بی جے پی لیڈر نے مالیگاؤں میں ‘غیر قانونی بنگلہ دیشی اور روہنگیا’ کے ہونے کے دعوے کیے تھے، جس کے بعد حکومت نے ایس آئی ٹی تشکیل دی اور تحقیقات شروع کی۔ تاہم، اب تک گرفتار کیے گئے لوگوں پر’غیر قانونی تارکین وطن’ ہونے کا الزام نہیں ہے، بلکہ انہیں مبینہ طور پر دستاویز سے متعلق جعلسازی کے لیے گرفتار کیا گیا ہے۔

مالیگاؤں میں ایس آئی ٹی کے دفتر کے باہر لوگ۔ (تمام تصویریں : اسپیشل ارینجمنٹ)
ممبئی: اس سال جنوری میں ممبئی سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما کریٹ سومیا نے 300 کلومیٹر شمال کا سفر کرتے ہوئے مالیگاؤں کا دورہ کیا اور اس علاقے میں تقریباً ایک دہائی پرانے مقامی زمینی تنازعہ کو سیاسی رہنماؤں کے درمیان اٹھایا۔
ناسک ضلع کے اس مسلم اکثریتی شہر کا دورہ کرنے کے بعد سومیا نے اچانک اعلان کیا کہ یہاں ایک ہزار سے زیادہ ‘روہنگیا اور بنگلہ دیشی لوگ غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں’اور انہوں نے بغیر کسی خوف کے یہاں رہتے ہوئے غیر قانونی ہندوستانی دستاویز بھی حاصل کر لیے ہیں۔ سومیا کے اس دعوے کی تعداد چند دنوں میں بڑھ کر’چار ہزار غیر قانونی تارکین وطن’ تک پہنچ گئی۔
تاہم، سومیا کے الزامات کسی ثبوت پر مبنی نہیں تھے، بلکہ یہ ایک عام فرقہ وارانہ الزام تھا جو دائیں بازو کے بہت سے کارکن اور سیاسی رہنما گزشتہ ایک دہائی سے لگاتے آ رہے ہیں۔ لیکن سومیا کا بیان بی جے پی کی قیادت والی مہایوتی حکومت کے لیے فوری طور پر ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) بنانے کے لیے کافی تھا۔
اس سلسلے میں ایک ہفتے سے بھی کم وقت کے اندر مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس نے ناسک زون کے اسپیشل انسپکٹر جنرل کی سربراہی میں ایک ایس آئی ٹی کا اعلان کیا۔ اورجلد ہی مالیگاؤں میں ایک خصوصی دفتر قائم ہو گیا۔
ایس آئی ٹی نے زیادہ تر مقامی لوگوں کو پوچھ گچھ کے لیے بلایا، 19 گرفتار
اس معاملے کی چھان بین کے لیے ایس آئی ٹی نے ان سینکڑوں لوگوں کو طلب کیا ہے، جنہوں نے گزشتہ سال اپنے سرٹیفکیٹ کے لیے درخواست دی تھی یا اس کو حاصل کیاہے۔
ایس آئی ٹی کی اب تک کی جانچ کی بنیاد پر اس بات کی تصدیق ہوگئی ہے کہ یہ لوگ غیر قانونی روہنگیا یا بنگلہ دیشی نہیں ہیں۔ زیادہ تر معاملوں میں، وہ دوسری ریاستوں سے آنے والے مہاجر بھی نہیں ہیں، بلکہ مقامی لوگ ہیں، جو مالیگاؤں میں نسلوں سے رہ رہے ہیں اور ان کے پاس صرف شہریت کا ثبوت نہیں تھا۔
مالیگاؤں پولیس نے جن 19 لوگوں کو گرفتار کیا ہے، ان میں مقامی درخواست دہندگان (ایک کالج کی طالبہ اور دو خواتین)، کچھ دلال (ایجنٹ)، وکیل اور ایک مقامی صحافی شامل ہیں۔ ان افراد کو ‘غیر قانونی تارکین وطن’ ہونے کی وجہ سے گرفتار نہیں کیا گیا، بلکہ برتھ سرٹیفکیٹ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے یا دیگر دستاویز سے متعلق دھوکہ دہی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
ایف آئی آر میں لگائی گئی دفعات اس بات کی نشاندہی نہیں کرتی ہیں کہ پولیس کو یہ دعویٰ کرنے کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت ملے ہیں کہ یہ افراد ہندوستانی سرزمین پر رہنے والے غیر قانونی غیر ملکی ہیں۔
تاہم، سومیا حکومت کی اس کارروائی کا کریڈٹ لیتے ہوئے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ یہ پوری مشق مالیگاؤں میں’بنگلہ دیشی اور روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن’ ہے۔
یہ دیکھنے کے بعد کہ ریاستی حکومت مالیگاؤں میں کیے گئے ان کے دعوے پر فوراً کارروائی کر رہی ہے، وہ ریاست کے دیگر حصوں کا بھی دورہ کر رہے ہیں اور اسی طرح کے الزامات لگا رہے ہیں۔ وہ پولیس پر دوسرے اضلاع میں بھی مسلمانوں کے خلاف مقدمات درج کرنے کا دباؤ ڈال رہے ہیں۔ امراوتی ضلع سومیا کےسب سے حالیہ ہدف میں سے ایک ہے۔

مالیگاؤں کے لوگوں کو ایس آئی ٹی کی جانب سے جاری کیا گیا نوٹس
کئی متاثرہ افراد کی نمائندگی کرنے والے وکیل توصیف سلیم نے دی وائر کو بتایا کہ مالیگاؤں میں گرفتار کیے گئے بہت سے لوگوں نے ایجنٹوں کے ذریعے اپنی پیدائش اور دیگر دستاویز کے لیے درخواست دی تھی۔
توصیف نے دعویٰ کیا کہ ،’ان میں سے اکثر کو یہ بھی نہیں معلوم کہ اپنے دستاویزات کیسے حاصل کریں۔ انہوں نے مقامی ایجنٹوں سے رابطہ کیا اور مصیبت میں پھنس گئے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ ان کے دستاویزوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی تھی، لیکن نام نہاد چھیڑ چھاڑ بنیادی طور پر ان کے نام کا غلط املا یا غلط تاریخ پیدائش ہے۔’
‘میرا خاندان یہاں نسلوں سے ہے، ایس آئی ٹی نے مجھ سے پوچھا کہ میں ہندوستان میں کیسےداخل ہوا’
بی جے پی لیڈر سومیا کے الزامات سے پورے شہر میں سنسنی پھیل گئی ہے۔ 25 سالہ عبدل شریف کا خاندان مالیگاؤں میں کئی نسلوں سے رہ رہا ہے۔ شریف نے اپنے آدھار کارڈ پر اپنا نام اپڈیٹ کرنے کے لیے درخواست دی تھی۔ انہوں نے بتایا، ‘جب میں پیدا ہوا تو میرے خاندان نے غلطی سے میرے والد کے نام کے بجائے میرے دادا کا نام شامل کر دیا۔ میں نے دو ماہ قبل اسے ٹھیک کرنے کے لیے درخواست دی تھی اور اسے بغیر کسی پریشانی کے ٹھیک کر دیا گیا۔’
تاہم، 17 فروری کو انہیں نوٹس جاری کیا گیا اور ایک دن کے اندر ایس آئی ٹی کے سامنے حاضر ہونے کو کہا گیا۔ مراٹھی میں جاری اس نوٹس میں کہا گیا ہے، ‘اگر آپ ایک دن کے اندر ایس آئی ٹی کے سامنے پیش نہیں ہوتے ہیں، تو یہ سمجھا جائے گا کہ آپ کے پاس کوئی وضاحت نہیں ہے، اور افسران ضروری کارروائی شروع کرنے کے لیے آزاد ہوں گے۔’
شریف کا کہنا ہے کہ ایس آئی ٹی کے دفتر میں ان سے بمشکل ان کے درمیانی نام میں تبدیلی کے بارے میں پوچھا گیا۔ شریف نے دی وائر کو بتایا،’وہ مجھ سے میرے ہندوستان آنے کے بارے میں سوال پوچھتے رہے، میں مالیگاؤں میں کتنا عرصہ رہا، اور کتنے دوسرے میرے ساتھ آئے،’ شریف نے دی وائر کو بتایا۔
مالیگاؤں میں مقیم انسانی حقوق کے وکیل شاہد ندیم، جو اس وقت سپریم کورٹ میں پریکٹس کر رہے ہیں، نے بتایا کہ ان کے والدین کو بھی ایس آئی ٹی نے پوچھ گچھ اور دستاویز کی تصدیق کے لیے بلایا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ مکمل جائزہ لینے کے بعد ان کے والدین کو جانے کی اجازت دی گئی۔ ان کے کیس میں دستاویز کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا کوئی الزام نہیں تھا، پھر بھی انہیں ایس آئی ٹی نے طلب کیا تھا۔
شاہد کا کہنا ہے کہ مالیگاؤں میں لوگوں میں گرفتاری، ہراساں کیے جانے اور حراست میں لیے جانے کا واضح خوف ہے۔
شاہد کہتے ہیں،’لوگ کئی نسلوں سے یہاں (مالیگاؤں) رہ رہے ہیں، اور اچانک ان سب کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ نہ ہی ریاستی حکومت اور نہ ہی ایس آئی ٹی ٹیم نے رہائشیوں کو یہ یقین دلانے کے لیے کچھ کیا ہے کہ یہ ایک معمول کی مشق ہے اور اس کا مقصد کسی کمیونٹی کو ڈرانا یا مجرم کے طورپر پیش کرنا نہیں ہے۔’
مالیگاؤں میں پولیس تشدد اور کریمنلائزیشن کی طویل تاریخ ہے
واضح ہوکہ مالیگاؤں میں پولیس تشدد اور کریمنلائزیشن کی ایک طویل تاریخ ہے۔ مسلم اکثریتی شہر ہونے کی وجہ سے یہ پولیس کے لیے کافی عرصے سے ایک آسان ہدف رہا ہے۔ یہاں نوجوانوں کو غلط طریقے سے دہشت گردی سے متعلق مقدمات میں پھنسایا جاتا ہے۔ اس کی ایک بڑی مثال 2006 کے مالیگاؤں کے دو بم دھماکے ہیں، جن میں 37 افراد ہلاک اور 100 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔
اس وقت کی کانگریس کی قیادت والی یو پی اے حکومت کے تحت پولیس نے اس معاملے میں کئی مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا تھا۔ مسلمان مردوں، جن میں سے زیادہ تر پڑھے لکھے اور پیشہ ور افراد تھے، نے کہا تھا کہ انہیں غلط طریقے سے پھنسایا جا رہا ہے لیکن سچ سامنے آنے میں پانچ سال لگ گئے۔
سال 2011 میں جب قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) نے ریاست کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ سے کیس سنبھالا تو پہلی بار یہ تسلیم کیا گیا کہ یہ دھماکہ درحقیقت ہندو انتہا پسندوں کا کام تھا۔ کئی دیگر معاملوں میں مالیگاؤں کے کئی نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا اور بعد میں بری کر دیا گیا۔
لیکن یہ شہر دہشت گردانہ سرگرمیوں کی ‘جائے پیدائش’ کے طور پر بدنام ہو گیا۔
سال 2020 میں منظور ہونے والے شہریت (ترمیمی) ایکٹ (سی اے اے) اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) اور نیشنل پاپولیشن رجسٹر (این پی آر) کے خلاف بڑھتی ہوئی بے چینی کے ساتھ اقلیتی برادریوں، خاص طور پر مسلمانوں نے اپنی پیدائش اور شہریت کے دیگر دستاویز جمع کرنا شروع کر دیے تھے۔
علاقے کے سابق ایم ایل اے آصف شیخ کا کہنا ہے کہ 2020 کے بعد شہریت کے نئے قوانین کے خوف سے درخواستوں کی تعداد میں اچانک اضافہ ہونا شروع ہو گیا تھا۔
شیخ کہتے ہیں،’ہر عمر گروپ کے لوگ ہر قسم کے دستاویز کے لیے درخواست دے رہے ہیں۔ ان تمام سالوں میں کسی نے اپنا وجود یا قومیت ثابت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ لیکن 2019 کے آخر میں سب کچھ بدل گیا۔ مسلمانوں کو اچانک بتایا گیا کہ وہ اب اپنی قومیت کو ہلکے میں نہیں لے سکتے۔’
شیخ نے دیگر سماجی شعور رکھنے والے شہریوں کے ساتھ مالیگاؤں میں ایک ‘رکشا سمیتی’ قائم کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ روزانہ کئی درجن لوگ ایس آئی ٹی نوٹس لے کر کمیٹی کے دفتر پہنچتے ہیں۔ شیخ کے مطابق نوٹس اس طرح لکھا گیا ہے کہ سب کو مشتبہ سمجھا جائے۔
وہ کہتے ہیں،’جن لوگوں نے معصومیت میں اپنے دستاویز کے لیے درخواست دی ہے، ان پر دھوکہ دہی کرنے والے یا اس سے بھی بدتر، غیر قانونی تارکین وطن کا الزام لگایا جا رہا ہے۔’
مالیگاؤں میں ایک یوٹیوب چینل ‘میدانِ صحافت ‘ کے ایڈیٹر شہزاد اختر مقامی لوگوں کی روزانہ کی حالت زار کو دستاویزی شکل دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر کم از کم 100 لوگ ایس آئی ٹی کے دفتر کے باہر جمع ہوتے ہیں، کاغذ کے ہرٹکڑے کے ساتھ انہیں یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ ملک کے قانونی باشندے ہیں۔
اختر کہتے ہیں،’ایس آئی ٹی کو بنے ہوئے ڈیڑھ ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اگر ایس آئی ٹی کو شہر میں کوئی مشکوک شخص ملتا تو وہ اسے اب تک گرفتار کر لیتے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یہ پوری مشق صرف مقامی لوگوں کو ہراساں کرنے اور 2024 کے پارلیامانی انتخابات میں بی جے پی کے خلاف ووٹ دینے کی سزا دینے کے لیے کی گئی تھی۔’

ایس آئی ٹی دفترمیں اپنے دستاویزکی تصدیق کے عمل کے دوران لوگ۔
‘یہ مشق لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی امیدوار کی شکست کا نتیجہ ہے’
معلوم ہو کہ مالیگاؤں دھلے لوک سبھا حلقہ کے تحت آتا ہے اور یہاں دو لاکھ سے زیادہ ووٹر ہیں۔خیال کیا جاتا ہے کہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں 1.8 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے کانگریس کی شوبھا باچاو کو ووٹ دیا تھا، جنہوں نے دو بار کے بی جے پی کے ایم پی کے خلاف 3000 ووٹوں کے معمولی فرق سے کامیابی حاصل کی تھی۔ شوبھاکی جیت کا براہ راست سہرا مالیگاؤں علاقے سے ملنے والی حمایت کو دیا جاتا ہے۔
اختر اور شیخ دونوں کے مطابق یہ ساری مشق پارلیامانی انتخابات کا نتیجہ ہے۔
شیخ پوچھتے ہیں،’ موجودہ حکومت کے خلاف ووٹ دینے والی کمیونٹی کو سبق سکھانے کا اس سے بہتر طریقہ کیا ہو سکتا ہے؟’
شوبھا، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ علاقے کے ووٹوں کی بدولت جیت گئے ہیں، نے پورے معاملے اور کارروائی سے دوری بنا رکھی ہے۔
شیخ کہتے ہیں،’جنوری میں جب ایس آئی ٹی تشکیل دی گئی تو مقامی لوگوں نے شوبھا سے رابطہ کیا اور ان سے پارلیامنٹ میں مسئلہ اٹھانے کو کہا۔ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔’
دی وائر نے ردعمل کے لیے شوبھا سے کئی بار رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )