خبریں

ممبر پارلیامنٹ کے پینشن اور الاؤنس کے معاملہ میں سپریم کورت کا فیصلہ محفوظ

مرکزی حکومت کی طرف سے پیش اٹارنی  جنرل کے کے وینو گوپال نے کورٹ میں سابق اراکین  پارلیامان کو تاعمر پینشن اور الاؤنس  دئے جانے کی حمایت کی۔

SupremeCourt_Parliament

نئی دہلی :سابق اراکین پارلیامنٹ کو تاعمر پینشن اور الاؤنس  دینے کے خلاف داخل عرضی پر بدھ کو سپریم کورٹ میں جسٹس جے چیلامیشور اور جسٹس سنجے  کشن کول کی بنچ نے اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا۔وہیں مرکز نے اس کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ پارلیامنٹ ممبر کی تنخواہ اور الاؤنس  کے لئے آزاد کمیشن کے خیال کو حکومت نے چھوڑ دیا ہے کیونکہ یہ عملی نہیں ہے۔

وہیں بنچ  نے کہا کہ یہ  پالیسی کا معاملہ ہے۔  دنیا میں کسی بھی جمہوریت میں ایسا نہیں ہوتا کہ کورٹ پالیسی والے مدعوں پر فیصلہ دیتا ہو۔لیکن بنچ  یہ مانتی ہے کہ یہ آئیڈیل سچویشن  نہیں ہے لیکن کورٹ اس معاملے میں فیصلہ نہیں کر سکتا۔سماعت کے دوران مرکزی حکومت کی طرف سے پیش اٹارنی  جنرل کے کے وینو گوپال نے کورٹ میں سابق اراکین  پارلیامان کو تاعمر پینشن اور الاؤنس  دئے جانے کی حمایت کی۔  مرکزی حکومت نے کہا کہ سابق ممبر پارلیامنٹ کو سفر کرنا پڑتا ہے،دیس بدیس جانا پڑتا ہے۔

دریں اثنا لوک پرہری این جی او کی طرف سے حکومت کی اس دلیل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا گیا کہ 82 فیصد رکن پارلیامنٹ  کروڑپتی ہیں لہذا پینشن کی ضرورت ان کو نہیں ہے۔  لیکن بنچ  نے کہا کہ پھر تو نوکرشاہوں کے اعدادوشمار بھی جمع کرنا چاہیے۔  اس طرح تفتیش نہیں ہو سکتی۔

سپریم کورٹ نے دونوں فریقوں کی دلیل سننے کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا۔اس سے پہلے سپریم کورٹ نے منگل کو کہا تھا کہ اپنی خدمتوں کے لئے رکن پارلیامان کو پینشن عطا کرنے کے پیچھے پارلیامنٹ کی دانشمندی اور سوچ ہے اور عدالت اس طرح کے فیصلے پر بیٹھی نہیں رہ سکتی۔  جسٹس جے چیلامیشور اور جسٹس سنجے کشن کول کی بنچ نے اپنی اپنی مدت کے بعد بھی رکن پارلیامان اور ان کی فیملی کے ممبروں کو پینشن، الاؤنس  اور دیگرسہولیات کی امداد کو چیلنج دینے والی عرضی کی سماعت کے دوران یہ زبانی تبصرہ کیا۔  حالانکہ، بنچ نے اٹارنی جنرل کو بدھ کو مطلع کرنے کو کہا تھا کہ کیا پینشن اور الاؤنس  رکن پارلیامان کو دینے کے لئے کوئی نظام بنایا جا رہا ہے کیونکہ پچھلے 12 سالوں سے یہ مدعا مرکزی حکومت کے پاس زیر التوا ہے۔