والی کسی بھی خبر/معلومات کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سمیت تمام پلیٹ فارمز سے ہٹانا ہوگا۔ جس مواد کو ‘حقائق کی جانچ کے لیے حکومت کی طرف سےمجاز کسی دوسری ایجنسی’ یا ‘مرکز کے کسی بھی کام کے سلسلے میں’ گمراہ کن کے طور پر نشان زد کیا گیا ہو،اس کو آن لائن پلیٹ فارم پر اجازت نہیں دی جائے گی۔
مجوزہ ضابطہ حکومت کو عوام کے لیے دستیاب جانکاری پر پابندی عائد کرنے اور اس کے کام کاج کے لیے اہم مواد کو ہٹا نے کے سلسلے میں وسیع اختیارات دیتے ہیں۔ آئی ٹی قوانین میں یہ ترمیم مرکزی حکومت کے نوڈل محکموں کو اس کے کام کے بارے میں ہوئی خبروں کی جانچ پڑتال کرنے اور اگر ان کو یہ ٹھیک نہیں لگتا تو انہیں ‘فرضی’ قرار دینے کا اختیار دیتی ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جن تنقیدی رپورتاژ میں مرکزی حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا، وہاں جج بھی وہی ہوں گے۔
پی آئی بی کی ایک فیکٹ چیک اکائی شائع شدہ خبروں کی تصدیق اور حقائق کی جانچ کرنے کا دعویٰ کرتی ہے اور جب اسے لگتا ہے کہ کوئی خبر ‘فرضی’ ہے، تو وہ اسے ٹوئٹ کے ذریعے بتاتی ہے۔
اس لیے، پی آئی بی نے جب میرے ذریعے کی گئی تحقیقات کے بعد شائع رپورٹ میں سے ایک پر ‘فرضی’ کا ٹھپہ لگایا تو دی رپورٹرز کلیکٹو (ٹی آر سی) نے اس بات کی تحقیقات کرنے کا فیصلہ کیا کہ کسی رپورٹ کو فرضی قرار دینے کے لیے پی آئی بی کی یہ اکائی درحقیقت کون سا کا طریقہ کار اختیار کرتی ہے۔
واضح ہو کہ 30 جون 2022 کوٹی آر سی پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں میں نے یہ انکشاف کیا تھا کہ کس طرح مرکز نے چھ سال سے کم عمر کے بچوں کے لیے آنگن واڑی مراکز میں غذائیت سے بھرپور خوراک حاصل کرنے کے لیے آدھار کو لازمی بنا دیا تھا۔ اس سے ان لاکھوں بچوں کی فوڈ سکیورٹی متاثر ہونے والی تھی، جو ان مراکز سے فراہم کیے جانے والے کھانوں پر منحصر ہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ہندوستان میں پانچ سال سے کم عمر کے صرف 23 فیصد بچوں کے پاس آدھار ہے۔ یہ سپریم کورٹ کے 2018 کے فیصلے کے خلاف بھی تھا کہ آدھار کے نہ ہونے پر بچوں کو کسی بھی خدمت یا فلاحی اسکیم سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔
جیسے ہی یہ رپورٹ سوشل میڈیا پر نشر ہوئی اور پڑھی جانے لگی، ویسے ہی منسٹری آف ویمن اینڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ نے اپنا موقف ٹوئٹ کیا، جس میں کہا گیاتھاکہ اس اسکیم کے تحت بچوں کو غذا حاصل کرنے کے لیے آدھار لازمی نہیں تھا۔ پی آئی بی فیکٹ چیک نے فوراً وزارت کا ساتھ دیا اور میری رپورٹ کو ‘فرضی’ قرار دے دیا۔ تاہم اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے کوئی دستاویزی ثبوت نہیں دیے گئے۔
کسی خبر کو بغیر کسی وضاحت کے ‘فرضی’ قرار دینے کا پی آئی بی کا طور طریقہ نیا نہیں تھا۔ پی آئی بی کےفیکٹ چیک کس طرح کیے جارہے ہیں، اس کے بارے میں جاننے کے لیے میں نے آر ٹی آئی قانون کی مدد لی۔ منسٹری آف ویمن اینڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ میں دائر آر ٹی آئی درخواست پی آئی بی کوبھی بھیجی گئی۔ اس درخواست کے جواب نے ان شکوک و شبہات اور الزامات کی تصدیق کی کہ کس طرح حکومت کے پروپیگنڈے کی ذمہ دار اس ایجنسی نے کسی بھی معلومات یا خبر، جس کو وہ غلط بتانا چاہتی ہے، کی تصدیق کے لیے کسی بھی طے شدہ طریقہ کار پرعمل نہیں کرتی۔
وزارت کے جواب میں کہا گیا ہے کہ یکم اگست 2022 کو جاری کردہ رہنما خطوط کے مطابق نیوٹریشن اسکیم کے لیے بچے کا آدھار لازمی نہیں تھا۔ اب، کوئی کہہ سکتا ہے کہ وزارت کا جواب اس بات کا خاطر خواہ ثبوت ہے کہ رپورٹ فرضی تھی، لیکن اس میں ایک دلچسپ موڑ ہے۔
وزارت جن رہنما خطوط کا حوالہ دے رہی تھی وہ رپورٹ شائع ہونے اور اسے ‘فرضی’ قرار دیے جانے کے ایک ماہ بعد سامنے آئی تھی۔ پھر آر ٹی آئی کے جواب میں پی آئی بی نے کہا کہ اس کا فیکٹ چیک وزارت کے ٹوئٹ کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔ اس نے اپنے جواب میں ٹوئٹ کا لنک بھیجا اور ٹوئٹ کی ایک تصویر منسلک کی۔ بس اتنا ہی۔
دوسرے لفظوں میں پی آئی بی میں کوئی فیکٹ چیک نہیں ہوا، اس نے نوڈل ایجنسی – جو اس معاملے میں منسٹری آف ویمن اینڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ تھا ، کے ایک ٹوئٹ کو کسی رٹو طوطے کی طرح دہرا دیا تھا۔
اس پر مزید وضاحت کے لیے میں نے آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت اپیل کی، جس پر وزارت نے جواب دیا: ‘پی آئی بی فیکٹ چیک کے بارے میں مزید معلومات دستیاب نہیں ہیں۔’ یعنی نوڈل وزارت کے پاس اس بات کا کوئی ریکارڈ نہیں تھا کہ اس نے سرکار کی پروپیگنڈہ اکائی کو بتایا کہ رپورٹ فرضی تھی! اب یہ بات کسی کو بھی یہ سوچنے پر مجبور کر دے گی کہ پی آئی بی نے یہ فیکٹ چیک خود کیا تھا۔
لیکن حکومتی قوانین کے تحت ایسا ممکن نہیں ہے۔ پی آئی بی، جو مرکزی وزارت اطلاعات و نشریات کے تحت کام کرتا ہے، ہمیشہ جانکاری نشر کرنے کے لیے نوڈل وزارت سے جانکاری/انفارمیشن فراہم کرنے کے لیے کہتا ہے۔ اس کے پاس وزارت کی جانب سے اپنے طور پر کچھ بھی کہنے کا اختیار نہیں ہے۔
تو اب سمجھ لیں کہ حکومت کے اندر چل کیا رہا تھا۔
آدھار کو لازمی بنانے کی حکومت کی کوشش کو بے نقاب کرنے والی رپورٹ سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کی گئی ۔ اس کی وجہ سے اس مسئلے میں عوام کی دلچسپی پیدا ہوئی اور بہت سے لوگوں نے آدھار کے بارے میں اپنے تجربات کا اشتراک کیا – یہ کس طرح 2018 کا سپریم کورٹ کا حکم ہے کہ یونک آئی ڈی نہ ہونے کی وجہ سےکسی بھی بچے کو فلاحی اسکیموں یا پروگراموں سے محروم نہیں کیا جانا چاہیے– کے باوجود آنگن واڑی مراکز میں اور اسکولوں میں لاگو کیا جاتا ہے۔
ایسے میں حکومت کو احساس ہوا کہ اس نے آدھار کو لازمی قرار دے کر غلطی کر دی ہے۔ لیکن وہ عوامی طور پر اس کا اعتراف کیسے کر سکتی تھی! چنانچہ اس نے اپنے رہنما اصولوں میں ترمیم کی۔ اگست 2022 میں مرکز کے نئے رہنما خطوط آئے، جس میں آدھار پر اس نے اپنا موقف بدل دیا – اس میں کہا گیا تھاکہ اب بچوں کے لیے لازمی اسکیم میں رجسٹر کرنے کے لیے ماں کی آئی ڈی استعمال کی جا سکتی ہے۔
چنانچہ جب وزارت نے اگست میں میری آر ٹی آئی درخواست کا جواب دیا، تب تک اس کے رہنما خطوط بدل چکے تھے اور اس نے جون میں شائع ہونے والی رپورٹ میں سابقہ ہدایات کا ذکر تک نہیں کیا۔
اگر آئی ٹی رول میں حالیہ مجوزہ ترامیم جون 2022 میں لاگو رہی ہوتیں تو حکومت کے پاس آسانی سے یہ اختیار ہوتا کہ وہ میری رپورٹ کو انٹرنیٹ اور تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے ہٹا دیتی اور اس بات کو یقینی بناتی کہ یہ ملک کے شہریوں تک نہ پہنچے۔
(تپسیا دی رپورٹرز کلیکٹو کی رکن ہیں۔)
(اس رپورٹ کوانگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)
Categories: فکر و نظر