خبریں

ڈاکٹر کفیل کے خلاف پرائیوٹ پریکٹس کا الزام خارج،کیاولن بنانے والی میڈیا معافی مانگے‌گی؟

میڈیا کفیل کو جیل بھیج کر راحت کی گہری نیند سو گئی اور آج بھی سوئی پڑی ہے۔ اب تک ڈاکٹر کفیل سے جڑی یہ تازہ خبر اخباروں اور چینلوں تک نہیں پہنچی ہے۔

Photo: ZeeNews ScreenShot

Photo: ZeeNews ScreenShot

نئی دہلی :گورکھپور شہر کو پیپلی لائیوبنا دینے اور سرکاری معالج، ڈاکٹر کفیل خان کو نتّھا بنا دینے والی میڈیا کو اس بات کا علم تک نہیں ہے کہ ان کے ذریعے قصوروار ٹھہرائے گئے ڈاکٹر پر سے الزام لگانے والی یوپی ایس ٹی ایف نے خود بد عنوانی اور پرائیویٹ پریکٹس کے دو سنگین الزام واپس لے لئے ہیں۔ واضح ہو  کہ ڈاکٹر کفیل کے اوپر جو  الزام لگائے گئے تھے، اس کے پس پردہ ان کا پرائیویٹ پریکٹس کرنا ہی تھا۔

ویب سائٹ ٹو سرکل ڈاٹ نیٹ پر سدھانت موہن نے خبر دی ہے کہ گورکھپور کے بی آر ڈی میڈیکل کالج میں بچّوں کی موت کے معاملے میں ڈاکٹر کفیل کو ایس ٹی ایف نے دو سنگین الزامات سے آزاد کر دیا ہے، حالانکہ وہ اب بھی دو دوسرےغیرضمانتی دفعہ کے تحت حراست میں ہیں، جن میں ایک دفعہ آئی پی سی کی 409سرکاری غبن سے تعلق رکھتی ہے۔

آکسیجن کی سپلائی رکنے سے مارے گئے بچّوں کی اصل میں مدد کرنے والے ڈاکٹر کفیل کو پوری میڈیا نے مل‌کر ایک آواز میں ولن قرار دیا تھا۔ اس وقت شاید ایک آدھ ادارے ہی تھے جو مسلسل ڈاکٹر کفیل کی بےگناہی کے بارے میں لکھتے رہے تھے۔ میڈیا کفیل کو جیل بھیج کر راحت کی گہری نیند سو گئی اور آج بھی سوئی پڑی ہے۔ اب تک ڈاکٹر کفیل سے جڑی یہ تازہ خبر اخباروں اور چینلوں تک نہیں پہنچی ہے۔

ویب سائٹ کے مطابق اتّر پردیش اسپیشل ٹاسک فورس نے ڈاکٹر کفیل احمد خان کے خلاف لگائے پرائیویٹ پریکٹس اور بد عنوانی کے ایک الزام کو ہٹا لیا ہے۔ اگست میں گورکھپور کے بابا راگھو داس میڈیکل کالج میں ہوئے بچّوں کی اموات کے بعد اس کےمعالج  ڈاکٹر کفیل سمیت کئی لوگوں کو اس حادثے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ ریاستی حکومت کے کہنے پر یوپی ایس ٹی ایف نے میڈیکل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر راجیو مشر اور ڈاکٹر کفیل کے خلاف چارج شیٹ دائر کیا تھا۔

ان کے علاوہ گورکھپور پولیس نے ڈاکٹر پورنیما، ڈاکٹر ستیش کمار، گجانن جیسوال، اکاؤنٹنگ محکمہ کے کلرک سدھیر پانڈے، ادے شرما اور سنجے ترپاٹھی اور پشپا سیلس کے مالک منیش بھنڈاری کے خلاف بھی چارج شیٹ دائر کی تھی۔

اتنے سارے لوگوں کو گورکھپور حادثے کا قصوروار ٹھہرایا گیا، لیکن دلچسپ بات یہ رہی کہ ڈاکٹر کفیل کو چھوڑ‌کر راجیو مشرا سمیت دیگر کی گرفتاری کی خبر کو میڈیا میں کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ ایسا لگا کہ میڈیا نے پہلے ہی طے کر دیا ہو کہ کفیل ہی سارے بچّوں کا ‘ولن ‘ہے۔

کفیل خان پر آئی پی سی کی دفعہ 120بی، 308اور 409 کے تحت مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔ اس کے بعد اگست کے آخری ہفتے میں چیف سکریٹری راجیو کمار کی صدارت میں تشکیل دی گئی ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کی سفارش پر بد عنوانی مخالف قانون کی دفعہ 7/13، آئی ٹی قانون کی دفعہ 66 اور انڈین میڈیکل کاؤنسل قانون کی دفعہ 15 کو بھی چارج شیٹ میں جوڑا گیا۔

جانچ افسر ابھیشیک سنگھ نے ٹو سرکل کو بتایا کہ ڈاکٹر کفیل کے خلاف اس کو کوئی بھی پختہ سامان یا ثبوت حاصل نہیں ہوا۔ نہ تو وہ پرائیویٹ پریکٹس میں مشغول تھے اور نہ ہی انہوں نے آئی ٹی قانون کے کسی اصول کی خلاف ورزی کی۔فی الحال کفیل دفعہ 409 اور 120بی کے تحت  عدالتی حراست میں ہیں۔

غورطلب ہے کہ یوپی پولیس نے بی آرڈی میڈیکل کالج کے اے ای ایس میں نوڈل افسر رہے کفیل خان کو ستمبر کے پہلےہفتے میں گرفتار کیا تھا۔اس سے پہلے ان کو علاج کے دوران 30بچوں کی موت کے بعد عہدے سے بر طرف کر دیا گیا تھا۔کفیل میڈیکل کالج کے 100بیڈ والے اے ای ایس وارڈ کے نوڈل افسرتھے ۔

(میڈیا ویزلکے ان پٹ کے ساتھ۔)