خبریں

ايران ميں حکومت مخالف مظاہرے کس رُخ بڑھ رہے ہيں؟

ايران ميں کمزور اقتصاديات کے خلاف پچھلے ہفتے سے جاری حکومت مخالف مظاہرے اتوار اور پير کی درميانی شب بھی جاری رہے۔ صدر حسن روحانی کی تقرير اور ملک ميں سماجی رابطوں کی ويب سائٹس کی بندش کے باوجود عوام برسر احتجاج ہيں۔

IranProtest_DW

ايرانی صدر حسن روحانی نے اتوار اکتيس دسمبر کی رات ملکی ٹيلی وژن پر نشر کردہ اپنے ايک خطاب ميں کہا، ’’عوام کو اس بات کی مکمل آزادی حاصل ہے کہ وہ تنقيد اور احتجاج کريں۔‘‘ تاہم ان کا يہ بھی کہنا تھا کہ تشدد اور املاک کو نقصان پہنچانے کا اظہار رائے اور تنقيد سے کوئی تعلق نہيں۔ روحانی نے اپنی اس تقرير ميں سرکاری اداروں پر زور ديا کہ عوام کو قانون کے دائرے ميں رہتے ہوئے تنقيد اور احتجاج کی رعایت دی جانی چاہيے۔ ايرانی صدر نے زيادہ شفافيت اور ذرائع ابلاغ کے بہتر کردار کی ضرورت پر بھی زور ديا۔

ايران ميں گزشتہ جمعرات سے حکومت مخالف مظاہرے جاری ہيں، جو اب دارالحکومت تہران سميت کئی شہروں تک پھيل چکے ہيں۔ ايرانی عوام ملک کی کمزور اقتصادیات اور خراب معیار زندگی کے خلاف سڑکوں پر نکلے ہيں۔ روحانی سماجی سطح پر ملکی صورتحال ميں بہتری اور اقتصاديات کو بہتر بنانے کے وعدوں کے ساتھ سن 2013 ميں ملکی صدر بنے تھے تاہم اس وقت ملک ميں روز مرہ کے اخراجات آسمان کو چھو رہے ہيں جبکہ بے روزگاری کی شرح بارہ فيصد ہے۔ اس ضمن ميں جاری مظاہروں کو پچھلی ايک دہائی ميں ملکی سطح پر ہونے والے ہونے والے سب سے بڑے مظاہرے بھی قرار ديا جا رہا ہے۔

اتوار کی رات تہران کے ايک مرکزی چوک پر مظاہرین کے خلاف حکام نے آنسو گيس اور تيز دھار پانی کا بھی استعمال کیا۔ علاوہ ازيں کئی ديگر شہروں ميں بھی احتجاج کا سلسلہ جاری رہا۔ ان مظاہروں ميں اب تک دس افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔ پوليس کے مطابق يہ ہلاکتيں ان کی فائرنگ سے نہيں بلکہ ’بيرون ملکی ايجنٹس‘ کی کارروائی کے نتيجے ميں ہوئی تھيں۔

اس دوران يہ امر بھی اہم ہے کہ ذرائع ابلاغ پر ان مظاہروں کے مناظر نہيں دکھائے جا رہے، جس سبب عوام نے سوشل ميڈيا کا رخ کيا۔ ايسی اطلاعات بھی ہيں کہ حکومت نے ’ٹيلی گرام‘ اور ’انسٹاگرام‘ پر بھی پابندی لگا دی ہے