جموں و کشمیر کے کٹھوعہ میں آٹھ سال کی معصوم کا گینگ ریپ اور وحشیانہ قتل معاملے میں پولیس، وکیل اور سیاستدانوں کے کردار نے بے حسی کے نئے ماڈل بنانے کا کام کیا ہے۔
نئی دہلی: اس سال کی شروعات میں جموں و کشمیر کے کٹھوعہ ضلع میں ایک معاملہ ہوتا ہے۔ آٹھ سال کی ایک بچی کے ساتھ گینگ ریپ اور پھر اس کا وحشیانہ طریقے سے قتل کر دیا جاتا ہے۔بات صرف یہی ختم نہیں ہوتی ہے۔ اس معاملے کو لےکر جس طرح کا رد عمل پولیس، سیاستدانوں، کچھ تنظیموں اور وکیلوں کی طرف سے دیا جا رہا ہے وہ بےحسی کےنئے ماڈل کوقائم کرتا ہے۔
اس گھناؤنے قتل معاملے کی شروعات 10 جنوری کو ہوتی ہے۔ اس دن کٹھوعہ ضلع کی ہیرانگر تحصیل کے رسانا گاؤں کی ایک لڑکی غائب ہو جاتی ہے۔ یہ لڑکی بکروال کمیونٹی کی تھی جو ایک خانہ بدوش کمیونٹی ہے۔ اس کا تعلق مسلمانوں سے ہے۔فیملی کے مطابق یہ بچی 10 جنوری کو دوپہر تقریباً 12:30 بجے گھر سے گھوڑوں کو چرانے کے لئے نکلی تھی اور اس کے بعد وہ گھر واپس نہیں لوٹ پائی۔گھروالوں نے جب ہیرانگر پولیس سے لڑکی کے غائب ہونے کی شکایت درج کروائی تو پولیس نے لڑکی کو تلاش کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔
پھر قریب ایک ہفتہ بعد 17 جنوری کو جنگل میں اس معصوم کی لاش ملتی ہے۔ میڈیکل رپورٹ میں پتا چلا کہ لڑکی کے ساتھ کئی بار کئی دنوں تک گینگ ریپ ہوا ہے اور پتھروں سے مارکر اس کا قتل کیا گیا ہے۔
بچی کی لاش ملنے کے بعد رشتہ داروں نے علاقے میں مظاہرہ کیا اور ملزمین کو گرفتار کرنے کی مانگ کی۔ بدلے میں ان کو پولیس کی لاٹھیاں کھانی پڑی تھیں۔اس کے بعد پورے جموں و کشمیر میں ہنگامہ ہو گیا۔ لوگ ہزاروں کی تعداد میں سڑک پر نکلکر مظاہرہ کرنے لگے۔جموں و کشمیر اسمبلی میں بچی کے قتل اور ریپ کی گونج کئی دنوں تک سنائی دیتی رہی۔ حزب مخالف کے ہنگامے کے بعد حکومت نے ایوان میں بتایا کہ اس سلسلے میں پندرہ سال کے ایک لڑکے کو گرفتار کیا گیا ہے۔
ایوان میں حکومت کے بیان اور پندرہ سال کے لڑکے کی گرفتاری کے دعویٰ کے باوجود اصل گناہ گار کی گرفتاری کا معاملہ زور پکڑتا گیا۔20 جنوری کو حکومت کی طرف سے تھانے کے ایس ایچ او کو سسپینڈ کر دیا گیا اور معاملے کی مجسٹریٹ جانچکے حکم دئے گئے۔ پھر بھی ہنگامہ نہیں تھما۔اس کے بعد جموں و کشمیر کی محبوبہ مفتی حکومت نے 23 جنوری کو معاملے کو ریاستی پولیس کےکرائم برانچ کو سونپ دیا تھا جس نے اسپیشل جانچ ایجنسی کی تشکیل کی اور معاملے کی تفتیش شروع ہو گئی۔
جانچکے دوران کرائم برانچ نے اس پورے معاملے کے تفتیشی اہلکار رہے سب انسپکٹر آنند دتّا کو گرفتار کر لیا۔تفتیش آگے بڑھی تو پتا چلا کہ اس گینگ ریپ معاملے میں جموں و کشمیر کا ایک اسپیشل پولیس افسر دیپک کھجوریا بھی شامل ہے۔ 10 فروری کو کرائم برانچ نے دیپک کھجوریا کو بھی گرفتار کیا۔
آہستہ آہستہ اس معاملے میں پولیس نے کل سات لوگوں کو گرفتار کیا، جن میں سے ایک کے نابالغ ہونے کی بات کہی گئی۔ حالانکہ بعد میں کرائم برانچ کے افسروں کے مطابق میڈیکل جائزے سے یہ پتا چلا کہ جس ملزم کو نابالغ سمجھا گیا تھا وہ 19 سال کا ہے۔وہیں اس پوری واردات کے اہم ملزم نے خودہی سرینڈر کر دیا۔ گرفتار کئے جانے والوں میں اسپیشل پولیس افسر (ایس پی او) دیپک کھجوریا، پولیس آفسر سریندر کمار، رسانا گاؤں کا پرویش کمار، اسسٹنٹ سب انسپکٹر آنند دتا، ہیڈ کانسٹبل تلک راج، سابق ریونیو افسر کا بیٹا وشال اور اس کا چچا زاد بھائی، جس کو نابالغ بتایا گیا تھا، ہیں۔
اس معاملے میں سابق ریونیوافسر سانجی رام کا نام اہم ملزم کے طور پر سامنے آیا ہے، جس کے بعد اس کے خلاف غیر ضمانتی وارنٹ جاری کر دیا گیا۔ جب پولیس نے اس کے بیٹے وشال کو گرفتار کر لیا تو سانجی رام نے بھی سیرینڈر کر دیا۔اس معاملے میں بے حسی کا ایک بڑا نمونہ تب سامنے آیا جب 10 فروری کو دیپک کھجوریا کی گرفتاری کے ٹھیک سات دن بعد کٹھوعہ میں ہندو ایکتا مورچہ نے ان کی حمایت میں ریلی کا انعقاد کیا۔ مظاہرہ میں مبینہ طور پر بی جے پی کے کچھ لوگ بھی شامل تھے۔ مظاہرین کے ہاتھوں میں ترنگا لےکر ملزم کی رہائی کی مانگکر رہے تھے۔
اس سے متعلق کچھ ویڈیو وائرل ہوئے تھے، جس میں مبینہ طور پر بی جے پی رہنماؤں نے کہا تھا کہ کرائم برانچ کو کسی کی گرفتاری سے پہلے سوچنا ہوگا اور یہاں جنگل راج نہیں ہوگا۔ ویڈیو میں بی جے پی رہنما تحریک کی دھمکی دیتے بھی سنائی دیے۔جب یہ معاملہ اچھلا تو سیاست اس قدر حاوی ہوئی کہ حکمراں پی ڈی پی اور معاون بی جے پی کے درمیان تلخی بڑھتی گئی۔ حالانکہ بی جے پی نے اپنے ایم ایل اے کے اسٹینڈ سے خود کو الگ کر لیا اور وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی کسی طرح سے جھکنے سے انکار کر دیا۔
کٹھوعہ میں ریلی کے بعد وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے ٹوئٹ کیا، ‘ مجھے اس بات کا دکھ ہے کہ پکڑے گئے ملزم کی حمایت میں کٹھوعہ میں ایک ریلی نکالی گئی۔ ریلی میں ترنگے بھی لہرائے گئے۔ یہ ترنگے کی بے عزتی ہے۔ قانون اپنا کام کرےگا۔ ‘حالانکہ اس کے بعد سارے ملزمین کو گرفتار کرکے پولیس نے اس مہینے یعنی 9 اپریل کو فردجرم دائر کرنے کی تیاری کی تھی۔ لیکن اس دوران بڑی بے حسی وکیلوں کے ایک گروپ کے ذریعے دکھائی گئی۔ جب کرائم برانچ کو عدالت میں فردجرم داخل کرنا تھا، تب وکیلوں کے ایک بڑے گروپ نے کرائم برانچ کی مخالفت شروع کر دی۔
انہوں نے اتنا ہنگامہ کیا کہ 9 اپریل کو فردجرم داخل نہیں ہو پایا اور پھر کرائم برانچ نے فردجرم 10 اپریل کو داخل کیا۔ اور یہ بھی تب ہو پایا جب جموں و کشمیر کے وزیر قانون نے معاملے میں مداخلت کی۔ اس کے بعد چھے گھنٹے کے بعد چیف جوڈشیل مجسٹریٹ نے فردجرم منظور کر لیا۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق چارج شیٹ کے مطابق، ریپ اور قتل کی سازش کرنے میں سانجی رام کا ہی ہاتھ تھا۔ اس نے بچی کا اغوا، ریپ اور قتل کا پلان بنا یا۔ اس نےاسپیشل پولیس افسر کھجوریا اور نابالغ بتائے گئے ایک دیگر ملزم کو اپنی سازش میں شامل کیا۔ دیپک اپنے دوست وکرم کے ساتھ سات جنوری کی شام بٹو میڈیکل اسٹور گیا اور Epitril دوا کے دس ٹیبلیٹ خریدے، جس کا نام اس کے چچا نے سجھایا تھا۔
چارج شیٹ کے مطابق، اسی شام سانجی رام نے بھتیجے کو آٹھ سال کی معصوم بچی کا اغوا کرنے کو کہا۔ بچی اکثر جنگل میں آتی تھی۔ دس جنوری کو جب وہ اپنے جانوروں کو کھوج رہی تھی، اسی دوران رام کے بھتیجے نے جانوروں کے جنگل میں ہونے کی بات کہی اور اپنے ساتھ تھوڑی دور لے گیا۔پھر اس نے بچی کی گردن پکڑکر زمین پر گرا دیا۔ پٹائی سے بچی بےہوش ہو گئی تو نابالغ نے اس کا ریپ کیا۔ اس کے بعد اس کے دوست منّو نے بھی ریپ کیا۔ پھر وہ بچی کو ایک مندر میں لے گئے، جہاں اس کو پرارتھناکچھ میں قیدی بناکر رکھا۔چارج شیٹ کے مطابق، 11 جنوری کو نابالغ بتائے گئے ملزم نے ایک دیگر ملزم وشال جنگوترا کو لڑکی کے اغوا کی جانکاری دی۔ کہا کہ اگر وہ بھی ہوس بجھانا چاہتا ہے تو میرٹھ سے جلدی آ جائے۔
12 جنوری کو وشال جنگوترا رسانا پہنچا۔ صبح تقریباً 8:30 بجے ملزم مندر گئے اور وہاں بھوکے پیٹ قیدی لڑکی کو نشے کی تین گولی دی۔چارج شیٹ کے مطابق، الزام ہے کہ جب سانجی رام نے کہا کہ اب بچی کا قتل کرکے لاش کو ٹھکانے لگانا ہوگا تو بچی کے ریپ اور قتل کی تفتیش میں شامل پولیس افسر کھجوریا نے کہا کہ تھوڑا انتظار کرو، میں بھی ریپ کروںگا۔ پھر سبھی نے آٹھ سالہ لڑکی کے ساتھ گینگ ریپ کیا۔ پھر گلا گھونٹکر اور سر پر پتھر سے وار کرکے اس کا قتل کر دیا اور لاش کو جنگل میں پھینک دیا۔
چارج شیٹ کے مطابق، پولیس ٹیم نے مقدمہ سے بچانے کے لئے ریپ کے نابالغ بتائے گئے ملزم کی ماں سے 1.5 لاکھ روپے رشوت بھی لی۔ دوسری طرف کٹھوعہ بار ایسوسی ایشن کے صدر کرتی بھوشن ساہوکار نے کہا کہ معاملے میں کرائم برانچ کی تحقیقات کو لےکر بار ایسوسی ایشن ہڑتال پر ہے اور سی بی آئی جانچکے حق میں ہے۔جموں بار ایسوسی ایشن نے الزام لگایا ہے کہ کرائم برانچ ڈوگرا کمیونٹی کو تفتیش میں نشانہ بنا رہی ہے۔ وہ پچھلے پانچ دن سے ہڑتال پر ہیں اور انہوں نے 11 اپریل کو جموں بند کا اعلان کیا۔ 11 اپریل کو وکیلوں کے بند کا ملاجلا اثر رہا۔
وہیں، دوسری طرف ایک سینئر پولیس افسر نے کہا کہ وکیلوں کے ایک گروپ کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی جنہوں نے مظاہرہ کیا اور کرائم برانچ کے افسروں کو کام کرنے سے روکنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ وکیلوں کی اب تک پہچان نہیں ہوئی ہے۔کانگریس اور ماکپا نے وکیلوں کی مخالفت کی سخت مذمت کی ہے جبکہ نیشنل کانفرنس نے مقدمہ کو کٹھوعہ سے باہر منتقل کرنے اور جلد انصاف کے لئے فاسٹ ٹریک عدالت تشکیل کرنے کی مانگ کی ہے۔جموں و کشمیر کانگریس صدر جی اے میر نے واقعہ کے لئے وکیلوں کی تنقید کرتے ہوئے اس کو ‘ سیاست سے متاثر، قابل اعتراض اور انصاف کے عمل کو مسدود کرنے والوں کا اس گھناؤنے جرم سے کچھ حاصل کرنے کی سازش کا ایک حصہ بتایا۔ ‘
میر نے کہا، ‘ انصاف کےعمل میں رکاوٹ ڈالنا گھناؤنے جرم کی حمایت کے برابر ہے۔ یہ بدقسمتی ہے اور اس سے ان کے پیشے کی بدنامی ہوتی ہے۔ ‘ماکپا کے ریاستی سکریٹری غلام نبی ملک نے کہا، ‘ یہ شرمناک کارنامہ ہے اور وکیلوں اور ان کے سیاسی آقاؤں کے انسانی اقدار کے خلاف ہے جو کہ متاثر فیملی کو انصاف دلانے میں مدد کرنے کےبجائے تشدد پسندلوگوں کی طرح سامنے آرہے ہیں۔ ‘انہوں نے کہا، ‘ کوئی مجرم بس مجرم ہے، اس کی ذات، رنگ یا مذہب پر خیال کئے بغیر اس سے قانون کے مطابق نپٹا جانا چاہئے۔ جذبات کو بھڑکاکر اور ریپ اور قتل معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دےکر حاشیے پر رہنے والے لوگ انسانیت کے خلاف ایک گھناؤنا جرم کر رہے ہیں۔ ‘
ملک نے کہا، ‘ حکومت کو ملزمین کے متعلق کوئی بھی نرمی دکھائے بنا ان کے خلاف کڑی کارروائی کرنی چاہئے۔ ‘نیشنل کانفرنس کے جنرل سکریٹری علی محمد ساغر نے کہا کہ ملک کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں سنا گیا ہے جب سفیدپوش پیشہ ور لوگ کسی گھناؤنے جرم کے ملزمین کی حمایت میں آئے ہوں۔ساغر نے کہا، ‘ یہ مذہب اور علاقہ کی بنیاد پر ریاست کا پولرائزیشن کرنے کی سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے۔ ہم صور ت حال پر نظر رکھیںگے اور ایسی سازشوں کو ناکام کریںگے۔ ‘انہوں نے کہا، ‘ ہم مانگ کرتے ہیں کہ اس معاملے کی سماعت کٹھوعہ سے کہیں دوسری جگہ منتقل کی جائے تاکہ اس کی سماعت بنا کسی رکاوٹ کے ہو سکے۔ ‘
Categories: فکر و نظر