ادبستان

اب پٹنہ میں اسنگدھ جی سے ملاقات نہیں ہوگی…

 ان کا ناول’ چھاڑن ‘ پڑھنے کے بعد ان سے کہا کہ یہ ناول آپ کی تمام کتابوں پر بھاری ہے۔ اب آپ کو قصّہ گوئی کے مکان میں بس جانا چاہیے اور شاعری کے کمرے کا دروازہ بند کر دینا چاہیے۔

Photo:http:biharcoverez.com

Photo:http:biharcoverez.com

سریندر اسنگدھ چلے گئے۔ سب کو ایک دن چلے جانا ہوتا ہے۔ لیکن جانے کی ایک عمر ہوتی ہے۔ سریندر اسنگدھ جی تھوڑا پہلے چلے گئے۔ افسوس ہوتا ہے کہ کاش کسی کے جانے سے پہلے کوئی اشارہ ہوتا تو ہم ان لوگوں سے آخری بار بہتر طریقے سے مل پاتے، جن سے ملنا اس لئے ٹالتے رہتے ہیں کہ ہڑبڑی میں کیا ملنا! کبھی اطمینان سے ملیں‌گے، بیٹھیں‌گے، باتیں کریں‌گے۔

سریندر اسنگدھ سے میرا ناطہ بابا ناگارجن کی وجہ سے جڑا،شاید سن94 کا سال تھا، جب بابا مجھے لےکر دربھنگہ سے پٹنہ آئے تھے۔ ہم کھگیندر جی‌کے ایم ایل اے فلیٹ میں رکے تھے۔ اس بار دیکھا تو وہ فلیٹ نیست و نابود تھا اور وہاں پر ملٹی اسٹوریج بلڈنگ کی بنیاد رکھی جا چکی تھی۔ وہیں شام میں ایک رکشے پر بیٹھ‌کر بابا کے ساتھ ہم سریندر اسنگدھ جی‌کے گھر گئے تھے۔ بابا کا تو خیر اپنا روٹین تھا، لیکن اس رات سریندر اسنگدھ جی سے کافی باتیں ہوئیں اور ہم بھائی بھائی ہو گئے۔ پھر خطوط کے ذریعے ملنے کا سلسلہ رہا۔ انہی دنوں کسی رسالہ کی انہوں نے ادارت کی تھی، جس میں میری آٹھ دس نظمیں انہوں نے چھاپی تھیں۔ یہ وہ دور تھا، جب نظم لکھنے کے باوجود شاعر کی عزت پانے کے لئے نوجوانوں کے اندر ایک الگ قسم کی جدو جہد ہوتی ہے۔ میری صحافت کے سخت دنوں میں بھی سریندر اسنگدھ جی مجھے شاعر مانتے رہے۔

سن96-95میں جب میں پوری طرح سے پٹنہ رہنے لگا، تو اسنگدھ جی سے ملاقاتیں بہت کم ہو گئیں۔ ہم دور رہ‌کے زیادہ قریب ہوتے ہیں، لیکن نزدیک رہتے ہوئے رشتوں کے تئیں لاپروا ہو جاتے ہیں۔ تب بھی، جب کبھی ہم ٹکراتے تھے اسنگدھ جی‌کی شفقت میں اتنی ہی گرمی محسوس ہوتی تھی، جیسی پہلی بار محسوس ہوئی تھی۔ صرف ایک جھڑکی کہ گھر نہیں آتے ہیں آپ، بہت غلط بات ہے۔ وہ کبھی تم نہیں کہتے تھے، ہمیشہ آپ کہتے تھے۔

وہ بہت بہتر انسان تھے۔ منڈل آندولن کے بعدکی سیاسی سرگرمیوں میں ادب میں سماجی عدل و انصاف کی بات کرتے ہوئے انہوں نے جن سنسکرت منچ سے کنارہ کر لیا، تو شہر کے کئی دوست  احباب کے لئے مشکوک ہو گئے۔ تب بھی بنا کسی افسوس کے وہ ہر آدمی کے لئے اپناپن نبھاتے رہے۔ دور دراز سے پٹنہ آنے والے ادیبوں کوٹھور ٹھکانہ دیتے رہے، کمزور  معاشی پس منظر والے دوستوں کی معاشی مدد کرتے رہے۔

کچھ سال پہلے، جب میں دلّی میں تھا، میرا چھوٹا بھائی ارون نارائن پٹنہ سے ان کا ناول ” چھاڑن “لےکر آیا تھا۔ پہلے تو میں نے اس کو پڑھنا ٹالا کہ اسنگدھ جی تو شاعر ہیں، پتا نہیں ان کے ناول میں کوئی بات ہوگی یا نہیں۔ پھر ایک دن یوں ہی پلٹنے لگا اور ایک سانس میں پوری کتاب پڑھ گیا۔ کوسی کی ایک حساس سماجی کہانی اتنے رچاؤ کے ساتھ بہت دنوں بعد پڑھنے کو ملی تھی، تو خود کو روک نہیں پایا اور اسنگدھ جی سے فون پر لمبی بات کی۔ ان سے کہا کہ یہ ناول آپ کی تمام کتابوں پر بھاری ہے۔ اب آپ کو قصّہ گوئی کے مکان میں بس جانا چاہیے اور شاعری کے کمرے کا دروازہ بند کر دینا چاہیے۔ انہوں نے بس اتنا کہا تھا کہ اویناش جی، اگر آپ کو اچھا لگا ہے تو اور لوگوں کو بھی پڑھوائیے۔

سریندر اسنگدھ پھنیشور ناتھ رینو کی زمین  سے آتے تھے۔ ان کے جیسا بڑا بھائی ملنا مشکل ہے۔ پٹنہ کتاب میلہ سے جڑی ان کے ساتھ کی بہت ساری یادیں ہیں۔  یقین کر پانا مشکل ہے کہ اب ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوگی۔ ان کی یاد کو میں دل سے سلام  کرتا ہوں۔

(مضمون نگار فلم ‘انارکلی آف آرا’کے ڈائرکٹر ہیں۔)