خبریں

کشمیری فوٹو جرنلسٹ  کو ملی ضمانت، این آئی اے نے پتھربازی کے الزام میں کیا تھا گرفتار

این آئی اے نے فوٹو جرنلسٹ کامران یوسف کی گرفتاری کے حق میں دلیل دی تھی کہ ایک صحافی کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ سرکاری محکمہ جات کی ترقیاتی کاموں، اسکول اور ہسپتال کے افتتاح یا حکمراں جماعت کے بیان کو کوریج دے۔

جموں و کشمیر کے فوٹو جرنسلٹ کامران یوسف۔  (فوٹو بشکریہ : فیس بک)

جموں و کشمیر کے فوٹو جرنسلٹ کامران یوسف/فوٹو : فیس بک

نئی دہلی : کشمیر وادی میں پتھراؤ کو بڑھاوا دینے اور محافظ دستوں کے خلاف حمایت جٹانے کے الزام میں این آئی اے کے ذریعے گرفتار کئے گئے جموں و کشمیر کے آزاد فوٹو جرنلسٹ کامران یوسف کو سوموار کو دہلی کی ایک خصوصی عدالت نے ضمانت دے دی۔این آئی اےنے ان کو ان الزامات میں ستمبر میں گرفتار کیا تھا۔  تفصیلی جانکاری  دئے بغیر این آئی اے افسروں نے تصدیق کی کہ یوسف کو ضمانت دے دی گئی ہے۔  خبر رساں ایجنسی آئی اے این ایس کے مطابق، ایڈیشنل سیشن جج ترون سہراوت نے 50000 روپے کے دو ذاتی مُچلکوں پر یوسف کو ضمانت دی۔

این آئی اے نے پتھراؤکرنے اور محافظ دستوں کے خلاف سوشل میڈیا کی معرفت حمایت جٹانے میں مبینہ طور پر ملوث رہنے کے لئے ان کو پانچ ستمبر کو گرفتار کیا تھا۔این آئی اے کے مطابق، یوسف مبینہ طور پر پتھراؤ کے واقعات میں شامل تھے۔  اس کے علاوہ انہوں نے جوانوں کے گروہ کو منظم کیا جو دہشت گردی مخالف مہم میں شامل محافظ دستوں پر پتھراؤ کرتے تھے۔

این آئی اے نے 19 جنوری کو پیش اپنے چارج شیٹ میں ایک صحافی کی اخلاقی ذمہ داریوں کو بھی درج فہرست کیا تھا، جس کے تحت جانچ ایجنسی  نے ان کے حقیقی صحافی نہ ہونے کی دلیل دی تھی۔فردِ جرم میں یوسف سمیت 12 لوگوں کے نام شامل ہیں، جن میں لشکر طیبہ سربراہ حافظ سعید اور حزب  المجاہدین سربراہ سید صلاح الدّین کا نام سرِفہرست ہے۔  اس فہرست میں کامران یوسف کا نام پتھر پھینکنے والے کے طور پر درج ہے۔

این آئی اے نے فردِ جرم میں کہا تھا، ‘ اگر وہ پیشے سے حقیقت میں صحافی ہوتے تو وہ ایک صحافی کا اخلاقی فرض نبھاتے اور جو واقعہ اور سرگرمیاں (اچّھی یا بری) ان کے  میدان میں ہو رہی تھیں، انہوں نے ان کو کوریج دیا ہوتا۔  انہوں نے کبھی کسی بھی سرکاری محکمہ یا ایجنسی کی ترقی کی کسی سرگرمی کو، کسی پُل، سڑک، عمارت، اسکول، ہسپتال کے افتتاح، حکمراں سیاسی جماعت کے بیان یا حکومت ہند یا ریاستی حکومت کے ذریعے کسی سماجی یا ترقیاتی سرگرمی کو کَوَریج نہیں کیا۔  ‘

ساتھ ہی این آئی اے نے معاملے میں کامران کے ملوث ہونے کو لےکر اور ان کے صحافی نہ ہونے کے بارے میں دلیل دیتے ہوئے چارج شیٹ میں کہا تھا، ‘ وادی میں فوج اور پیراملٹری فورسیس کے ذریعے لوگوں کے درمیان سماجی کام جیسے خون عطیہ کیمپ، مفت طبی جائزہ، مہارت کی ترقی پروگرام یا افطار پارٹی منعقد کئے جاتے ہیں۔  کامران یوسف نے ایسے کسی بھی پروگرام یا ایسی کسی سرگرمی کا کوئی ویڈیو اور فوٹو لیا ہو، ان کے لیپ ٹاپ یا موبائل میں ایسا نہیں دیکھا گیا۔  یہ صاف دکھاتا ہے کہ ان کا ارادہ صرف ان سرگرمیوں کو  کَوَر کرنا تھا جو ‘ ملک مخالف ‘ ہوں اور ان کے ویڈیو فوٹیج سے ان کو پیسہ کمانا تھا۔  ‘

این آئی اے کے مطابق، یوسف ایک پیشہ ور نہیں تھے کیونکہ انہوں نے کسی ادارے سے تربیت حاصل نہیں کی ہے۔اس دوران، کامران کےوکیل وریشہ فراست نے ضمانت کے لئے یہ دلیل دی تھی کہ وہ بطور صحافی کام کر رہے تھے اور پتھراؤ والے مختلفمقامات پر ان کی موجودگی محض اس لئے تھی کہ وہ ان واقعات کو کَوَر کر رہے تھے۔

وہیں، جموں و کشمیر کی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے اتوار کو مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ سے بھی معاملے میں غور کرنے کے لئے کہا تھا۔غور طلب ہے کہ کامران یوسف کو گرفتار اس لئے کیا گیا تھا کیونکہ وہ ہر مظاہرے یا دہشت گرد انکاؤنٹر کے وقت موقعہ واردات پر سب سے پہلے موجود ہوتے تھے اور این آئی اے جاننا چاہتی تھی کہ وہ ہر موقعہ واردات پر کیوں موجود ہوتے تھے؟  مظاہرہ کی ہر خبر کو  کَوَر کرنے میں کیوں اتنی سنجیدگی دکھاتے تھے؟  مظاہرین ان کو فون کرکے اطلاع کیوں دیتے تھے؟

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے  ان پٹ کے ساتھ)