گزشتہ دس سالوں میں مسلم مخالف تعصب اور جذبات عروج پر پہنچ گئےہیں– اور اسے مقتدرہ پارٹی کی خطرناک سیاست نے اوربھڑکایا ہے۔ پاکستان کے ساتھ جب بھی کشیدگی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے، تو اس کا اثر مسلمانوں پر ظلم کی صورت میں نظر آتا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ پہلگام حملے کے بعد جو ماحول بنا ہے، وہ بالکل وہی ہے جس کا مجھے خدشہ تھا۔
کرناٹک کے بی جے پی ایم ایل اے ہریش پونجا نے گوپال کرشن مندر ٹرسٹ کے ایک پروگرام کے دوران اشتعال انگیز تقریر کی تھی۔ انہیں آرگنائزنگ کمیٹی کے ارکان سے یہ پوچھتے ہوئے سنا گیا کہ مسلم کمیونٹی کو اس تقریب میں کیوں مدعو کیا گیا۔ اب مندر ٹرسٹ نے مسلم کمیونٹی سے معافی مانگی ہے۔
جس حکومت نے اب صوفیہ قریشی کو اپنا چہرہ بناکرپیش کیا ہے، وہ ایک فوجی کی بیوی کے ساتھ کھڑی نہیں ہوئی۔ صرف اس لیےاسےتنہا چھوڑ دیا گیا کہ وہ اپنی تکلیف کے ساتھ اور اس کے باوجودمسلمانوں کے ساتھ کھڑی ہوئی تھی۔
ہمانشی نروال کے بیان میں انسانیت کو بیدار کرنے کی جو طاقت تھی، اس سے خوفزدہ ہندوتوا گروہ کی جانب سے ان کی ساکھ کو ختم کرنے کے لیےمذمتی مہم چلائی جا رہی ہے۔ یہ ایک عام ہندو کے لیے آزمائش کا وقت ہے؛ وہ ہمانشی کے ساتھ کھڑا ہوگا یا ان پر حملہ آور اس گروہ کے ساتھ؟
پہلگام دہشت گردانہ حملے میں ہلاک ہونے والے ہندوستانی بحریہ کے لیفٹیننٹ ونے نروال کی اہلیہ ہمانشی نے نروال کی سالگرہ کے موقع پر منعقدہ ایک پروگرام میں کہا کہ کسی سے نفرت نہیں ہونی چاہیے۔ ہم نہیں چاہتے کہ لوگ مسلمانوں اور کشمیریوں کے پیچھے پڑیں۔ ہم صرف امن چاہتے ہیں۔
سپریم کورٹ کی جانب سے صدر جمہوریہ کو ریاستوں کے گورنروں کی طرف سے بھیجے گئے بلوں پر فیصلہ لینے کے لیے ٹائم لائن دینے کے چند دنوں بعد نائب صدر جگدیپ دھنکھڑ نے سپریم کورٹ پر تنقید کرتے ہوئے آرٹیکل 142- جو سپریم کورٹ کو اختیارات دیتا ہے – کو ‘جمہوری قوتوں کے خلاف جوہری میزائل’ قرار دیا۔
وقف (ترمیمی) ایکٹ کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سماعت کے دوسرے دن مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی کہ اگلی سماعت تک کسی بھی وقف جائیداد کو ڈی- نوٹیفائی نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی کسی غیر مسلم کو کسی وقف بورڈ یا کونسل میں تقرری دی جائے گی۔
وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سپریم کورٹ نے پوچھا کہ کیا مرکزی حکومت مسلمانوں کو ہندو بندوبستی بورڈ میں شامل کرنے کے لیے تیار ہے، جس طرح سے وہ وقف بورڈ میں غیر مسلم اراکین کا مطالبہ کر رہی ہے۔
مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کو ہندو سماج کے مزاج کا لازمی عنصر بنانے کی مہم نریندر مودی کی قیادت میں کامیاب رہی ہے۔ قاتل کو مقتول کا سرپرست بناکر پیش کرنے سے بڑھ کر بے شرمی بھلا اور کیا ہو سکتی ہے۔
پچھلے دس سالوں سے ہندو تہوار مسلمانوں کی مخالفت کا وسیلہ بن چکے ہیں۔ ہندوؤں کے لیے تہوار منانے کا مطلب یہی رہ گیا ہے وہ جلوس نکالیں اور مسلمانوں کو گالی دیں۔ مسلمانوں کو گالی دیتے ہوئے گانے بجائیں اور ان کے خلاف تشدد کے لیے اشتعال پیدا کریں۔
انج چودھری نے جمعہ کا ذکر کرتے ہوئے اشارہ کیا کہ مسلمانوں کو ہولی کے رنگ سے اعتراض ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ اعتراض دوسروں کو بھی ہو سکتا ہے- کچھ کو رنگ سے الرجی ہو سکتی ہے، کچھ کو رنگ پسند نہیں ہو سکتا۔ ضروری نہیں کہ یہ سب مسلمان ہوں۔ جو نہیں چاہتے انہیں رنگ لگانے کی ضد کیوں؟
اتر پردیش کے بانس ڈیہہ سے بی جے پی ایم ایل اے کیتکی سنگھ نے چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ سے نئے بلیا میڈیکل کالج میں مسلمانوں کے لیے ‘علیحدہ ونگ’ بنانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کے لیے علیحدہ طبی سہولیات ہندوؤں کے تحفظ کو یقینی بنائے گی۔
مہاراشٹر کے اہلیا نگر میں 700 سالہ قدیم کنیف ناتھ مندر کے سالانہ مڈھی میلے میں ملک بھر سے خانہ بدوش برادریوں کے لوگ بڑی تعداد شرکت کرتے ہیں۔ حال ہی میں مڈھی گاؤں کی گرام سبھا میں اس میلے سے مسلم تاجروں کے بائیکاٹ کرنے کی تجویز پر دستخط کیے گئے ہیں۔
بی جے پی لیڈر نے مالیگاؤں میں ‘غیر قانونی بنگلہ دیشی اور روہنگیا’ کے ہونے کے دعوے کیے تھے، جس کے بعد حکومت نے ایس آئی ٹی تشکیل دی اور تحقیقات شروع کی۔ تاہم، اب تک گرفتار کیے گئے لوگوں پر’غیر قانونی تارکین وطن’ ہونے کا الزام نہیں ہے، بلکہ انہیں مبینہ طور پر دستاویز سے متعلق جعلسازی کے لیے گرفتار کیا گیا ہے۔
ڈھائی ہزار سے زائد سی سی ٹی وی کیمرے اور چپے چپے پر سکیورٹی اہلکار کا دعویٰ کرنے والی انتظامیہ بھگدڑ کو روکنے میں کیوں ناکام رہی؟ انتظامیہ کو جھونسی کے علاقے میں ہوئی بھگدڑ کی جانکاری کیوں نہیں تھی؟ اگر جانکاری تھی تو بکھرے کپڑے، چپلوں اور دیگر چیزوں کو بڑے ٹرکوں میں کس کے حکم پر ہٹوایا جا رہا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ جب کوئی گنگا نہا کر گھر آتا ہے تو اس کے پاؤں میں لگ کر گنگا کی ماٹی بھی ان لوگوں کے لیے چلی آتی ہے جو گنگا تک نہیں جا پائے۔ مہاکمبھ میں بھگدڑ کی رات جب عقیدت مند میلے کے علاقے سے نکل کر شہر میں پھنس گئے تو جن مسلمانوں کو کمبھ میں حصہ لینے سے روکا گیا تھا، کمبھ خود ہی ان کےگھروں اور مسجدوں میں چلا آیا۔
اگست 2021 میں مدھیہ پردیش کے اندور میں ہندو خواتین کو مبینہ طور پرہراساں کرنے کے الزام میں ایک بھیڑ نے چوڑی فروش تسلیم علی کو بری طرح سے زدوکوب کیا تھا۔ اب مقامی عدالت نے انہیں چھیڑ چھاڑ کے اس معاملے میں بری کر دیا ہے، جس کے لیے انہیں 107 دن جیل میں گزارنے پڑے۔
اس نئے ہندو حق اور اختیارات کی بدولت کوئی بھی ہندو کسی بھی مسلمان سے کسی بھی موضوع پر پوچھ گچھ کرسکتا ہے۔ اسے ‘جئے شری رام’ کا نعرہ لگانے پر مجبور کر سکتا ہے ، کسی مسلمان کا ٹفن کھول کر دیکھ سکتا ہے، اس کا فریج چیک کر سکتا ہے، اس کی نماز میں خلل ڈال سکتا ہے۔
ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف غیر مسلم بھی بول رہے ہیں، لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جانا چاہیے کہ مسلمانوں کو اپنے حقوق کے لیے یا اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف تنہا آواز نہیں اٹھانی چاہیے۔
امت باگڑی نے بچپن میں ایک بار انجانے میں برہمنوں کے کنویں سے پانی پی لیا تھا۔ انہیں فوراً اس کنویں سے دور رہنے کی تنبیہ کی گئی تھی۔ اس کے بعد وہ کبھی اس کنویں پر نہیں گئے۔
کرناٹک ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران ایک جج نے بنگلورو کے مسلم اکثریتی علاقے کو ‘پاکستان’ کہا تھا۔ اب سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ عدالت کو اس طرح کا تبصرہ نہیں کرنا چاہیے، جن کوخواتین کی تضحیک یا سماج کے کسی بھی طبقے کے لیے متعصب خیال کیا جا سکتا ہے۔
کرناٹک ہائی کورٹ کے جسٹس سریش نے ایک کیس کی سماعت کرتے ہوئے بنگلورو کے ایک مسلم اکثریتی علاقے کو ‘پاکستان’ کہا تھا۔ اب سپریم کورٹ نے اس کا از خود نوٹس لیتے ہوئے ہائی کورٹ کے رجسٹرار جنرل سے رپورٹ طلب کی ہے۔
یوگی حکومت کے سات سالوں میں اتر پردیش میں جرائم کے خاتمے کے کئی بلند و بانگ دعوے کے باوجود ایسے پولیس ‘انکاؤنٹر’ کی ضرورت ختم نہیں ہو رہی جہاں فرار ہونے کی مبینہ کوشش میں ملزم کو مار گرایا جاتا ہے۔ یا پولیس جس کو زندہ گرفتار کرنا چاہتی ہے، گولی اس کے پاؤں میں لگتی ہے، ورنہ
یہ واقعہ بلاس پور میں پیش آیا، جہاں اسرائیلی حملے کا سامنا کرنے والے فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے پانچ افراد نے فلسطینی جھنڈے اپنے گھروں کی چھت پر لگائے تھے۔ پولیس نے ان کے خلاف ملک کی یکجہتی کو خطرے میں ڈالنے کے جرائم سے متعلق بی این ایس کی دفعہ کے تحت کیس درج کیا ہے۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے ایک بیان میں غزہ اور میانمار کے ساتھ ہندوستان کو بھی اس فہرست میں رکھا تھا، جہاں مسلمانوں کی حالت اچھی نہیں ہے۔ ہندوستان نے اس پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقلیتوں پر بیان بازی کرنے والے ممالک کو دوسروں کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرنے سے پہلے اپنا ریکارڈ چیک کرنا چاہیے۔
اتر پردیش کے غازی آباد میں گل دھر ریلوے اسٹیشن کے قریب کوی نگر علاقے میں ہندو رکشا دل کے کارکنوں نے مسلمانوں کو غیر قانونی بنگلہ دیشی قرار دیتے ہوئے حملہ کر دیا، جبکہ پولیس کے مطابق حملے کا نشانہ بننے والے ہندوستان کے شہری ہیں۔
اس بجٹ میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور ان کی تعلیم کے لیے جاری تمام اسکیموں میں کٹوتی کی گئی ہے۔ یہ واضح ہے کہ بی جے پی کے نزدیک مسلمانوں کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے۔
بہار کے سیتامڑھی سے جنتا دل (یونائیٹڈ) کے نو منتخب ایم پی دیویش چندر ٹھاکر نے کہا کہ یادو اور مسلمان ہمارے یہاں آتے ہیں تو ان کا استقبال ہے۔ چائے پیئیں، مٹھائی کھائیں۔ لیکن کسی مدد کی امید نہ کریں، میں ان کا کوئی کام نہیں کروں گا۔
چار جون کے بعد برسر اقتدار آنے والی پارٹی پر لازم ہے کہ مسلم آبادی کے لیے ایسے پروگرام تیار کرے، جس سے وہ بھی دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی طرح اپنے پیروں پر کھڑے ہوں اور ملک کی اقتصادیات میں اپنا حصہ ڈالیں۔
گزشتہ اپریل میں راجستھان کے بانس واڑہ سے شروع ہونے والی تقریروں کی ایک سیریز میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کھلے عام مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے جھوٹے دعوے کیے ہیں کہ کانگریس ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی سے ریزرویشن چھین کر مسلمانوں کو دینا چاہتی ہے۔ بی جے پی نے اپنے آفیشل اکاؤنٹ سے سوشل میڈیا پر مسلم مخالف ویڈیو بھی ڈالے ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی اقتصادی مشاورتی کونسل (ای اے سی –پی ایم) کی طرف سے انتخابات کے درمیان آبادی پر مبنی رپورٹ کی بنیاد پر کہا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کی آبادی میں 43 فیصد اضافہ ہوا ہے اور ہندوؤں کی آبادی میں 7 فیصد کمی ہوئی ہے۔ تاہم یہ مکمل سچائی نہیں ہے۔ اس فرقہ وارانہ سیاست پر دی وائر کی ہیلتھ رپورٹر بن جوت کور سے اجئے کمار کی بات چیت۔
بی جے پی لوک سبھا انتخابات 2024 میں پہلے ہی مسلمان مخالف مہم چلا رہی ہے۔ پی ایم -ای اے سی کی رپورٹ آنے کے بعد میڈیا اس کے کچھ حصوں کا حوالہ دے کر سنسنی خیز خبریں دکھا رہا ہے، جس سے لگتا ہے کہ بی جے پی کے جھوٹے بیانیے کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ ماہ ایک انتخابی ریلی میں مسلمانوں کو ‘زیادہ بچے پیدا کرنے والے’ کہا تھا۔
لوک سبھا انتخابات کے لیے بی جے پی کی انتخابی مہم میں پارٹی کے اسٹار پرچارک اور وزیر اعظم نریندر مودی مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور کانگریس کے منشور کا نام لے کر گمراہ کن اور فرضی دعوے کر رہے ہیں۔ کیا ان میں اور گراوٹ آئے گی، اس بارے میں تبادلہ خیال کر رہے ہیں دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن اور ڈی یو کے پروفیسر اپوروانند۔
ابھی تک آس تھی کہ شاید اس بار بی جے پی ترقی اور مثبت ایجنڈہ کو لے کر میدان میں اترے گی، کیونکہ مسلمان والا ایشو حال ہی میں کرناٹک کے صوبائی انتخابات میں پٹ گیا تھا، جہاں ٹیپو سلطان سے لے کر حجاب وغیرہ کو ایشو بنایا گیا تھا۔ مگر ابھی راجستھان میں جس طرح کی زبان انہوں نے خود استعمال کی اور مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کی تو یہ طے ہوگیا کہ 2024 کے ترقی یافتہ ہندوستان کا یہ الیکشن پولرائزیشن اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا کر ہی لڑا جائے گا۔
وزیر اعظم نریندر مودی کو نشانہ بناتے ہوئے شرومنی اکالی دل نے کہا کہ ہندوستان کو ایک خودمختار، سیکولر، جمہوری ملک کے طور پر جانا جاتا ہے۔ وزیر اعظم کو کبھی بھی ایسا بیان نہیں دینا چاہیے جو ہندوستان کے لوگوں میں فرقہ وارانہ منافرت، باہمی شکوک و شبہات اور زہر پھیلاتے ہوں۔
ویڈیو: وزیر اعظم نریندر مودی نے راجستھان کے بانس واڑہ میں ایک انتخابی ریلی میں سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے ایک مبینہ بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر کانگریس اقتدار میں آتی ہے تو وسائل پر پہلا حق مسلمانوں کا ہوگا۔ لیکن کیا منموہن سنگھ نے سچ میں ایسا کہا تھا؟
متھرا کے شاہی عیدگاہ کے احاطے میں ‘کرشن کوپ’ میں پوجا کی مانگ کرنے والی ایک عرضی پر مسلم فریق نے اعتراض کرتے ہوئےالہ آباد ہائی کورٹ سے کہا کہ اس پر کوئی حکم جاری نہ کیا جائے کیونکہ مسجد کے وجود سے متعلق اصل مقدمہ اس عدالت میں زیر سماعت ہے۔
حال ہی میں سامنے آئے ایک وائرل ویڈیو میں دہلی پولیس کے سب انسپکٹر منوج تومر کو شہر کے اندرلوک علاقے میں مکی جامع مسجد کے قریب نماز ادا کرنے والے لوگوں کو لات مارتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ اس واقعہ سے پیدا ہونے والے غم و غصے کے درمیان انہیں معطل کر دیا گیا تھا۔
ویڈیو: اتراکھنڈ کے سلکیارا سرنگ میں پھنسے 41 مزدوروں کے بچاؤ آپریشن کی قیادت کرنے والے ‘قومی ہیرو’ وکیل حسن کے گھر کو دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے تجاوزات کا حوالہ دیتے ہوئے منہدم کر دیا ہے۔ ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ان کے پاس تمام ضروری دستاویز موجود ہیں اور اس کارروائی کی وجہ ان کا مسلمان ہونا ہو سکتا ہے۔
اترکاشی کی سلکیارا سرنگ میں پھنسے 41 مزدوروں کو بچانے میں جب جدید ترین مشینیں اور غیرملکی ماہرین ناکام ہو گئے تھے، تب وکیل حسن کی قیادت میں ریٹ مائنرس کی ٹیم نے بچاؤ آپریشن کو انجام تک پہنچایا تھا۔ اب دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے وکیل کے مکان کو غیر قانونی قرار دے کر منہدم کر دیا ہے۔