ادبستان

بھگت سنگھ اور آج کا ہندوستان

بھگت سنگھ کی تحریروں  سے سن و سال مٹا دیجیے ،اس کے بعد  پڑھیے ،ایسا محسوس ہوگا کہ بھگت سنگھ ہمارے زمانے میں لکھ رہے ہیں موجودہ سیاسی منظر نامے اور اس کی “گودی میڈیا” کی بات کر رہے ہیں۔

Bhagat-Singh-3-1

بھگت سنگھ1907کوبنگا میں پیدا ہوئے تھے(کچھ لوگوں کے مطابق ان کی تاریخ پیدائش 28ستمبر ہے)،جو اب پاکستان میں ہے۔23مارچ1931کوتختہ دار پر چڑھ گئے۔بھگت سنگھ کون تھے؟ انھوں نے اس ملک کے لیے کیا کیا؟یہ سب جانتے ہیں۔

تحریک آزادی کے اس مجاہد کےجذبہ شہادت کوسلام پیش کرتے ہوئےمیں ان کے بعض ایسے خیالات کا ذکر کرنا چاہوں گی،جس سے ہمارا ملک اُس وقت بھی جوجھ رہا تھا،آج بھی لڑ رہا ہے۔ ہم آج جس ہندوستان میں سانس لے رہے ہیں،اس کی تصویر بھگت سنگھ نے اپنے وقت میں ہی دیکھ لی تھی۔

شاید اس لیے انھوں نے ہماری توجہ ان باتوں کی طرف مبذول کرائی  جو ملک کی ترقی میں رکاوٹ پیدا کرسکتے ہیں۔ہم ان  خیالات کی جوت سے دنیا کے اندھیرے میں روشنی کرنے کی کوشش آج بھی کر سکتے  ہیں۔

اس عمر میں جبکہ اکثر نوجوان رومان میں گم ہوتے ہیں،انہوں  نے اپنی دلہن کے روپ میں’آزادی’ کوچنا۔ کتنی بڑی بات ہے کہ یہ نوجوان اپنے ملک کے لیے جان تک دینے سے نہیں ہچکچایا۔وہ جتنا ہندوستان سے محبت کرتا تھا اتناہی مذہبی تعصب،ذات پات اورچھوا چھوت سے نفرت کرتا تھا ۔ وہ جانتا تھا کہ ان سب کی موجودگی میں ہندوستان کی آزادی مکمل نہیں ہے۔

وہ ‘پورن سوتنترتا’یعنی مکمل آزادی کی بات کرتا تھا۔ وہ ذہنی آزادی کی بات کرتاتھا،ایسی آزادی جہاں مذہبی منافرت نہ ہو، فرقہ وارانہ فسادنہ ہوں۔ لوگ آپس میں مل جل کر رہیں،دھرم اور ذات پات کے نام پر خون نہ بہائیں ۔اس نوجوان کے لفظ ہیں ؛

“ان دھرموں نے ہندوستان کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔اورابھی پتہ نہیں کہ یہ مذہبی فسادات ہندوستان کا پیچھا کب چھوڑیں گے؟”

فرقہ وارانہ تشدد اور فسادکے پیچھے کی جو حقیقت بھگت سنگھ نے اس وقت  بتائی تھی، وہ آج بھی اسی صداقت کے ساتھ قائم ہے۔ لکھتے ہیں؛

“ان فسادات کے پیچھے فرقہ پرست رہنماؤں اور اخباروں کا ہاتھ ہے ۔اس وقت ہندوستان کےرہنماؤں نے ایسی لِید کی ہے کہ چپ ہی بھلی۔”

بھگت سنگھ کی تحریروں  سے سن و سال مٹا دیجیے ،اس کے بعد  پڑھیے ،ایسا محسوس ہوگا کہ بھگت سنگھ ہمارے زمانے میں لکھ رہے ہیں موجودہ سیاسی منظر نامے اور اس کی “گودی میڈیا” کی بات کر رہے ہیں۔

وہ اپنے آپ کو ناستک کہتے تھے ،اس کی وضاحت میں انہوں نے ایک مضمون بھی لکھا تھا،جس میں کئی سوال اٹھائے ۔وہ مذہب کی ان اچھائیوں کے خلاف نہیں تھے، جو عام طور پر ہر مذہب میں پائی جاتی ہے۔

مذہب کی ان اچھائیوں کو  انھوں نے Essentials of Religionکہا اور اس کوسچ بولنا ،چوری نہیں کرنا، غریبوں کی مدد کرنااورمحبت سے رہنے  سے تعبیر کیا۔

وہ دھرم کی اس نفرت کے خلاف تھے،جہاں ایک مذہب والےدوسرے مذہب کے خون کے پیاسے ہو جاتے ہیں ۔ وہ دھرم کے خلاف نہیں تھے،دھرم سے جڑی’اندھی عقیدت’ کے خلاف تھے۔مذہب اگر انسان کی آنکھیں چھین کر اسے اندھا بنا دے،انسانیت بھلا دے تو پھر کس کام کا ہےایسا مذہب؟انہی کے لفظوں میں:

“اگر دھرم،پیچھے لکھی تیسری ( Rituals of Religion)اور دوسری بات  (Philosophy of Religion)کے ساتھ اندھی عقیدت کو ملانے کا نام ہے،تو دھرم کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اسےآج ہی اڑا دینا چاہیے۔ اگر پہلی (Essentials of Religion)اور دوسری بات میں آزادانہ فکرکوملا کر دھرم بنتا ہو،تو دھرم مبارک ہے۔لیکن الگ الگ جماعت اورکھانے پینے کا فرق مٹانا ضروری ہے، چھوت،اچھوت جیسےلفظوں کو جڑ سے نکالنا ہوگا۔ جب تک ہم تنگ دلی چھوڑ کر ایک نہ ہوں گے،تب تک ہم میں حقیقی اتحاد نہیں ہو سکتا۔ “

bhagat singh ki tahreer ka namoonaبھگت سنگھ یہ سب دیکھ رہے تھے اور شدت سےمحسوس کر رہے تھے کہ ہندوستان کی آزادی اور اس کی ترقی میں یہ عناصر کس قدر خطرناک ہو سکتے ہیں اور ہوا بھی وہی۔ ہندوستان دو حصوں میں بٹ گیا۔ ہزاروں نے اس میں اپنی جان گنوائی۔مذہب کے نام پر ہر وہ گھناونا کام کیا گیا،جس پر آج بھی تاریخ شرمسار ہے۔

بھگت سنگھ نے ‘طالبعلم اور سیاست’کے عنوان سے ایک اہم مضمون لکھا ،جس میں تعلیم کے ساتھ سیاست کو بھی ضروری قرار دیا ؛

“جن نوجوانوں کو کل ملک کی باگ ڈور ہاتھ میں لینی ہے،انہیں آج ہی عقل کے اندھےبنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ ہم مانتے ہیں کہ طالبعلموں  کا اہم کام پڑھائی کرنا ہے،انہیں اپنی پوری توجہ اس طرف لگا دینی چاہیے لیکن کیا ملک کے حالات کا علم اور اس کی بہتری کا حل سوچنے کی صلاحیت پیدا کرنا اس تعلیم میں شامل نہیں ؟ اگر نہیں تو ہم اس تعلیم کو بھی نکمی سمجھتے ہیں جو صرف کلرکی کرنے کے لیے حاصل کی جائے۔ ایسی تعلیم کی ضرورت ہی کیا ہے۔ “

ان تمام حقائق کو محسوس کرنے والا 22,23سال کا نوجوان فرقہ وارانہ تشددکے علاج اور حل پر لکھ رہا تھا۔لیکن ؟

ہم نے انگریزوں سے  آزادی حاصل کر لی،لیکن کیا ہم اس ‘ذہنی غلامی’سےآزادی حاصل کر پائے  جس کا ذکر بھگت سنگھ نے کیا تھا۔ آج کے ہندوستان میں بھگت سنگھ کے اٹھائے گئے سوالات کی بہت اہمیت ہے۔

بھگت سنگھ کی جیل ڈائری اس ضمن میں قابل ذکر ہے ۔یہ ڈائری دراصل ان کے مطالعاتی نوٹس ہیں جو انھوں نے جیل میں قید ہونے کے دوران پڑھے تھے۔ اس ڈائری سے ان کے مطالعے کی وسعت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔غالب ،اقبال اور چکبست جیسے شاعروں کو اپنی تحریروں میں جگہ جگہ کوٹ کرنے والے بھگت سنگھ کا ادبی ذوق بھی کسی حیرت سے کم نہیں ہے۔

بہت کم عمر میں بھگت سنگھ ملک کے لیے قربان ہو گئے۔ لیکن اتنی سی عمر میں ہی انھوں نے اتنا کچھ پڑھا لکھاکہ ایک چھوٹے سے مضمون میں اس کا احاطہ کرنا بہت مشکل ہے۔

ان کی تحریروں کے مطالعے کا ایک دلچسپ Aspectبھی ہے۔ دراصل ان کی تحریریں پس نوآبادیاتی تناظر میں انگریزی تابوت کی آخری کیل ثابت ہو سکتی ہیں۔ لیکن افسوس کہ اس تناظر میں ان کی تحریروں سے کوئی استفادہ نہیں کیا گیا۔ جس میں ملک کے چھوٹے بڑے ہر مسئلے کا حل پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ 23سال کی مختصر سی عمر میں اپنے اصولوں کے لیے پھانسی کو گلے لگانے والے اس نوجوان کی تحریریں نہ صرف حیران کرتی ہیں بلکہ ان کاوسیع مطالعہ دل کی دنیا میں ایک عجیب کیفیت پیدا کرتا ہے۔

 ان کی تحریروں کا جادوایسے ہندوستان کی تصویر دکھاتا ہے جو آج کے ہندوستان سے مختلف اور بہتر ہے۔جانے کیسا رہاہوگا وہ نوجوان؟جس نے اتنی کم عمر میں علم و ادب کی ایسی ایسی باتیں لکھ دیں۔مذہب،غربت، فرقہ وارانہ فسادات کی جڑ میں گھس کر بھگت سنگھ نے اس کا حل تلاش کیا۔ سماج کو سارے مسئلوں سے آزاد کرنے کے لیے اس کے خیالات بجائے خود کسی ‘انقلاب’سے کم نہیں ہیں۔

(یہ مضمون پہلی بار 27 ستمبر 2017 کو شائع کیا گیا تھا۔)