خبریں

ملک میں 11 ہزار کی آبادی پر صرف ایک ڈاکٹر

مرکزی وزارت صحت کے مطابق، بہار میں 28391 لوگوں پر ایک ڈاکٹر۔ ملک میں ڈاکٹروں کی کمی کی وجہ سے  شوگر  اور ہائی بلڈپریشر کے مریضوں کی تعداد ایک سال میں دوگنی۔ کینسر کے معاملوں میں 36 فیصدی اضافہ۔

(علامتی فوٹو : رائٹرس)

(علامتی فوٹو : رائٹرس)

نئی دہلی : ایک ارب سے زیادہ آبادی، ڈاکٹروں کی کمی اور بدلتی طرز زندگی۔ یہ مثلث اور اس سے جڑی آلودگی، صاف پینے کے پانی کی کمی جیسے عوامل کی وجہ سے  ملک میں کینسر، شوگر  اور ہائی بلڈپریشر کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ مرکزی وزارت صحت کے سینٹرل بیورو آف ہیلتھ انٹیلیجنس کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، سال 2017 کے دوران حکومت کےنیشنل ٹیسٹ پروگرام کے تحت جانچ  میں یہ پایا گیا کہ شوگر  اور ہائی بلڈپریشر کے مریضوں کی تعداد محض ایک سال میں دوگنی ہو گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، سال 2017 کے دوران حکومت کے نیشنل ٹیسٹ  پروگرام کے تحت جانچ  میں یہ بھی پایا گیا کہ ایک سال کے دوران کینسر کے معاملے بھی 36 فیصد تک بڑھ گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، ملک میں ڈاکٹروں کی بھاری کمی ہے اور فی الحال ملک میں 11082 کی آبادی پر محض ایک ڈاکٹر ہے۔ ڈبلیو ایچ او  کے طے اسٹینڈرڈ کے مطابق، یہ تناسب فی ایک ہزار آدمیوں  پر ایک ہونا چاہیے ۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو یہ تناسب طے اسٹینڈرڈ  کے مقابلے11 گنا کم ہے۔

بہار جیسی ریاستوں میں تو تصویر اور بھی دھندھلی ہے، جہاں 28391 لوگوں کی آبادی پر ایک ایلوپیتھک ڈاکٹر  ہے۔ اتر پردیش، جھارکھنڈ، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ میں بھی حالات کوئی بہت اچھے نہیں ہیں۔ ڈاکٹروں کی کمی ہونے کا نتیجہ یہ ہے کہ جھولاچھاپ ڈاکٹروں کو لوگوں کی زندگی سے کھلواڑ کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔غیر سرکاری تنظیموں  کی مانیں تو صحت کے شعبے میں دیہی علاقوں کی حالت بہت خراب ہے۔ ان علاقوں میں جھولاچھاپ ڈاکٹروں کی تعداد میں بھاری اضافہ ہوا ہے۔

ڈبلیو ایچ او  کے 2016 کے اعداد و شمار ڈرانے والی تصویر دکھاتے ہیں۔ ان کے مطابق، ہندوستان میں ایلوپیتھک ڈاکٹر کے طور پر مشق کرنے والے ایک تہائی لوگوں کے پاس میڈیکل کی ڈگری نہیں ہے۔ میڈیکل کاؤنسل آف انڈیا کے پاس سال 2017 تک کل 10.41 لاکھ ڈاکٹر رجسٹرڈ تھے۔ ان میں سے سرکاری ہسپتالوں میں 1.2 لاکھ ڈاکٹر تھے۔ باقی ڈاکٹر نجی  ہسپتالوں میں کام کر رہے  ہیں یا اپنی پرائیویٹ  پریکٹس  کرتے ہیں۔ یہاں یہ سوال ہے کہ ملک میں آخر کتنے لوگ ہیں جو اقتصادی طور پر اتنے قابل ہیں کہ پرائیویٹ  ہاسپیٹل  اور پرائیویٹ  ڈاکٹروں سے علاج کرا سکیں۔

ڈبلیو ایچ او  نے گزشتہ  سال اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ ہندوستان میں صحت کے مد میں ہونے والے خرچ کا 67.78 فیصد لوگوں کی جیب سے ہی نکلتا ہے، جبکہ اس معاملے میں عالمی اوسط 17.3 فیصد ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آدھے ہندوستانیوں کی ضروری صحت خدمات تک پہنچ ہی نہیں ہے، جبکہ صحت خدمات کا فائدہ اٹھانے والے لوگ اپنی آمدنی کا 10 فیصدی سے زیادہ علاج پر ہی خرچ‌کر رہے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ 2018 کے مطابق، ہندوستان میں تقریباً 23 کروڑ لوگوں کو 2007 سے 2015 کے دوران اپنی آمدنی کا 10 فیصدی سے زیادہ پیسہ علاج پر خرچ کرنا پڑا۔ یہ تعداد برٹن، فرانس اور جرمنی کی مشترکہ آبادی سے بھی زیادہ ہے۔ ہندوستان کے مقابلے میں علاج پر اپنی آمدنی کا 10  فیصد سے زیادہ خرچ کرنے والے لوگوں کا فیصد سری لنکا میں 2.9 فیصدی ، برٹن میں 1.6 فیصدی، امریکہ میں 4.8 فیصدی اور چین میں 17.7 فیصدی ہے۔

ڈبلیو ایچ او  کے ڈائریکٹر جنرل ٹریڈوس ایڈہانوم گیبریئس  نے ایک ریلیز  میں کہا، ‘ بہت سے لوگ ابھی بھی ایسی بیماریوں سے مر رہے ہیں، جن کا علاج موجود ہے اور جس کو بڑی آسانی سے روکا جا سکتا ہے۔ بہت سے لوگ صرف علاج پر اپنی کمائی خرچ کرنے کی وجہ سے غریبی میں الجھ جاتے ہیں اور بہت سے لوگ صحت خدمات کو ہی پانے میں نااہل ہیں۔ یہ ناقابل قبول ہے۔ ‘

ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے ملک کی آبادی کا کل 3.9 فیصد یعنی 5.1 کروڑ ہندوستانی اپنے گھریلو بجٹ کا ایک چوتھائی سے زیادہ خرچ علاج پر ہی کر دیتے ہیں، جبکہ سری لنکا میں ایسی آبادی محض 0.1 فیصد ہے، برٹن میں 0.5 فیصدی، امریکہ میں 0.8 فیصدی اور چین میں 4.8 فیصدی ہے۔ روٹی، کپڑا اور مکان انسان کی بنیادی ضروریات بھلےہی ہیں، لیکن اچھی صحت اور اس کو بنائے رکھنا بھی اتنا ہی ضروری ہے اور اس کے لئے ڈاکٹروں کی کمی کو دور کرنا وقت کی پہلی ضرورت ہے۔