فکر و نظر

سینٹرل انفارمیشن کمشنر نے کہا ؛ مجوزہ ترمیم آر ٹی آئی ایکٹ کو تباہ کر دے گی

ڈیٹا تحفظ بل،آرٹی آئی اورپرائیویسی سے متعلق مختلف پہلوؤں پرسینٹرل انفارمیشن کمشنر پروفیسر مدابھوشنم شری دھر آچاریہ لو سے دھیرج مشرا کی خاص بات چیت۔

ایم شری دھرآچاریہ لو(فوٹو :دھیرج مشرا /دی وائر)

ایم شری دھرآچاریہ لو(فوٹو :دھیرج مشرا /دی وائر)

نئی دہلی:سینٹرل انفارمیشن کمشنر پروفیسر مدابھوشنم شری دھرآچاریہ لوآر ٹی آئی اور شفافیت کے مدعے پر اپنے بےباک فیصلوں کے لئے جانے جاتے ہیں۔  حال ہی میں اپنے ایک فیصلے میں انہوں نے راجیہ سبھا کے صدر اور لوک سبھا کے اسپیکر سے سفارش کی ہے کہ ایم پی  فنڈ کی رقم کا مناسب استعمال کرنے کے لئے شفاف سسٹم بنایا جائے۔آچاریہ لو ان کچھ چنندہ کمشنر میں سے ایک ہیں جو عہدے پر رہتے ہوئے بھی آر ٹی آئی سے متعلق حکومت کے فیصلوں کی کھلی مخالفت کی ہے۔گزشتہ جولائی میں آچاریہ لو نے کمیشن کے تمام انفارمیشن  کمشنر کو خط لکھ‌کر حکومت کے ذریعے مجوزہ آر ٹی آئی ترمیم کو  واپس لینے کی مانگ کی تھی۔

آچاریہ لو حیدر آباد کے نالسر یونیورسٹی میں پروفیسر رہ چکے ہیں اور 22 نومبر 2013 کو سینٹرل انفارمیشن  کمشنر مقرر کئے گئے تھے۔ 21 نومبر کو آچاریہ لو ریٹائر ہو رہے ہیں اور انہوں نے حال ہی میں جسٹس بی این شری کرشنا کمیٹی کی طرف سے تجویز کردہ آر ٹی آئی ترمیم پر سخت رد عمل کااظہار کیا ہے۔آرٹی آئی سے متعلق تمام مدعوں پر دی وائر کی شری دھر آچاریہ لو سے بات چیت۔

ایسا کیوں مانتے ہیں کہ جسٹس بی این شری کرشنا کمیٹی کے ذریعے تیار کئے گئے ڈیٹا تحفظ بل سے آرٹی آئی قانون کو خطرہ ہے؟

جسٹس بی این شری کرشنا کمیٹی کے ذریعے تیار کئے گئے مسودہ میں ایک اہتمام ہے کہ آرٹی آئی قانون کی دفعہ 8 (1) (جے)میں ترمیم کی جائے‌گی اور اس میں پرائیویسی سے متعلق کئی ساری چیزوں کو جوڑا جائے‌گا۔اس کا مطلب ہے کہ پرائیویسی کا حوالہ دےکر حکومت میں بیٹھے لوگ، اہلکار اور نوکرشاہ جانکاری دینے سے منع کر دیں‌گے۔ڈیٹا تحفظ اور پرائیویسی دونوں چیزیں بہت ہی اہم ہیں۔  میں اس کی مخالفت نہیں کر رہا ہوں۔  ملک کے ہرایک شہری کی پرائیویسی کو میڈیا، حکمراں لوگ، کارپوریٹ اور ذاتی ایجنسیوں سے بچایا جانا چاہیے۔  میرے خیال میں ٹیلی فون ٹیپنگ لوگوں کی پرائیویسی پر بےحد سنگین حملہ ہے۔اقتدار میں بیٹھے لوگ آسانی سے ٹیپنگ کر سکتے ہیں کیونکہ ان کے پاس اس سے متعلق تکنیک موجود ہے۔

اسی بات کو دھیان میں رکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے پی یو سی ایل بنام یونین آف انڈیا کے فیصلے میں کئی ساری ہدایات دئے ہیں تاکہ اقتدار یا ریاست کے ذریعے لوگوں کے حقوق کی پامالی نہ کی جائے۔  یہ فیصلہ ہندوستانی آئین میں امتناعی روک تھام کی طرح ہے۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حکومت عوام سے ضرورت سے زیادہ جانکاری مانگ رہی ہے۔ حکومت آدھار کے ذریعے عوام سے متعلق ساری جانکاری لے رہی ہےلیکن حکومت میں بیٹھے افسر اور سرکاری ملازم اپنی جانکاری نہیں دینا چاہ رہے ہیں۔یہ ایک تضاد ہے۔یہ بالکل غلط ہے۔حکومت جتنی عوام کے بارے میں جانکاری اکٹھا کر رہی ہے،اس کے مقابلے میں عوام کو حکومت اور سرکاری ملازمین‎ کے بارے میں زیادہ جاننے کا حق ہے۔پرائیویسی کے معاملے میں ایک استثنا ہے اور یہ ہے عوامی مفاد یا مفاد عامہ۔  جہاں پر مفاد عامہ کا معاملہ ہوگا وہاں پر پرائیویسی کی دلیل نہیں دی جا سکتی ہے۔

مفاد عامہ میں جرم شامل ہے، جرم میں سیاستدانوں کی بد عنوانیاں شامل ہیں، جرم میں کارپوریٹ بد عنوانی، بے ضابطگیاں،بد نظمی، سیاسی جماعتوں کے ذریعے کئے گئے جمہوری غلطیوں کو شامل کیا گیا ہے،یہ تمام چیزیں پرائیویسی کے دائرے سے باہر ہیں۔  کوئی بھی پرائیویسی کا حوالہ دےکر ان سب چیزوں سے بچ نہیں سکتا ہے۔ان تمام چیزوں کے بارے میں بات کرنے کے لئے ہمیں بولنے اور اظہار کی آزادی ہونی چاہیے۔جرم پر سوال اٹھانے کے لئے، غلط پر سوال پوچھنے کے لئے، غیر جمہوری سرگرمی، سرکاری غلطی پر سوال پوچھنے کے لئے، ہمیں بولنے اور اظہار کی آزادی کی ضرورت ہے۔

اس لئے آئین کے آرٹیکل 19 (1) (اے)کے تحت ہمیں بولنے اور اظہار کی آزادی دی گئی ہے اور آرٹیکل 19 (2) کے تحت کچھ مناسب پابندی لگائی گئی ہے۔  ان سبھی کے درمیان کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ پرائیویسی کی بنیاد پر بولنے اور اظہار پر کوئی پابندی لگائی جائے‌گی۔آرٹیکل 19 (2) میں کہیں پر بھی اس کے بارے میں ذکر بھی نہیں ہے۔یہ سب سے اہم بات ہے جہاں پر جسٹس بی این شری کرشنا کمیٹی نے بالکل بھی دھیان نہیں دیا۔یہ بےحد تشویشناک ہے کہ اس کمیٹی میں بیٹھے ماہرین قانون نے اس بات کو بالکل نظرانداز کر دیا۔ کس بنیاد پر پرائیویسی کے نام پر بولنے اور اظہار کی آزادی پر لگام لگائی جا سکتی ہے؟

میں اپنے آرٹی آئی قانون کو لےکر فکرمند ہوں۔میں اپنے بولنے اور اظہار کی آزادی کے حق کو لےکر فکرمند ہوں۔اس بات سے بالکل فرق نہیں پڑتا ہے کہ کس نے رپورٹ لکھی ہے۔میں رپورٹ میں لکھی باتوں کو لےکر فکرمند ہوں۔یہ قانون، سسٹم، شفافیت اور آئینی حقوق کا سوال ہے۔  لوگ اس پر سمجھوتہ نہیں کر سکتے ہیں۔اگر اس مسودہ کو منظوری مل جاتی ہے تو آرٹی آئی قانون بہت ہی زیادہ متاثر ہوگا۔   عوام کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے‌گا۔یہ مسودہ نوکرشاہوں کو جانکاری چھپانے کے لئے ایک دم کھلی چھوٹ دیتا ہے۔ہر افسر اپنی پرائیویسی کا حوالہ دےکر جانکاری دینے سے منع کر دے‌گا۔

اس کا کیا حل دیکھتے ہیں؟

 آرٹی آئی قانون کی دفعہ 8 (1) (جے) میں تجویز کردہ ترمیم کو پوری طرح واپس لیا جانا چاہیے۔اس ترمیم کی تجویز آر ٹی آئی کے تحت کام کرنے والے کسی بھی شخص سے رائے-مشورہ لئے بنا ہی دی گئی ہے۔کمیٹی نے سینٹرل انفارمیشن کمیشن اور ریاستی سینٹرل کمیشن کے کسی بھی کمشنر سے رابطہ نہیں کیا اور بغیر وسیع پیمانے پرصلاح مشورہ کے آر ٹی آئی میں ترمیم کی تجویز دے دی گئی۔

کمیشن روزانہ دفعہ 8 (1) (جے)سے جوجھ رہا ہے۔ ہمیں اس کی حقیقت معلوم ہے۔ پبلک انفارمیشن افسران کے ذریعے دفعہ 8 (1) (جے)کے تحت اطلاع نہیں دینے کی وجہ سے ملک کے تمام کمیشن اطلاع فراہم کرنے کے لئے جدو جہد کر رہے ہیں۔اس کی بلا خیزی اس بات سے سمجھی جا سکتی ہے کہ مثال کے لئے ایک بار کسی نے آر ٹی آئی لگاکر یہ جانکاری مانگی کہ اس کو دی گئی اسکالرشپ کی لسٹ مہیا کرائی جائے۔ اس پرپبلک انفارمیشن افسر نے کہا کہ یہ نجی جانکاری ہے اور دفعہ 8 (1) (جے)کے تحت نہیں دی جا سکتی ہے۔

اسی طرح ممبئی کے ایک افسر نے کہا کہ وہ محکمہ موسمیات کی رپورٹ نہیں دے سکتے ہیں کیونکہ یہ نجی  جانکاری ہے۔اس کے پیچھے کی دلیل یہ تھی کہ چونکہ اس رپورٹ پر کسی کے ذریعے دستخط کیا گیا ہے اس لئے یہ ذاتی جانکاری ہے۔یہ حال ہے ملک کے پبلک افسران کا۔اگر ہم آر ٹی آئی قانون میں ترمیم کرتے ہیں اور شری کرشنا کمیٹی کے مشوروں کو منظور کرتے ہیں تو یہ آرٹی آئی قانون کو برباد کر دے‌گا۔کمیٹی نے نئے نئے کلاز کا مشورہ دےکر بہت زیادہ ابہام پیدا کر دیا ہے۔

جیسے انہوں نے ‘نقصان (ہارم)’ لفظ کا استعمال کیا ہے۔ مطلب اگر کسی اطلاع سے کسی کو نقصان ہوتا ہے تو اس کو منع کیا جا سکتا ہے۔ نقصان کا مطلب کیا ہے؟ جسمانی نقصان کو واضح کیا جا سکتا ہے لیکن اگر اطلاع جاری کی جاتی ہے، تو کیا یہ جسمانی نقصان پیدا کرے‌گی؟یہ کس طرح کا مشورہ ہے؟اگر دماغی نقصان ہے تو دماغی نقصان کیسے واضح کیا جا سکتا ہے؟ کیا اطلاع دینے والا پبلک انفارمیشن افسر، جو ایک عام کلرک ہے، کیا وہ دماغی نقصان کا اندازہ کر سکتا ہے کہ کس جانکاری کو دینے سے دماغی نقصان ہوگا اور کس سے نہیں۔

ہم یہ کیسے ثابت کر سکتے ہیں کہ کوئی اطلاع دینے کی وجہ سے دماغی نقصان ہوگا۔کیا کمیٹی نے دماغی نقصان کو واضح کیا؟اس سے ہوگا یہ کہ پبلک انفارمیشن افسر آسانی سے یہ کہہ دے‌گا کہ میں یہ جانکاری نہیں دے سکتا کیونکہ اس سے دماغی نقصان ہوگا۔عوام کو اس کا خوف ناک خمیازہ بھگتنا پڑے‌گا۔

کمیٹی کی طرف سے مجوزہ’بھلائے جانے کاحق ‘ (Right to be forgotten) کے بارے میں کیا کہنا ہے۔

شری کرشنا کمیٹی کی طرف سے مجوزہ یہ سب سے خطرناک حقوق میں سے ایک ہے۔یہ ایک یورپی خیال ہے۔اس کا مطلب ہے کہ اگر کسی کے ساتھ پہلے کوئی ناپسندیدہ واقعہ ہوا تھا اور وہ چاہتا ہے کہ اس چیز کے بارے میں اس کو یاد نہ دلایا جائے، تو شخص کے پاس اس واقعہ کو بھلائے جانے کا حق ہے۔ہندوستانی منظرنامہ میں جہاں پرائیویسی ایک خفیہ راز کے طور پر استعمال کی جاتی ہے، جہاں لوگ جرائم کاری سے دور ہونے کے لئے پرائیویسی کا غلط استعمال کرتے ہیں۔

جہاں پرائیویسی کا استعمال کرکے لوگوں کو بات کرنے سے روکا جاتا ہے، پرائیویسی کے نام پر میڈیا کو اس کے بارے میں لکھنے سے روکا جاتا ہے، ایسے حالات میں یہ پوری طرح سے بکواس ہے۔اس بات کو ایسے سمجھا جا سکتا ہے۔فرض کر لیجئے کہ کوئی سابق وزیراعلیٰ ہے اور وہ کسی جرم میں گرفتار ہوتا ہے اور اس کو کچھ سال کی سزا ہوتی ہے۔ سزا کاٹنے کے بعد وہ جیل سے باہر نکلتا ہے اور دوبارہ انتخابی میدان میں ہے۔

اب اگر میڈیا اس شخص کے بارے میں لکھتا ہے تو پہلے اس کو ڈیٹا پروٹیکشن اتھارٹی کے استغاثہ افسر کے پاس درخواست کرنا ہوگا اور اس سے اس پر اجازت لینی ہوگی۔استغاثہ افسر کوئی جج نہیں، بلکہ وہ ایک بابو ہوتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر یہ مسودہ منظور کیا جاتا ہے تو آنے والے وقت میں ایک بابو یہ فیصلہ کرے‌گا کہ میڈیا کیا لکھے‌گا۔ کیونکہ متعلقہ رہنما نے اپنی پرانی جانکاری کو شائع کرنے  پر اعتراض درج کرایا ہے کیونکہ اس کی پرائیویسی کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ اس کو کہتے ہیں پری سینسرشپ۔

آئین کے آرٹیکل 19 (1) (اے)کے تحت یہ حق دیا گیا ہے کہ میڈیا کو پری سینسرشپ کے بغیر چھاپنے کا حق ہے۔بھلانے کا حق آئینی حق کی پوری طرح سے خلاف ورزی ہے۔سرکاری ملازمین‎ کو دیا جانے والا یہ حق آر ٹی آئی کے لئے خوف ناک خطرہ ہے۔ اگر اس کو منظور کیا جاتا ہے تو اس میں یہ ترمیم کی جانی چاہیے کہ سرکاری ملازمین‎ اور حکومت میں بیٹھے لوگوں پر یہ نافذ نہیں ہوگا۔ایک فلم اداکار یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ میڈیا اس کی اس فلم کے بارے میں نہ لکھے، جو اس نے 20 سال پہلے بنائی تھی اور جو سب سے خراب ہے۔ کیونکہ اس میں اس کا مظاہرہ سب سے خراب ہے اور لوگوں کو اس کی یاد نہیں دلائی جانی چاہیے۔

یہ اہتمام بالکل بکواس ہے۔اس مسودہ میں دو طریقے کی چھوٹ دی گئی ہے۔پہلا طریقہ قومی سلامتی اور مجرمانہ تفتیش پر ڈیٹا تحفظ کے اصول نافذ نہیں ہوگا۔ لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ کمیٹی نے ان دونوں کو واضح کرنے کی زحمت نہیں اٹھائی اور کہا کہ مستقبل میں اس پر قانون لایا جانا چاہیے۔یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ ایک کمیٹی ان دو چیزوں سے چھوٹ دیتی ہے اور اس کو واضح بھی نہیں کرتی ہے۔یہ ذمہ داری کسی اور پر ڈال دی کہ پتا نہیں کب مستقبل میں اس پر قانون بنے‌گا۔

پرائیویسی پر 9ججوں کے فیصلے کو کس شکل میں دیکھتے ہیں؟

فلسفیانہ خیالات اور آئینی حقوق کے ساتھ یہ ایک شاندار فیصلہ ہے، لیکن 9 ججوں نے پرائیویسی کے حق کو واضح ہی نہیں کیا ہے۔آخر پرائیویسی کیا ہے،اس کو تعریف کے بغیر ہی چھوڑ دیا۔انہوں نے سوچا کہ پرائیویسی کو واضح کرنے کا حق کورٹ کے پاس نہیں ہے، اس کو پارلیامنٹ کے ذریعے کیا جانا چاہیے۔یہ بات اور ہے کہ فیصلے میں پرائیویسی کو لےکر کئی ساری چیزیں تجویز کی گئی ہیں۔

حالانکہ جج یہ صحیح بات کر رہے ہیں لیکن 545 رکن پارلیامان ایک ساتھ بیٹھ‌کر اس کو واضح نہیں کر سکتے ہیں۔اس موضوع پر ماہرین کی ایک کمیٹی ہونی چاہیے، جو اس کو واضح کر سکے۔جسٹس شری کرشنا کمیٹی یہ کام کر سکتی تھی۔لیکن یہ بےحد تشویشناک ہے کہ انہوں نے یہ کام نہیں کیا اور کسی اور پر اس کو چھوڑ دیا۔انہوں نے اپنی نجی جانکاری کو دو طریقے سے واضح کیا ہے۔ایک حساس نجی ڈیٹا اور دوسرا نجی ڈیٹا۔میرے خیال سے کمیٹی کے ذریعے واضح کیا گیا حساس نجی ڈیٹا بالکل صحیح ہے۔ صرف یہی پرائیویسی ہے۔

راج گوپال بنام تمل ناڈو معاملے میں جسٹس جیون ریڈی نے پرائیویسی کی ایک دم معقول تعریف کی ہے۔  سپریم کورٹ نے اپنے پرائیویسی والے فیصلے میں اس کا ذکر بھی کیا ہے۔میرے حساب سے میری پرائیویسی میری نجی زندگی، میری فیملی، میرے بچے، میری بیوی، میرے قانونی وارث،میری اولاد، ٹیلی فون ٹیپنگ،میرے گھر کے آس پاس کوئی سی سی ٹی وی نہ ہو، مجھے امن سے جینے کا حق ملے جیسی چیزیں ہیں۔لیکن جب میں سرکاری شہری ہو جاتا ہوں، رہنما بنتا ہوں تو میری کوئی پرائیویسی نہیں ہے۔اس حالت میں بھی پرائیویسی کا حق ہے ہمیں،لیکن صرف حساس نجی اطلاع تک۔  حکومت کو اس کی حفاظت کرنی چاہیے۔

موجودہ مرکزی حکومت نے انفارمیشن کمیشن کے کمشنر کی تنخواہ اور ان کی مدت  نئے طریقے سے طے کرنے کے لئے آر ٹی آئی قانون میں ترمیم کی تجویز لےکر آئی ہے۔  اس سے کیا اثر پڑے‌گا؟

سرکاری اورشخصی طور پر پچھلے ساڑھے چار سالوں میں بطور کمشنر کام کرتے ہوئے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ انفارمیشن  کمشنر کے کمشنر کی تقرری، ان کی تنخواہ اور ان کی مدت سے متعلق اہتمام پر سنجیدگی سے بحث کرنے کے بعد پاس کیا گیا تھا۔آر ٹی آئی پر ای ایم ایس نچی اپن کی صدارت میں بنی پارلیامانٹ کی مستقل کمیٹی کی رپورٹ کو اگر کوئی پڑھتا ہے تو یہ آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ انفارمیشن کمیشن اور انفارمیشن کمشنر کو کیوں پوری طرح سے آزادی دی گئی ہے۔

کمیٹی چاہتی تھی کہ کمیشن کو اعلیٰ درجے کی خودمختاری ملے تاکہ اقتدار سے کسی بھی قسم کی مداخلت نہ ہو۔  خودمختاری اور آزادی کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی کمشنر کوئی حکم دیتا ہے اور اگر وہ حکم اقتدار میں بیٹھے لوگوں کے لئے قابل اعتراض ہے اور وہ اس سے خوش نہیں ہوتے ہیں تو اس کی وجہ سے نہ تو کمشنر اور نہ ہی کمیشن پر کسی طرح کا اثر پڑے۔  یہ ہے اصل آزادی۔

آزادی کا مطلب ہے کہ کسی فیصلے میں کسی کی بھی مداخلت نہ ہو۔مجھے کوئی حکم دینے کے لئے کسی بھی آدمی کی اجازت نہ لینی پڑے اور اگر میں کوئی حکم دیتا ہوں تو اس میں کوئی میرے ساتھ مداخلت نہ کرے۔  یہ ہے اصلی اصل آزادی۔اس کو بچایا جانا چاہیے۔مجوزہ ترمیم اس کو ختم کر دے‌گی۔

اس معاملے میں اگر دیکھیں تو امریکہ کی سپریم کورٹ کےججوں کے پاس بہترین آزادی ہے۔ وہاں ان کی کوئی سبکدوشی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ان کو ہٹا سکتا ہے۔  صرف Impeachment ہی واحد امکان ہے۔ہندوستان کے برعکس امریکہ میں ججوں کے اوپر Impeachment چلایا بھی گیا ہے۔ہندوستان میں امریکہ کے جتنا تو نہیں،لیکن ایک سطح تک کی آزادی ہمارے آئین میں دی گئی ہے۔ہمارے یہاں جج 65 سال میں ریٹائر ہوتے ہیں۔اگر ایک بار وہ چن لئے جاتے ہیں تو ان کو ہٹایا نہیں جا سکتا ہے۔اس سطح تک آزادی یہاں بھی ہے۔لیکن ایک مسئلہ یہ ہے کہ کورٹ میں طاقت ور لوگوں کی ایک لابی چلتی ہے۔ اگر کوئی جج ریٹائر ہونے والا ہے تو وہ ہر ممکن کوشش کریں‌گے کہ ان کا مقدمہ اس جج کے پاس نہ جانے پائے کیونکہ وہ سخت فیصلہ دے سکتا ہے۔  لیکن ایسی سہولت لوگوں کو امریکہ کی کورٹ میں نہیں ملتی ہے۔

انفارمیشن کمیشن کو بناتے وقت ان تمام پہلوؤں پر سنجیدگی سے سوچا گیا تھا۔قانون میں سینٹرل انفارمیشن کمیشن کا درجہ الیکشن کمیشن کے برابر دیا گیا ہے اور سینٹرل انفارمیشن کمیشن کا درجہ سپریم کورٹ کے برابر ہے۔ اس طرح انفارمیشن کمیشن کو سپریم کورٹ کے برابر خودمختاری اور آزادی دی گئی ہے۔تو حکومت کیوں اس کو ڈسٹرب کر رہی ہے؟  کونسا پہاڑ ٹوٹ رہا ہے؟ اچانک ایسی کون-سی عدم مساوات آ گئی کہ حکومت ترمیم کرنے جا رہی ہے۔  ایسا کون سا بحران ان کے اوپر آ گیا ہے؟ان سب کا سیدھا-سا جواب ہے-کچھ بھی نہیں، زیرو۔  اس کی کوئی وجہ نہیں ہے، اگر یہ ترمیم ہوتی ہے تو انفارمیشن کمیشن کی آزادی بہت زیادہ متاثر ہوگی۔حکومت کہہ رہی ہے کہ وہ انفارمیشن کمشنر کی تنخواہ اور ان کی مدت کو اس طرح طےکرنا چاہتی ہے جیسا کہ ہندوستان کی حکومت کی طرف سے تجویز دی جائے گی۔

جیسا کہ ہندوستان کی حکومت کی طرف سے  تجویز دی جائےگی۔‘اس لائن کو توجہ سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔  اس کا مطلب ہے کہ جیسا کہ حکومت کی طرف سے  تجویز دی جائےگی ویسی تنخواہ اور مدت طے  ہوگی۔یعنی کہ آج ایک حکومت آتی ہے اور کہتی ہے کہ کمشنر کی مدت چار سال کی ہوگی اور کل کوئی اور آتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ نہیں نہیں یہ تو بہت زیادہ ہے، ان کی مدت گھٹاکر دو سال کرو۔اس کا مطلب ہے کہ ان کو قانون سے کوئی لینا-دینا نہیں ہے۔جس حکومت کا جیسا دل کرے‌گا وہ اپنے حساب سے انفارمیشن کمشنر کی مدت اور تنخواہ کو طے کر دیں‌گے۔

یہ کیا کوئی من مانی ہے کیا کہ کوئی بھی آئے‌گا اور اپنے من کے مطابق تنخواہ اورمدت طے کرے‌گا!یہ بھی واضح نہیں ہے کہ اگر حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ یہ اصول تمام کمشنر پر یکساں طورپر نافذ ہوگا یا پھر کسی کو دو سال، کسی کو ایک سال کی مدت دی جائے‌گی۔ایک دم کھلی من مانی چل رہی ہے۔انفارمیشن کمیشن کسی بھی طریقے سے سیاسی نوکرشاہی پر کبھی بھی منحصر نہیں ہونی چاہیے۔یہ ہمیشہ کے لئے طےکیا جانا چاہی۔

حکومت کی دلیل ہے کہ انفارمیشن کمیشن آئینی ادارہ نہیں،یہ ایک قانونی ادارہ ہے اس لئے اس کو الیکشن کمیشن کے برابر کا درجہ نہیں دیا جا سکتا ہے؟

آئینی ادارہ کس کو کہتے ہیں؟  اگر ہم آئین اور قانون کے جذبہ کو دیکھیں تو ہمیں آئینی ادارہ کی اصلی تعریف ملے‌گی۔لوگوں کو آئین کے آرٹیکل 19 (1) (اے) کے تحت ووٹ دینے کا حق ہے، تو الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہوا۔اسی طرح سپریم کورٹ نے 2005 سے پہلے اپنے کئی سارے فیصلوں میں یہ کہا ہے کہ آرٹی آئی آئینی حق ہے اور آرٹیکل 19 (1) (اے) کا حصہ ہے۔

وہیں 2005 کے بعد بھی سپریم کورٹ نے اپنے تین فیصلوں(تھلاپلم کوآپریٹو بینک بنام کیرل ریاست، نمیت شرما بنام ہندوستان یونین اور سی بی ایس ای بنام آدتیہ بندوپادھیائے)میں کہا کہ آر ٹی آئی آئینی حق ہے اورآرٹیکل19(1)(اے)کا لازمی حصہ ہے۔یہ تینوں فیصلے دوبارہ سے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں،آر ٹی آئی آئینی حق ہے۔خاص بات یہ ہے کہ جب آرٹی آئی قانون لایا جا رہا تھا تو مرکزی حکومت کے سامنے سوال رکھا گیا کہ آپ ریاستوں کے لئے آرٹی آئی کیسے بنائیں‌گے/نافذ کریں‌گے۔

اس پر مرکزی حکومت نے بےحد مزے دار جواب دیا اور اس پر ہمیں خاص دھیان دینے کی ضرورت ہے۔  حکومت نے کہا-ہم ایک آئینی حق کو مضبوطی عطا کر رہے ہیں، ہم اس کو پورے ملک کے لئے پاس کر رہے ہیں اور ریاستوں کو اس کو لینے کے لئے استقبال ہے۔  ریاست اس پر آگے آئے اور انہوں نے اس کو اپنے یہاں نافذ کیا۔  اس وقت کوئی اعتراض نہیں تھا۔حکومت نے خود کہا ہے کہ یہ آئینی حق ہے اور اب وہ اپنی بات سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔

آر ٹی آئی قانون میں تمام ریاستوں کو یہ آزاد طاقت دی گئی ہے کہ وہ اپنے حساب سے اپنے یہاں انفارمیشن کمشنر کاانتخاب کر سکتے ہیں۔مرکزی حکومت ان کے لئے تقرری نہیں کرے‌گی۔مرکزی حکومت ریاست میں کسی بھی طرح کی مداخلت نہیں کرے‌گی۔  اس کا مطلب ہے کہ حکومت نے یہ منظور کیا ہے کہ یہ ایک آئینی حق ہے۔لیکن اب حکومت کہہ رہی ہے کہ وہ ریاستی حکومت کے لئےبھی انفارمیشن کمشنر کی مدت اور تنخواہ کو طے کرے‌گی۔  یہ کیسے ممکن ہے؟یہ وفاقیت کے اصول کو ہی ختم کر دے‌گا۔حکومت کہہ رہی ہے کہ یہ قانونی ادارہ ہے۔  حکومت اپنےآپ کے خلاف جا رہی ہے۔

کیا ایسا مانتے ہیں کہ اعلیٰ سطح پر شفافیت کے ناطے دہلی یونیورسٹی کو وزیر اعظم نریندر مودی کی ڈگری سے متعلق جانکاری عام کرنی چاہیے؟

میں ابھی اس پر کچھ نہیں کہہ سکتا۔

حکومت نے زیادہ تر نوکرشاہوں کو انفارمیشن کمشنر مقرر کیا ہے۔  کیا یہ صحیح طریقہ ہے؟  حکومت ایسا کیوں کرتی ہے؟

یہ بےحد حیران کن اورتشویشناک بات ہے کہ زیادہ تر کمشنر سابق آئی اے ایس افسر رہے ہیں، جو حکومت میں کام کر چکے ہیں۔حکومت کو 8شعبے سماجی کارکن، اکیڈمک ، میڈیا، منتظم، سائنس داں،قانون کے آدمی جیسے شعبوں سے تقرری کرنی چاہیے۔  یہ سب چیزیں قانون میں ہی دی گئی ہیں۔اگر حکومت سب سے زیادہ لوگوں کو نوکرشاہوں میں سے تقرر کر رہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ حکومت قانون توڑ رہی ہے۔ان تمام8شعبوں میں سے لوگوں کی تقرری ہونی چاہیے۔

اگر ان تمام شعبوں سے لوگ آتے ہیں تو کمیشن کی خودمختاری بھی برقرار رہے‌گی،ذاتی آزادی بھی رہے‌گی۔ کمیشن میں تنوع ہوگا اور فیصلے میں بھی اس کی جھلک دکھے‌گی۔میں پہلے بھی اس پر بولتا رہا ہوں اور آگے بھی بولتا رہوں‌گا۔  یہ بالکل صحیح نہیں ہے کہ کمیشن میں سب سے زیادہ نوکرشاہوں کی تعداد ہو۔

آر ٹی آئی پر دئے گئے سپریم کورٹ کے فیصلوں کو آپ کس طرح سے دیکھتے ہیں؟

سپریم کورٹ نے آر ٹی آئی کو پہچاننے اور اس کو منظوری دینے کی سمت میں کئی سارے فیصلے دئے ہیں۔  2005 سے پہلے اس سمت میں بہترین فیصلے دئے گئے اور 2005 کے بعد بھی کورٹ نے تین فیصلے دئے جو آر ٹی آئی کو آئینی حق کی پہچان دیتا ہے۔حالانکہ گریش دیش پانڈے جیسے کچھ فیصلے ہیں جو آر ٹی آئی قانون کو کافی نقصان پہنچا رہے ہیں۔

پچھلے 13 سالوں سے آر ٹی آئی لگاتار کام کر رہی ہے۔  اس کو کسی بھی صورت میں متاثر نہیں کیا جانا چاہیے۔  اس کو اپنے اصل شکل میں کام کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔  کچھ پبلک انفارمیشن افسر دفعہ 8 (1) (اے) بہت غلط طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔اس کو فوری طور سے روکا جانا چاہیے۔

کیا آر ٹی آئی قانون آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہے؟

میں اس پر بالکل اعتماد نہیں کرتا ہوں۔  یہ غلط بات ہے۔  90 فیصد معاملے عوام سے متعلق ہیں۔  بس کچھ معاملے ایسے ہیں جس میں بڑے رہنما، بدعنوان لوگ شامل ہیں۔  90 فیصد معاملوں میں آر ٹی آئی اپنا کام کر رہی ہے اور عوام اس سے خوش ہے۔میں آر ٹی آئی کو 10 روپے والی پِیل (پی آئی ایل یعنی مفاد عامہ عرضی)کہتا ہوں۔ایک چھوٹی-سی مثال لیجئے۔  کوئی ایک عام کلرک ریٹائر ہوتا ہے اور کچھ سال بعد اس کی پنشن رک جاتی ہے یا روک دی جاتی ہے۔

جیسے ہی وہ 10 روپے والی اس پیل یعنی آر ٹی آئی کا استعمال کرتا ہے، اس کی پنشن جاری ہو جاتی ہے۔ ایک عام آدمی کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے ہیں کہ وہ ہائی کورٹ میں عرضی لگاکر اپنی پنشن جاری کروا پائے، لیکن یہاں پر آر ٹی آئی لوگوں کے لئے مددگار ہے۔زیادہ تر معاملوں میں لوگوں کو جانکاری مل رہی ہے اور لوگ اس سے خوش ہیں۔  بس کچھ معاملے ہیں جو متنازعہ ہیں، وہ ہائی کورٹ جاتے ہیں جہاں سے درخواست گزار کو جانکاری مل جاتی ہے۔

اس کمیشن کا کمشنر ہونے کے ناطے میری یہ ذمہ داری ہے کہ میں آرٹی آئی قانون کی حفاظت کروں۔  ہندوستان کے آئین کے بعد آرٹی آئی قانون ہی اچھی طرح سے گفتگو، اچھی طرح سے بحث کے بعد بنایا گیا قانون ہے۔یہ واحد قانون ہے جس کو ملک کے ہرایک حصے میں گہرائی کے ساتھ بحث کرکے تیار کیا گیا ہے۔  ہماری آر ٹی آئی دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔  یہ واحد ایسا قانون ہے جو  پوری طرح سے عام آدمی کےحق میں ہے۔

آر ٹی آئی کی وجہ سے لوگ دیگر آئینی حقوق کا بھی فائدہ لے پاتے ہیں۔ اس کے ذریعے لوگ عام آدمی کے اصلی پاور کا احساس کر سکتے ہیں۔  یہ اصلی خودمختاری ہے۔