خبریں

یوم دستور: اگر ملک آر ایس ایس کی مرضی کے مطابق چلتا رہا تو ہمارا آئینی ڈھانچہ کیا ہوگا؟

امبیڈکر کا کہنا تھا کہ ہندو راج اس ملک کے لیے سب سے بڑی آفت ہوگی کیونکہ ہندو راشٹر کا خواب آزادی، مساوات اور بھائی چارے کے خلاف ہے اور یہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں سے میل نہیں کھاتا۔

(تصویر بہ شکریہ: PIB/Flickr)

(تصویر بہ شکریہ: PIB/Flickr)

آج ہندوستانی دستور ساز اسمبلی کے منظور کردہ آئین کو 74 سال مکمل ہو گئے  ہیں اور اگلے سال (26 جنوری 2025) اس کے 75 سال پورے ہو جائیں گے۔ میگرا کارٹا یا ‘گریٹ چارٹر’ پر برطانوی حکمراں کے دستخط کے 735 سال بعد ہندوستانی آئین انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے بنایا گیا ایک ایسا قانون ہے جس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ میگرا کارٹا نے قانون کی حکمرانی قائم کی اور انگریزی  شہریوں کے حقوق کی ضمانت دی تھی۔ اسی طرح ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کے بنائے ہوئے ہندوستانی آئین نے پانچ ہزار سال سے زیادہ پرانے رسم و رواج اور قوانین کو ختم کیا، غلامی اور چھواچھوت کو جرم قرار دیا اور ملک کے تمام شہریوں کو برابری  کا درجہ دیا۔

جو لوگ 1950 میں اس آئین کی مخالفت کر رہے تھے اور جو اس آئین کی مدد سے ملک اور کئی ریاستوں میں برسراقتدار ہیں، وہ آج بھی اس دستاویز کو دل سے قبول نہیں کر سکے ہیں اور آج بھی وہ کبھی کبھار اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ آئندہ سال وہ اپنی تنظیم کی 100ویں سالگرہ منانے جا رہے ہیں جو منواسمرتی پر یقین رکھتے ہوئے ذات پات کے نظام کی حمایت کرتی ہے اور جمہوریت  کی مخالف کرتی  ہے۔

سب جانتے  ہیں کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور’ ہندوتوا تنظیموں’ نے 1857 سے شروع ہوئی آزادی کی پہلی لڑائی سے لے کر1947 تک 90 سالوں  تک چلنے والی قومی تحریک کو، اس کی قیادت کو، اس کے نظریے کو اور اس بنیاد پر بنے ملک کے آئین کوکبھی قبول نہیں کیااور جمہوری نظام کی  ہمیشہ مخالفت کی۔ خود کو ایک ثقافتی تنظیم کہنے اور مکھوٹا لگا کرپہلے ہندو مہاسبھا، رام راجیہ پریشد، پھر بھارتیہ جن سنگھ اور 1980 سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے طور پر سیاست کرنے والے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کا نظریہ کیا رہا ہے، اس بات پر غور کرنا ضروری ہے۔

راشٹریہ سویم سیوک سنگھ جنہیں اپناآباؤ اجدادمانتا ہے اور سویم سیوک جن کے معنوی اولاد ہیں، وہ ہیں ونائک دامودر ساورکر اور سنگھ کے دوسرے سرسنگھ چالک مادھو سداشیو گولوالکر عرف گروجی۔ گولوالکر ہٹلر کے نظریے سے بہت متاثر تھے اور اسے ہندوستان میں نافذ کرنا چاہتے تھے۔ گولوالکر کی ایک کتاب ہے ‘وی آر آور نیشن ہڈ ڈیفائنڈ’۔

سال 1946 میں شائع ہونے والی اس کتاب کے چوتھے ایڈیشن میں گولوالکر لکھتے ہیں،’ہندوستان کے تمام غیر ہندوؤں کو ہندو ثقافت اور زبان کو اپنانا ہوگا، ہندو مذہب کا احترام کرنا ہوگا اور ہندوکاسٹ یا ثقافت کی تعریف وتوصیف کے علاوہ کوئی اور خیال اپنے دل میں نہیں رکھناہوگا۔’

اسی کتاب کے صفحہ 42  پر وہ لکھتے ہیں کہ ‘جرمنی نے نسلی اور ثقافتی پاکیزگی برقرار رکھنے کے لیے سامی یہودی نسل کو ختم کر کے پوری دنیا کو حیران کر دیا تھا۔ اس سے نسلی تفاخر کے انتہا کی ایک جھلک ملتی ہے۔’

گولوالکر کی ایک اور کتاب ‘بنچ آف تھاؤٹس’ ہے۔ اس کتاب کے نومبر 1966 کے ایڈیشن میں گولوالکر نے ملک کو درپیش تین اندرونی خطرات کو نشان زد کیا ہے: مسلمان، عیسائی اور کمیونسٹ۔

وہ ورنا نظام یعنی ذات پات کے نظام کے بھی زبردست حامی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں،’ہمارے معاشرے کی خصوصیت تھی ورنا نظام ، جسے آج ذات پات کا نظام کہہ کر اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ معاشرہ کا تصورقادر مطلق ایشور کے چار مظہر کے طور پر کیا گیا تھا جس کی پوجا ہر ایک کو اپنی حیثیت اور اپنے طریقے سے کرنی چاہیے۔ برہمن کو اس لیےعظیم سمجھا جاتا تھا کیونکہ وہ علم کا عطیہ کرتا تھا۔ کھشتریہ کو بھی اتنا ہی عظیم سمجھا جاتا تھا کیونکہ وہ دشمنوں سے مقابلہ کرتا تھا۔ ویشیہ بھی کم اہم نہیں تھا کیونکہ اس نے زراعت اور تجارت کے ذریعے سماج کی ضروریات پوری کیں اور شودر بھی جو اپنے فن کے ذریعے سماج کی خدمت کرتا تھا۔’

اس میں گولوالکر نے بڑی چالاکی سے جوڑ دیاکہ شودر اپنی مہارت اور کاریگری سے سماج کی خدمت کرتے ہیں، لیکن اس کتاب میں گولوالکر نے چانکیہ کےجس معاشیات کی تعریف کی ہے، اس میں لکھا  گیاہے کہ برہمنوں، کھشتریوں اور ویشیوں کی خدمت کرنا شودروں کادھرم ہے۔ دھرم کی جگہ گولوالکر نےجوڑ دیا سماج کی خدمت۔

وہ سوشلزم اور کمیونزم کو پرائی چیزمانتے  ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ‘یہ جتنے ازم ہیں یعنی سیکولرازم، سوشلزم، کمیونزم اور ڈیموکریسی سب غیر ملکی تصورات ہیں اور ہمیں ان کو ترک کر کے ہندوستانی ثقافت کی بنیاد پر ایک معاشرہ تشکیل دینا چاہیے۔’

قومی تحریک کے دوران یونین اسٹیٹ کے تصور کو قبول کیا گیا تھا، یعنی مرکز کے ذمے بعض طے شدہ مضامین ہوں گے۔ باقی ریاستوں کے ماتحت ہوں گے۔ لیکن انہوں نے ہندوستانی آئین کے اس بنیادی عنصر کی بھی مخالفت کی۔

آزادی کے وقت اور تقسیم کے بعد بھی قومی رہنماؤں نے مہاتما گاندھی کی قیادت میں اس ملک کو ایک ‘جمہوری جمہوریہ’ کے طور پر قائم کیا۔ یہ لیڈر چاہتے تو 15 اگست 1947 کو اس ملک کو ہندو راشٹر قرار دے سکتے تھے کیونکہ مسلم لیگ اور اس کے قائد محمد علی جناح نے مسلمانوں کے لیے ایک الگ ملک پاکستان حاصل کر لیا تھا اور ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے میں کوئی دقت نہیں ہوتی۔ لیکن ان رہنماؤں نے اجتماعی طور پر عہد کیا کہ وہ اس عظیم ملک ہندوستان کو پاکستان نہیں بننے دیں گے۔

قومی تحریک کے دوران انہوں نے ملک کے لوگوں سے بہت سے وعدے کیے تھے – آزاد ہندوستان کو ایک عالمگیر، سیکولر، جمہوری جمہوریہ بنایا جائے گا جس میں ملک کے شہریوں کو مساوات اور آزادی، اپنے مذہب کی پیروی کرنے اور عبادت  کرنے اور تبلیغ کی اجازت دی جائے گی اور انصاف سماجی، معاشی اور سیاسی اور بھائی چارے اور فرد کی عزت کو یقینی بنایا جائے گا۔ ان لیڈروں نے ایک ایسا آئین اپنایا جس میں ہر شہری کو مساوی حقوق دیے گئے۔

لیکن جس طرح کا نظریہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اس ملک میں مسلط کرنا چاہتا ہے اور اگر معاملات اس کی  مرضی کے مطابق چلتے رہے، جیسا کہ نریندر مودی کی قیادت میں پچھلے دس سالوں سے ہو رہا ہے، تو اس کا آئینی ڈھانچہ کیا ہو گا؟

کیا اس کی بنیادی شکل وہی رہے گی یا اسے بدل دیا جائے گا اور ملک کو قانونی طور پر ایک جمہوری سوشلسٹ، سیکولر جمہوریہ کے بجائے ‘ہندو راشٹرا’ بنا دیا جائے گا، جس میں صرف ہندو مذہب کے ماننے والوں کو برتری حاصل ہو گی اور دوسرے مذاہب کے لوگ اس ملک کے دوسرے درجے کے شہری بن کر رہنے پر مجبور ہوں گے؟ جہاں ذات پات پر مبنی معاشرہ تشکیل دیا جائے گا اور ملک منو اسمرتی کے تحت چلایا جائے گا۔

آئین کے معمار اور دلتوں کے مسیحا ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے کہا تھا کہ ‘اگر اس ملک میں ہندو راج حقیقت بن جاتا ہے تو یہ بلاشبہ اس ملک کے لیے سب سے بڑی آفت  اور ایک ہولناک مصیبت ہوگی کیونکہ ہندو راشٹر کا خواب آزادی، مساوات اور بھائی چارے کے خلاف ہے، اور یہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں سے میل نہیں کھتا… ہندو راج کو کسی بھی قیمت پر روکا جانا چاہیے۔’

آج یوم دستور کے موقع پر ہمیں ان الفاظ کو پھر سے یاد کرنے کی ضرورت ہے۔

(قربان علی سینئر صحافی ہیں اور ان دنوں  ملک میں سوشلسٹ تحریک کی تاریخ کو دستاویزی شکل دے رہے ہیں۔)