فلم میں واضح طور پر فرضی بیانیہ اور اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں، اور بات پروپیگنڈہ سے کہیں آگے کی ہے ،اس کے باوجود ناظرین کے پاس اس کودیکھ کر اس کے بارے میں اپنی رائے قائم کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔
کیا کسی فلم یا کتاب پر پابندی لگائی جانی چاہیے؟ کیا عام لوگوں کو کسی فلم کو دیکھنے یا کتاب پڑھنے سے صرف اس لیے روکا جانا چاہیے کہ حکام نے فیصلہ صادر کیا ہے؟ یہ سوال اکثر اٹھتا رہتا ہے اور ‘دی کیرالہ اسٹوری’ کی ریلیز کے بعد یہ سوال ایک بار پھر زیر بحث ہے۔
بلا شبہ، دی کیرالہ اسٹوری حقائق کی غلطیوں سے پُرنفرت انگیز پروپیگنڈہ ہی ہے، جس میں حقائق کو جان بوجھ کر ایک خاص نقطہ نظر کی تبلیغ کے لیےاور جیسا کہ دی کشمیر فائلز کے ساتھ بھی تھا، ایک خاص کمیونٹی کو بدنام کرنے کے لیے پیش کیا گیا ہے۔
دی کیرالہ اسٹوری ایک اور فلم ہے جو ‘حقائق ‘ پیش کرنے کا دعوی کرتی ہے، لیکن حقائق کے لیے اس کے پاس وقت نہیں ہے۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح کیرالہ کی معصوم ہندو لڑکیاں- کل 32000 لڑکیاں – اسلام قبول کرنے کے بعدآئی ایس آئی ایس(اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا) کے ذریعے بھرتی کی گئیں۔ یہ آپریشن مسلمان لڑکوں کے ذریعے چلایا گیا، جنہوں نے ان لڑکیوں کو اپنے جال میں پھنسایا –یہ مسلمانوں کے نام نہاد نفرت انگیز ’لو جہاد‘ کی ایک اور مثال ہے۔
اس فلم کے ٹریلر میں ان تمام نکات کو بار بار نمایاں طور پراجاگر کیا گیا، جس میں 32 ہزار لڑکیوں کو بھرتی کیے جانے کا دعویٰ بھی شامل تھا، جبکہ اس اعداد و شمار کے صحیح ہونےپر سوالیہ نشان لگایا گیا۔ یہ دعویٰ کہ اتنی بڑی تعداد میں لڑکیاں کسی کو بھنک پڑے بغیر ایک ریاست سے غائب ہو گئیں، نا ممکن سی بات ہے – اور ایساتھا بھی۔
ایسا کوئی اعداد وشمار موجود نہیں ہے اور یہ فلمساز کے تخیل کا ایک افسانہ محض تھا۔ کیرالہ سے تین خواتین کی مبینہ طور پر آئی ایس ایس میں شمولیت کی رپورٹ آئی تھیں، لیکن 32000 کی تعداد ایک مبالغہ آمیز دعویٰ اور صریحاً غلط ہے۔
جب اسے عدالت میں چیلنج کیا گیا تو ہدایت کار سدیپتو سین نے خاموشی سے اس اعدادوشمار کو ٹریلر سے ہٹا دیا۔ انہوں نے یہ اعداد و شمار کیوں استعمال کیے تھے؟ اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ اتفاق سے، سین انٹرنیشنل فلم فیسٹیول آف انڈیا (آئی ایف ایف آئی ) کی جیوری کے واحد رکن تھے ،جنہوں نے دی کشمیر فائلز کو ‘ایک فحش پروپیگنڈہ فلم‘ قرار دینے والے جیوری کے صدر نادو لیپڈ کی حمایت نہیں کی تھی۔
فلم کے ٹریلر کے بعد کیرالہ میں بہت سے لوگوں نے فلمساز یا کسی بھی شخص کو 32 ہزار کے اعداد و شمار کو ثابت کرنے پر انعام دینے کا اعلان کیا۔لیکن کسی نے بھی اعداد و شمار کو ثابت کرنے کی زحمت نہیں اٹھائی ۔سوشل میڈیا پرسین کے اس دعوے کے خلاف لوگوں کا غصہ پھوٹ پڑا، جنہوں نےیہ نشاندہی کی کہ کیرالہ کی اصل کہانی معیشت میں اس کی شراکت، ہیومن ڈیولپمنٹ کے انڈیکس کے معاملےمیں اس کی شاندار کارکردگی ہے، اور سماجی ہم آہنگی کی اس کی لمبی روایت ہے۔
مؤرخ منو پلئی نے لکھا کہ کیرالہ کی کہانی گنگا جمنی تہذیب کی کہانی ہے، جو محبت، رواداری اور احترام کا جشن مناتی ہے جو ہر ملیالی کی ثقافت میں پیوست ہے۔ فلم میں جو کچھ دکھایا جانے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے وہ سیدھے طور پر جھوٹ ہے۔ ریاست کے وزیر اعلیٰ نے اسے ‘نفرت انگیز پروپیگنڈہ’ قرار دیا۔
پھر فلم کے بڑے بڑے اور بے بنیاد دعووں کا ذکر کسی اور نے نہیں کیا بلکہ خود وزیر اعظم نریندر مودی نے کیا۔ ماضی میں بھی مودی نےدی کشمیر فائلز کی پیروی کی تھی اور ان کے پیچھے پیچھے بی جے پی کے وزرائے اعلیٰ ایک لائن لگ گئی تھی،جنہوں نے سرکاری ملازمین کو فلم دیکھنے کے لیے ایک دن کی چھٹی لینے کی اجازت تک دے دی تھی۔ کشمیر فائلز باکس آفس پر ہٹ رہی۔
اس بار بھی مدھیہ پردیش اور پھر اتر پردیش نے دی کیرالہ اسٹوری کو ٹیکس فری کر دیا، جو یقیناً باکس آفس پر اس کی کارکردگی میں مددگار ثابت ہوگا۔ دریں اثناء،مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے ریاست میں اس فلم کی نمائش پر پابندی عائد کر دی ہے، جس پر سپریم کورٹ نے سوال اٹھائے۔
تمل ناڈو میں فلم دکھانے والوں اور سنیما گھروں نے امن و امان کے ممکنہ مسائل اور تھیٹروں کو پہنچنے والے نقصان کا حوالہ دیتے ہوئے فلم کو نہ دکھانے کا فیصلہ کیا۔ گجرات میں گجرات فسادات کے بارے میں ایک چبھتی فلم پرزانیہ پر پابندی نہیں لگائی گئی تھی، سنیما گھروں نے اسے بس نہ دکھانے کا فیصلہ کیا تھا۔ عامر خان اور کاجول کی فلم ‘فنا’ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، جس کا گجرات میں تھیٹر مالکان نے نرمدا ڈیم پر عامر خان کے تبصرے کی وجہ سے بائیکاٹ کیا تھا۔ فلم پر ‘پابندی’ لگانے کے یہ کئی طریقے ہیں۔
کیرالہ ہندوستان کی ان ریاستوں میں سے ایک ہے، جس نے ریاست میں سیاسی مداخلت کی بی جے پی کی کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا ہے۔تمل ناڈو، تلنگانہ اور آندھرا پردیش کے لیے بھی یہی کہا جا سکتا ہے۔ ان ریاستوں نے بی جے پی کے منصوبوں کو پورا نہیں ہونے دیا ہے اور جنوبی ہندوستان میں بی جے پی کی سیاسی گاڑی کرناٹک سے آگے نہیں بڑھ پائی ہے۔ ان چار ریاستوں میں، کیرالہ خاص طور پر بی جے پی کے نشانے پر ہے، کیونکہ اس کی زمام سی پی آئی (ایم) کے ہاتھوں میں ہے۔
اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے کہ ریاست کی ایک چوتھائی سے زیادہ آبادی مسلمانوں کی ہے، بی جے پی کو یہاں کی آبادی کو پولرائز کرنے کا موقع نظر آتا ہے، بالخصوص عیسائیوں کے درمیان۔ اس کے لیے بی جے پی ہر ہتھکنڈہ اپنائے گی، جس میں نفرت اور جھوٹی فلموں کا پرچار بھی شامل ہے۔
اس پس منظر کو دیکھتے ہوئے کیا دی کیرالہ اسٹوری جیسی فلم کی نمائش کو روکا نہیں جانا چاہیے،نہ صرف وہاں بلکہ ملک کے دیگر مقامات پر بھی۔
شبانہ اعظمی، انوراگ کشیپ اور کیرالہ سے لوک سبھا ممبرششی تھرور نے اس فلم پر پابندی نہ لگانے کی وکالت کی ہے۔ ایک تو یہ کہ سینسر نے اسے پاس کیا ہے، اور دوسری بات یہ کہ کسی فلم پر پابندی لگانا کوئی حل نہیں ہے۔ یہ فیصلہ عوام پر چھوڑ دیا جانا چاہیے۔ کسی بھی فلم پر پابندی نہیں لگانا ایک لبرل آئیڈیا ہے، جس پر وہ لوگ بھی تنقید کرتے ہیں جن کا شمار لبرل میں ہوتا ہے۔
لیکن یہ کوئی معمولی فلم نہیں ہے۔ یہ نفرت اور زہر سے بھری ہوئی فلم ہے، جس میں واضح طور پرتفرقہ انگیز ایجنڈہ ہے؛اور زیادہ پولرائز کرنا اس کا مقصد ہے۔آئندہ عام انتخابات سے قبل ایسی مزید فلمیں آسکتی ہیں۔ کیا ایسے میں انہیں کھلی چھوٹ دی جانی چاہیے؟
جب بات اظہار رائے کی آزادی کی آتی ہے تب دائیں بازو کا خیمہ، جس میں سرکار بھی شامل ہے ،دوسروں کے ساتھ ایسی شائستگی کا مظاہرہ نہیں کرتے ہیں۔ لوگوں کو جیل میں بھلے نہ ڈالا جا ئے، لیکن انہیں ان کے خیالات کے لیے مسلسل نشانہ بنایا جاتا ہے۔
تاہم، کسی چیز پر پابندی لگانا،اورزیادہ پابندیوں کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ اس سارے معاملے کا خلاصہ یہی ہے۔ کسی بھی جمہوری ملک کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔
درحقیقت اس رجحان کو روکنا چاہیے۔ فیصلہ ناظرین کو کرنے دینا چاہیے۔ کشمیر فائلز پر پابندی نہیں لگائی گئی، اور اس نے بہت پیسہ کمایا اور فلمساز کو مالا مال کردیا، لیکن اس فلم کو کبھی جواز حاصل نہیں ہوا، جو لیپڈ کے سخت تبصروں سے پتہ چلتا ہے۔
یہی دی کیرالہ اسٹوری کے ساتھ بھی ہوگا – یہ پیسہ کمائے گا، اور یہ دوسرے فلمسازوں کو ایسی مزید فلمیں بنانے کی ترغیب دے گا۔ لیکن آخر کار، اگر عوامی ردعمل سرد ہو اور باکس آفس پر کلیکشن کم ہو جائے تو فلمساز ایسی فلمیں بنانے سے ہچکچائیں گے۔
‘تاریخی’ فلموں کے نام پر پیش کی جانے والی ہندوتوا پروپیگنڈہ فلموں کا یہی حشر ہوا ہے۔ وویک اوبرائے کی فلم ‘دی پی ایم نریندر مودی’ یا ‘دی ایکسیڈنٹل پرائم منسٹر’ کتنے لوگوں کو یاد ہے؟ پروپیگنڈہ اور بدنیتی کی کبھی جیت نہیں ہوتی۔ آج بھی شائقین ‘پٹھان’ جیسی فلم کو پسند کرتے ہیں اور نفرت کا نہیں بلکہ ہم آہنگی کا پیغام دینے والے شاہ رخ خان ان کے ذہنوں میں بس جاتے ہیں۔
(اس مضمون انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)
Categories: فکر و نظر