اتر پردیش کے غازی آباد میں گل دھر ریلوے اسٹیشن کے قریب کوی نگر علاقے میں ہندو رکشا دل کے کارکنوں نے مسلمانوں کو غیر قانونی بنگلہ دیشی قرار دیتے ہوئے حملہ کر دیا، جبکہ پولیس کے مطابق حملے کا نشانہ بننے والے ہندوستان کے شہری ہیں۔
اس بجٹ میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور ان کی تعلیم کے لیے جاری تمام اسکیموں میں کٹوتی کی گئی ہے۔ یہ واضح ہے کہ بی جے پی کے نزدیک مسلمانوں کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے۔
بہار کے سیتامڑھی سے جنتا دل (یونائیٹڈ) کے نو منتخب ایم پی دیویش چندر ٹھاکر نے کہا کہ یادو اور مسلمان ہمارے یہاں آتے ہیں تو ان کا استقبال ہے۔ چائے پیئیں، مٹھائی کھائیں۔ لیکن کسی مدد کی امید نہ کریں، میں ان کا کوئی کام نہیں کروں گا۔
چار جون کے بعد برسر اقتدار آنے والی پارٹی پر لازم ہے کہ مسلم آبادی کے لیے ایسے پروگرام تیار کرے، جس سے وہ بھی دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی طرح اپنے پیروں پر کھڑے ہوں اور ملک کی اقتصادیات میں اپنا حصہ ڈالیں۔
گزشتہ اپریل میں راجستھان کے بانس واڑہ سے شروع ہونے والی تقریروں کی ایک سیریز میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کھلے عام مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے جھوٹے دعوے کیے ہیں کہ کانگریس ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی سے ریزرویشن چھین کر مسلمانوں کو دینا چاہتی ہے۔ بی جے پی نے اپنے آفیشل اکاؤنٹ سے سوشل میڈیا پر مسلم مخالف ویڈیو بھی ڈالے ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی اقتصادی مشاورتی کونسل (ای اے سی –پی ایم) کی طرف سے انتخابات کے درمیان آبادی پر مبنی رپورٹ کی بنیاد پر کہا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کی آبادی میں 43 فیصد اضافہ ہوا ہے اور ہندوؤں کی آبادی میں 7 فیصد کمی ہوئی ہے۔ تاہم یہ مکمل سچائی نہیں ہے۔ اس فرقہ وارانہ سیاست پر دی وائر کی ہیلتھ رپورٹر بن جوت کور سے اجئے کمار کی بات چیت۔
بی جے پی لوک سبھا انتخابات 2024 میں پہلے ہی مسلمان مخالف مہم چلا رہی ہے۔ پی ایم -ای اے سی کی رپورٹ آنے کے بعد میڈیا اس کے کچھ حصوں کا حوالہ دے کر سنسنی خیز خبریں دکھا رہا ہے، جس سے لگتا ہے کہ بی جے پی کے جھوٹے بیانیے کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ ماہ ایک انتخابی ریلی میں مسلمانوں کو ‘زیادہ بچے پیدا کرنے والے’ کہا تھا۔
لوک سبھا انتخابات کے لیے بی جے پی کی انتخابی مہم میں پارٹی کے اسٹار پرچارک اور وزیر اعظم نریندر مودی مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور کانگریس کے منشور کا نام لے کر گمراہ کن اور فرضی دعوے کر رہے ہیں۔ کیا ان میں اور گراوٹ آئے گی، اس بارے میں تبادلہ خیال کر رہے ہیں دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن اور ڈی یو کے پروفیسر اپوروانند۔
ابھی تک آس تھی کہ شاید اس بار بی جے پی ترقی اور مثبت ایجنڈہ کو لے کر میدان میں اترے گی، کیونکہ مسلمان والا ایشو حال ہی میں کرناٹک کے صوبائی انتخابات میں پٹ گیا تھا، جہاں ٹیپو سلطان سے لے کر حجاب وغیرہ کو ایشو بنایا گیا تھا۔ مگر ابھی راجستھان میں جس طرح کی زبان انہوں نے خود استعمال کی اور مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کی تو یہ طے ہوگیا کہ 2024 کے ترقی یافتہ ہندوستان کا یہ الیکشن پولرائزیشن اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا کر ہی لڑا جائے گا۔
وزیر اعظم نریندر مودی کو نشانہ بناتے ہوئے شرومنی اکالی دل نے کہا کہ ہندوستان کو ایک خودمختار، سیکولر، جمہوری ملک کے طور پر جانا جاتا ہے۔ وزیر اعظم کو کبھی بھی ایسا بیان نہیں دینا چاہیے جو ہندوستان کے لوگوں میں فرقہ وارانہ منافرت، باہمی شکوک و شبہات اور زہر پھیلاتے ہوں۔
ویڈیو: وزیر اعظم نریندر مودی نے راجستھان کے بانس واڑہ میں ایک انتخابی ریلی میں سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے ایک مبینہ بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر کانگریس اقتدار میں آتی ہے تو وسائل پر پہلا حق مسلمانوں کا ہوگا۔ لیکن کیا منموہن سنگھ نے سچ میں ایسا کہا تھا؟
متھرا کے شاہی عیدگاہ کے احاطے میں ‘کرشن کوپ’ میں پوجا کی مانگ کرنے والی ایک عرضی پر مسلم فریق نے اعتراض کرتے ہوئےالہ آباد ہائی کورٹ سے کہا کہ اس پر کوئی حکم جاری نہ کیا جائے کیونکہ مسجد کے وجود سے متعلق اصل مقدمہ اس عدالت میں زیر سماعت ہے۔
حال ہی میں سامنے آئے ایک وائرل ویڈیو میں دہلی پولیس کے سب انسپکٹر منوج تومر کو شہر کے اندرلوک علاقے میں مکی جامع مسجد کے قریب نماز ادا کرنے والے لوگوں کو لات مارتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ اس واقعہ سے پیدا ہونے والے غم و غصے کے درمیان انہیں معطل کر دیا گیا تھا۔
ویڈیو: اتراکھنڈ کے سلکیارا سرنگ میں پھنسے 41 مزدوروں کے بچاؤ آپریشن کی قیادت کرنے والے ‘قومی ہیرو’ وکیل حسن کے گھر کو دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے تجاوزات کا حوالہ دیتے ہوئے منہدم کر دیا ہے۔ ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ان کے پاس تمام ضروری دستاویز موجود ہیں اور اس کارروائی کی وجہ ان کا مسلمان ہونا ہو سکتا ہے۔
اترکاشی کی سلکیارا سرنگ میں پھنسے 41 مزدوروں کو بچانے میں جب جدید ترین مشینیں اور غیرملکی ماہرین ناکام ہو گئے تھے، تب وکیل حسن کی قیادت میں ریٹ مائنرس کی ٹیم نے بچاؤ آپریشن کو انجام تک پہنچایا تھا۔ اب دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے وکیل کے مکان کو غیر قانونی قرار دے کر منہدم کر دیا ہے۔
ویڈیو: وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ 14 فروری کو ابوظہبی کے پہلے ہندو پتھر کے مندر کا افتتاح کیا تھا۔ اس دوران انہوں نے اسے انسانیت کے مشترکہ ورثے کی علامت قرار دیا اور انسانی تاریخ کا نیا اور سنہری باب رقم کرنے پر متحدہ عرب امارات کا شکریہ ادا کیا۔ اس مکمل پیش رفت کے حوالے سے دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کا نظریہ۔
ویڈیو: اتراکھنڈ اسمبلی نے یکساں سول کوڈ بل کو پاس کر دیا ہے، جو ریاست کی آدی واسی کمیونٹی کے علاوہ تمام برادریوں پر لاگو ہوگا۔ اس بل میں شادی، طلاق اور لیو ان ریلیشن شپ کے لیے مختلف اہتمام کیے گئے ہیں۔ اس بارے میں راجدھانی دہرادون کے لوگوں سے بات چیت۔
ویڈیو: اتراکھنڈ اسمبلی میں پشکر سنگھ دھامی کی حکومت کی طرف سے پیش کردہ یکساں سول کوڈ بل کو منظور کر لیا گیا ہے۔ اس حوالے سے دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کا نظریہ۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ہندوستان میں ہونے والی ‘بلڈوزر’کارروائیوں کے بارے میں دو رپورٹ جاری کرتے ہوئےمسلمانوں کے گھروں، کاروباروں اور عبادت گاہوں کی بڑے پیمانے پر اور غیر قانونی مسماری کو فوراً روکنے کی اپیل کی ہے۔ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی مقتدرہ مدھیہ پردیش میں ‘سزا کے طور پر’ سب سے زیادہ 56 بلڈوزر کارروائیاں ہوئیں۔
گجرات کے مہسانہ ضلع کا واقعہ۔ مسلم کمیونٹی کے لوگوں کا الزام ہے کہ 21 جنوری کو ہندوتوا گروپوں نے رام مندر تقریب کے موقع پرایک شوبھا یاترا نکالی تھی، جو مقررہ روٹ کے بجائے ان کے علاقے سے گزاری گئی۔ دونوں فریق کے درمیان جھڑپ ہو گئی اور مسلم کمیونٹی کے 13 مردوں اور دو نابالغوں کو گرفتار کر لیا گیا۔
خصوصی انٹرویو: یہودی عالم ربی یسروئیل ڈووڈ ویس نے کہا کہ، میرا دل غزہ کے لیے خون کے آنسو رو رہا ہے۔
اتراکھنڈ کے سلکیارا میں 17 دنوں سے سرنگ میں پھنسے 41 مزدوروں کو بچانے والی کمپنی راک ویل انٹرپرائزز کے مالک وکیل حسن نے کہا کہ یہ کام کوئی اکیلا نہیں کر سکتا تھا۔ ہم سب کو یہی پیغام دینا چاہتے ہیں۔ ہم سب کو مل جل کر رہنا چاہیے اور نفرت کا زہر نہیں پھیلانا چاہیے۔
یونیفائیڈ ڈسٹرکٹ انفارمیشن سسٹم فار ایجوکیشن پلس اور آل انڈیا سروے آف ہائر ایجوکیشن کے اعداد و شمار پر مبنی ‘اسٹیٹس آف مسلم ایجوکیشن ان انڈیا’ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ 2019-20 میں 21 لاکھ مسلم طلباء نے اعلیٰ تعلیم کے لیے داخلہ لیا تھا، 2020-21 میں یہ تعداد 19.21 لاکھ رہ گئی۔
ویڈیو: راجستھان اسمبلی انتخابات کے پیش نظر بی جے پی کے سابق ریاستی صدر اور آمیر اسمبلی حلقہ سے ایم ایل اے ستیش پنیا سے دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
اسرائیل میں گزشتہ ایک ماہ سے جاری تنازعے کو عالمی سطح پر ایک نیا حامی مل گیا ہے یعنی کہ دائیں بازو کے ہندو قوم پرست۔ اگرچہ ان میں سے اکثر افراد کو اس بات کا کوئی اندازہ نہیں ہے کہ اسرائیل میں جنگ کی اصل وجہ کیا ہے لیکن وہ پھر بھی مسلمانوں کی فلسطینیوں کی حمایت کی مذمت کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ صہیونیت اور یہودیت میں فرق نہیں کرپاتے ہیں۔
حماس کے زیر انتظام چلنے والی وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ غزہ میں آرتھوڈوکس یونانی چرچ پر اسرائیلی فضائی حملے میں کم از کم آٹھ افراد مارے گئے ہیں۔جس وقت یہ حملہ ہوا اس وقت عیسائی اور مسلم کمیونٹی کے تقریباً 500 لوگ یہاں پناہ لیے ہوئے تھے۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ شروع ہونے کے بعد انہیں نقل مکانی کو مجبور ہونا پڑا تھا۔
ویڈیو: حماس کے حملے کے بعداسرائیل — فلسطین جنگ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک طبقہ ہندوستان کے مسلمانوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ اس موضوع پر دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کا نظریہ۔
گڑگاؤں کے سیکٹر69 میں ایک چائے دکان کی دیوار پر یہ قابل اعتراض پوسٹرچسپاں کیے گئے تھے، جس میں مسلمانوں کو دھمکی دی گئی تھی کہ وہ سوموار تک یہا سے چلے جائیں، ورنہ اپنی موت کے لیے خود ذمہ دار ہوں گے۔ تاہم دکان کے مالک نے کباڑ کا کام کرنے والے ایک شخص پر شکوک و شبہات ظاہر کیے ہیں، جس سے کچھ دن پہلے ان کاجھگڑا ہوا تھا۔
گزشتہ 9 اگست کی رات رتلام ضلع میں مسلمانوں کے ایک گروپ نے انسٹاگرام پر اسلام مخالف پوسٹ ڈالنے والے شخص کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیاتھا۔ الزام ہے کہ احتجاج کے دوران پوسٹ کرنے والے شخص کے بارے میں مبینہ طور پر ‘سر تن سے جدا’ کا متنازعہ نعرہ لگایا گیا تھا۔
اب تک جمعیۃ علماء ہند کے وفد نے 13 متاثرہ مساجد کا دورہ کیا ہے، اور بتایا ہے کہ صرف پلول میں 6 مساجد نذر آتش کی گئیں، ہوڈل میں تین مساجد ، سوہنا میں تین مساجد، اور ایک مسجد گروگرام میں جلائی گئی۔ وفد کا یہ بھی کہنا ہے کہ تشدد کے دوران مذہبی کتابوں کو جلایا گیا اور تبلیغی جماعت کے ساتھ مارپیٹ کی گئی۔
غلامی کے دور میں غیر ملکی حکمرانوں تک نے اپنی پولیس سے عوام کے جان و مال کے تحفظ کی امید کی تھی، لیکن اب آزادی کے امرت کال میں لوگوں کی چنی ہوئی حکومت اپنی پولیس کے بوتے سب کو تحفظ دینے سے قاصر ہے۔
کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے نوح تشدد کے بعد متاثرہ علاقے میں جاری انہدامی کارروائی پر روک لگا دی ہے۔ عدالت نےکہا کہ لاء اینڈ آرڈر کے مسئلے کا استعمال ضروری قانونی ضابطوں کی پیروی کیے بغیر عمارتوں کو گرانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
نوح تشدد کے باعث جاری کشیدگی کے درمیان حکم امتناعی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گڑگاؤں میں اتوار کو ایک ‘ہندو مہاپنچایت’ کاانعقاد کیا گیا،جس میں مسلمانوں کے سماجی اور معاشی بائیکاٹ کی اپیل کے ساتھ ساتھ دعویٰ کیا گیا کہ گزشتہ دنوں ایک مسجد پر حملہ کرنے والے لوگ بے قصور ہیں۔
ہریانہ کے نوح میں31 جولائی کو ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے سلسلے میں سوشل میڈیا اور کچھ نیوز ویب سائٹ پر ایسے دعوے کیے جا رہے تھے کہ نلہر مہادیو مندر میں پھنسی خواتین کے ساتھ ریپ کیا گیا تھا، پولیس نے ان دعووں کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
نوح میں ہوئے واقعے کے خلاف احتجاج کے طور پربجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد جیسی ہندوتوا تنظیموں نے حصار ضلع کے ہانسی شہر میں 2 اگست کوایک ریلی نکالی تھی، جس میں مسلم دکانداروں کے بائیکاٹ کی اپیل کرنے کے ساتھ ہی مسلمانوں کو دو دن میں شہر چھوڑنے کی وارننگ دی گئی۔
اس ہفتے ہریانہ کے نوح میں تشدد کے بعد ضلع انتظامیہ نے جمعہ کو مکان اور املاک کو مسمار کرنے کا عمل شروع کیا ہے۔ ایک طرف کچھ اہلکار کہہ رہے ہیں کہ توڑ پھوڑ کا تشدد سے کوئی تعلق نہیں ہے تو دوسری طرف کچھ حکام کا دعویٰ ہے کہ کچھ املاک کے مالکان تشدد میں ملوث تھے۔
سوموار کو نوح میں فرقہ وارانہ جھڑپوں کے بعد ریاست کے وزیر داخلہ انل وج نے دعویٰ کیا تھا کہ مسلم فسادیوں نے نلہر مہادیو مندر میں تقریباً 3-4 ہزار لوگوں کو یرغمال بنایا تھا۔ مندر کے پجاری نے دی وائر کو بتایا کہ ایسا نہیں ہوا تھا۔ حالات خراب ہونے کی وجہ سے لوگ وہاں پھنسے ہوئے تھے۔
ہریانہ کے نوح اور گڑگاؤں علاقوں میں جاری فرقہ وارانہ کشیدگی کے درمیان منگل کو گڑگاؤں کے بادشاہ پور میں بریانی بیچنے والی دکانوں کو نشانہ بنایا گیا اور بسئی روڈ کے پٹودی چوک پردکانوں میں توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی۔ دریں اثنا،گڑگاؤں ضلع کے تمام پٹرول پمپوں پر کھلے ایندھن کی فروخت پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
ایک بین الاقوامی فورم پر ہندوستان میں مسلمانوں کو منظم طورپر نشانہ بنانے کے حوالے سے نریندر مودی کی دوٹوک الفاظ میں تردید ان صحافیوں کے لیے حیران کن ہے جو ان کی حکومت میں ملک کے مسلمانوں کے ساتھ روزانہ ہونے والی ناانصافیوں اور ظلم و جبرکو درج کر رہے ہیں۔
اکثریت پسندی (میجوریٹیرین ازم) کا جو مطلب مسلمانوں کے لیے ہے، وہی ہندوؤں کے لیے نہیں ہے ۔ وہ اس کی ہولناکی کو کبھی محسوس نہیں کر سکتے۔ مثلاً، ڈی یو کی صد سالہ تقریبات میں جئے شری رام سن کر ہندوؤں کو وہ خوف محسوس نہیں ہوگا، جو مسلمانوں کو ہو گا، کیونکہ انہیں یاد ہے کہ ان پر حملہ کرتے وقت یہی نعرہ لگایا جاتا ہے۔