فکر و نظر

رویش کا بلاگ : NPA تنازعہ میں عوام اسی طرح الو بن رہی ہے جیسے ہندومسلم معاملے میں بنتی ہے

اگر یہ سیاسی تنازعہ کسی بھی طرح سے اقتصادی جرم کا ہے تو دس لاکھ کروڑ روپے لےکر فرار مجرموں کے نام لئے جانے چاہیے۔ کس کی حکومت میں لون دیا گیا یہ تنازعہ ہے، کس کو لون دیا گیا اس کا نام ہی نہیں ہے۔

(فوٹو : پی ٹی آئی / رائٹرس)

(فوٹو : پی ٹی آئی / رائٹرس)

کیا وزیر اعظم ان کمپنیوں کے نام لے سکتے ہیں جنہوں نے ہندوستان کی عوام کے جمع پیسے سے سستی شرحوں پر لون لیا اور اس لون کا دس لاکھ کروڑ بینکوں کو واپس نہیں کیا؟کیا وزیر خزانہ ان کمپنیوں کے نام لے سکتے ہیں؟  کیا امت شاہ کا نام لے سکتے ہیں؟  کیا کانگریس سے راہل گاندھی، چدمبرم کا نام لے سکتے ہیں؟  جب یہ دونوں رہنما لون لےکر بھاگنے والوں کے نام نہیں لے سکتے ہیں تو پھر یہ بحث ہو کس چیز کی رہی ہے؟

عوام کو سمجھنا چاہیے کہ وہ این پی اے کے تنازعہ میں اسی طرح سے الو بنائے جا رہے ہیں جس طرح سے ہندومسلم میں بنائے جاتے ہیں۔اگر یہ سیاسی تنازعہ کسی بھی طرح سے اقتصادی جرم کا ہے تو دس لاکھ کروڑ روپے لےکر فرار مجرموں کے نام لئے جانے چاہیے کہ نہیں چاہیے۔  کس کی حکومت میں لون دیا گیا یہ تنازعہ ہے، کس کو لون دیا گیا اس کا نام ہی نہیں ہے۔

آج کل ہر دوسرا رہنما خود کے مضبوط رہنما ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو یہ بتانے میں کیا اس کو ڈر لگتا ہے کہ وہ کون سے لوگ ہیں، کون سی کمپنیاں ہیں جنہوں نے بینکوں کے کئی لاکھ کروڑ لون لےکر نہیں چکائے۔کیا ہماری سیاسی جماعتوں نے ان کارپوریٹ کی غلامی قبول‌کر لی ہے؟  تو پھر آپ عظیم ہندوستان کی جمہوریت کو بچانے کے لئے ان جماعتوں پر کیسے بھروسہ کر سکتے ہیں؟  کیا یہ شرمناک نہیں ہے؟

 ریزرو بینک آف انڈیاکیوں نہیں بتا دیتا ہے کہ لون ڈیفالٹر کون-کون ہیں؟  ریزرو بینک نے کیوں نام ظاہر کرنے سے منع کیا جبکہ بینکوں میں اسی ریزرو بینک کا آرڈرٹنگا ہوتا ہے کہ کسی بھی بقایہ دار کا نام اخبار میں فوٹو سمیت چھپوایا جا سکتا ہے۔آپ خود جاکر بینکوں میں دیکھ لیں۔  کیا ریزرو بینک کی بھی گھگی بندھ گئی ہے؟

رافیل معاملے میں راہل گاندھی نے امبانی اور ان کی کمپنی کا نام لیا۔  ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ رہنما، گھرانہ کا درجہ حاصل کر چکے کمپنیوں کے مالکوں کے نام لیتے ہیں۔  مگر یہ استثنا ہے۔  ایسا کرنے پر وہ کمپنی ایک سیاسی جماعت پر 5000 کروڑ کی ہتک عزت کا مقدمہ کر دیتی ہے۔

ہتک عزت خاموش کرانے کا نیا ہتھیار ہے۔ پر وزیر اعظم کو کس بات کا ڈر ہے؟  امت شاہ نے تو کہا ہے کہ 50 سال بی جے پی کی حکومت رہے‌گی، پھر دونوں کیوں نہیں پورا چارٹ عوام کے سامنے رکھتے ہیں کہ کون-سی کمپنی، کون-سے مالک، کتنا لون، کتنا این پی اے، کس کے ٹائم میں ہوا۔

سرکاری بینکوں کے دس لاکھ کروڑ نہیں چکائے گئے ہیں۔  اسی کو نان پرفارمنگ اسیٹ (این پی اے) کہا جاتا ہے۔6 اپریل 2018 کو لوک سبھا میں مالیاتی وزیر مملکت شیو پرتاپ شکل نے بتایا تھا کہ مارچ 2015 میں بینکوں کا این پی اے 2 لاکھ 67 ہزار کروڑ تھا۔  30 جون 2017 کو 6 لاکھ 89 ہزار کروڑ ہو گیا۔دو سال میں چار لاکھ کروڑ سے زیادہ بڑھ گیا۔  یہ کس کی حکومت میں ہوا؟  کتنا لون یو پی اے میں دیا گیا اور کتنا لون مودی حکومت کے وقت دیا گیا؟  کیا یہ جاننے کا آپ کو حق ہے کہ نہیں ہے۔

ایک بینکر نے بتایا ہے کہ جب کوئی لون این پی اے ہو جاتا ہے تو اس پر سودنہیں لگتا ہے۔  اس لئے این پی اے کی جو نئی رقم آپ دیکھتے ہیں وہ نئے لون کی ہوتی ہے۔اگر یہ صحیح ہے تو کیا مودی حکومت کے وقت این پی اے زیادہ ہوا؟  کیا آپ یہ جانتے ہیں کہ یو پی اے کے وقت جو کارپوریٹ لون نہیں چکا پا رہا تھا، اس کو این ڈی اے کے وقت پھر سے لون ملا یا لون ملنا بند ہو گیا؟

یہ سب جانے بغیر آپ این پی اے کو لےکر بحث کیا کر رہے ہیں۔  ہے دم تو سیاسی جماعت کا کارکن اپنے پوسٹروں میں ان کمپنیوں اور ان کے مالکوں کی فوٹو لگاکر گلی گلی میں گھوم‌کر دکھائیں جنہوں نے عوام کے پیسے سے لون لےکر نہیں چکائے۔پوسٹر پھاڑنا اور جلسہ-سیمینار نہیں ہونے دینا اس طرح کی حرکتیں آسان ہیں، مگر وہ ایسا نہیں کر پائیں‌گے۔  وجے مالیا آج نہ کل ہندوستان آ جائیں‌گے۔  ان کو لےکر متھ بنا دیا جائے‌گا کہ بڑا بھاری کام کر دکھایا۔

لیکن بھاگے تو اور بھی ہیں۔ جتن مہتہ تو 6712 کروڑ کا لون لےکر بھاگا ہے۔  وہ کب آئے‌گا؟  للت مودی کا کیا ہوا؟انڈین ایکسپریس میں خوشبو نارائن کی خبر چھپی ہے۔  نیرو مودی بھاگنے سے تین مہینے پہلے وانوتو نام کے ملک کی شہریت لینے کی کوشش کر رہا تھا۔  یہ ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے۔

بتائیے ملک چھوڑ‌کر یہ سب جزیرہ جا رہے ہیں اور رہنما لوگ ہم عوام کو دیپوا بنا رہے ہیں۔  میہل چوکسی اینٹیگوا کا شہری ہو گیا۔  للت مودی کی اسٹوری تو غائب ہی ہو گئی۔مارچ 2018 میں وزیر ہردیپ سنگھ پوری کے پریس کانفرنس کی خبر ہندو بزنس لائن میں چھپی ہے۔  مودی حکومت کے وزیر ہردیپ پوری نے الزام لگایا تھا کہ کانگریس نے مہتہ کو بھاگنے میں مدد کی۔

مہتہ کو 2010 سے 2013 کے درمیان کس بینک نے کب اور کتنا لون دیا اس کی پوری تفصیل دی ہے، جبکہ وہ وزیر خزانہ نہیں، شہری ترقی کے وزیر ہیں۔ان کے مطابق جتن مہتہ10 نومبر 2012 کو ہی سینٹ کٹس اور نیوس کی شہریت لے چکا تھا۔  دسمبر 2014 میں جتن مہتہ نے سنگاپور میں ہندوستانی ہائی کمیشن کے سامنے ہندوستان کا پاسپورٹ سرینڈر کر دیا۔

اگر جتن مہتہ کو بھاگنے میں کانگریس کی حکومت نے مدد کی تو للت مودی، نیرو مودی، میہل چوکسی، وجے مالیا کیا بنا مدد کے 13500، 9000 کروڑ کا لون گٹک‌کر بھاگ گئے؟دوسری بات، اس پریس کانفرنس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جب حکومت کو سہولت ہوتی ہے تب وہ ایک دو بقایہ داروں کے نام، لون کی رقم بتاتی ہے، کب لون دیا گیا بتاتی ہے۔تو پھر ہندوستان کے وزیر اعظم ان کمپنیوں اور ان کے مالکوں کے نام کیوں نہیں لے رہے ہیں؟  امت شاہ اور راہل گاندھی کیوں نہیں لے رہے ہیں؟  اگر یہ بحث بغیر کسی نام کے، کسی ڈٹیل کے ہو رہی ہے تو آپ ٹی وی بند کر دیں۔  اخبار پلٹ‌کر رکھ دیں۔

(یہ مضمون رویش کمار کے فیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔)