خبریں

گراؤنڈ رپورٹ : مالویہ نگر میں 8سالہ عظیم کی موت کیسے ہوئی؟

مالویہ نگر کے بیگم پور کے ایک مدرسے میں پڑھنے والے8 سالہ محمد عظیم کا کھیل‌کے دوران کچھ بچوں کے ساتھ جھگڑا ہو گیا تھا۔  پولیس نے مقدمہ درج کر کے4ملزم بچوں کو حراست میں لیا ہے، جن کی عمر 12 سے 13 سال کے درمیان ہے۔

آٹھ سالہ عظیم(فوٹو : پرشانت کنوجیا/دی وائر)

آٹھ سالہ عظیم(فوٹو : پرشانت کنوجیا/دی وائر)

نئی دہلی: ساؤتھ دہلی میں مالویہ نگر ، بیگم پور واقع  جامع فریدیہ اور جامع مسجد  مدرسے میں جمعرات کی صبح کھیل رہے کچھ بچوں کے درمیان جھگڑا ہو گیا۔ اس دوران 8 سال کے محمد عظیم کا قتل کر دیا گیا۔  پولیس کے مطابق، قتل کے الزام میں پاس کی والمیکی بستی کے4 نابالغ بچوں کو حراست میں لیا ہے۔  ملزم بچوں کی عمر 12 سے 13 سال کے درمیان بتائی جا رہی ہے۔پولیس نے آئی پی سی کی دفعہ 302 کے تحت معاملہ درج کیا ہے۔  ڈی سی پی(ساؤتھ)وجئے کمار نے کہا کہ ملزم بچوں کو   Juvenile Home  بھیجا جائے‌گا۔  ڈی سی پی نے بتایا کہ ایسا لگتا ہے کہ اندرونی چوٹوں کی وجہ سے عظیم کی موت ہو گئی۔

ڈی سی پی(ساؤتھ)کمار نے بتایا کہ آٹھ سے 11 سال کے مختلف کمیونٹی کے بچوں مدرسے کے پاس کی زمین پر کھیل رہے تھے۔اسی دوران ہوئے جھگڑے میں عظیم کو ایک بائیک پر پٹک دیا گیا، جس کے بعد وہ بےہوش ہو گیا۔  ہاسپٹل میں ڈاکٹروں نے اس کی موت کا اعلان کر دیا گیا۔عظیم کے ساتھ پڑھنے والے 12 سالہ محمد انس نے بتایا کہ جس وقت یہ واقعہ ہوا اس وقت مدرسے کے پڑھنے والے بڑے بچے قرآن پڑھنے باہر گئے ہوئے تھے۔

انس نے بتایا، جو چھوٹے بچےتھے وہ مدرسے کی زمین پر کھیل رہے تھے۔  بغل کی والمیکی کیمپ بستی سے کچھ بچے آئے اور اس کو پیٹنے لگے۔  ان میں سے ایک نے عظیم کو پٹائی کے دوران ایک موٹر سائیکل پر پٹک دیا، جس کے بعد وہ بےہوش ہو گیا۔  جب اس کو ہاسپٹل لے جایا گیا تو وہ ڈاکٹروں نے اس کی موت کا اعلان کر دیا۔  ‘عظیم کے دو بڑے بھائی بھی بیگم پور کے’جامعہ فریدیہ’اور جامع مسجد کے مدرسے میں زیرِ تعلیم  ہیں۔  تینوں بھائی ہریانہ کے میوات ضلع‎ کے ریٹھاٹ گاؤں کے رہنے والے ہیں۔  ان کی فیملی بھی ابھی وہیں رہتی ہے۔

عظیم کے والد خلیل احمد (فوٹو :پرشانت کنوجیا/دی وائر)

عظیم کے والد خلیل احمد (فوٹو :پرشانت کنوجیا/دی وائر)

عظیم  کے والد خلیل احمد (41) میوات میں مزدوری کرکے اپنا گزربسر کرتے ہیں۔دی وائر سے بات چیت میں انہوں نے بتایا،ہمیں جمعرات کی صبح 11 بجے کے قریب فون آیا کہ میرا بچہ کھیلتےکھیلتے گرا اور بےہوش ہو گیا۔  مجھے کسی نے اس کی موت کی جانکاری نہیں دی بس کہا کہ جلد دہلی آ جاؤ۔  میں جب یہاں پہنچا تو پتہ چلا کی اس کی موت ہو چکی ہے۔  عظیم ہمارا سب سے چھوٹا بیٹا تھا۔  وہ بہت ہی پیارا بچہ تھا۔  آخر میرے بیٹے کا قصور کیا تھا؟

مدرسے کے صدر مولانا محمد علی جوہر نے واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ نتیجہ صرف ایک دن کی لڑائی کا نہیں ہے بلکہ بغل کی بستی کے کچھ لوگ مسلسل ہم لوگوں کو پریشان کرنے کا کام کرتے ہیں۔

مولانا بتاتے ہیں،یہ معمولی واقعہ نہیں بہت بڑا حادثہ ہے۔  ہمیشہ تنگ کرتے رہتے ہیں، لیکن اب یہ زیادہ کچھ ہو گیا ہے۔  یہ لوگ بغل کی بستی کے کچھ اور لوگوں کو اکساکر لے آئے اور میدان میں کھیل رہے تین چار بچوں پر پتھر پھینکنے لگے۔  وہ بچوں کو گالیاں بھی دے رہے تھے، تو بچوں نے پوچھا کہ کیوں ہمیں گالیاں دے رہے ہو۔اس پر بستی کے لوگوں نے عظیم کی پٹائی شروع کر دی اور ان میں سے ایک نے اس کو موٹرسائیکل پر پٹک دیا اور وہ بےہوش ہو گیا۔وہ بتاتے ہیں،یہ سروج نام کی عورت اور اس کے شوہر کاکو کی کرتوت ہے۔  وہ لوگ بستی کے بچوں کو ہمیں پریشان کرنے کے لئے اکساتے ہیں۔  ان لوگوں نے آٹھ دس دن پہلے بھی مدرسے کے کچھ بچوں کو پیٹ دیا تھا۔  یہ لوگ مدرسے کی زمین پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اس لئے مدرسے کی زمین پر غلط کام کرتے ہیں۔  یہاں شراب اور گانجا پیتے ہیں اور خالی بوتل درگاہ پر پھینک دیتے ہیں۔

بیگم پورواقع مدرسہ جامعہ فریدیہ اور جامع مسجد (فوٹو : پرشانت کنوجیا/دی وائر)

بیگم پورواقع مدرسہ جامعہ فریدیہ اور جامع مسجد (فوٹو : پرشانت کنوجیا/دی وائر)

قتل کے الزام میں حراست میں لئے گئے بچے مالویہ نگر کے ایک سرکاری اسکول میں پڑھتے ہیں۔  چاروں کی عمر 12 سے 13 سال کے درمیان ہے۔  ان بچوں کی والدہ لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہیں اور والد مزدوری کرتے ہیں۔ملزم بچوں کی والدہ کا کہنا ہے کہ واقعہ کے وقت وہ لوگ اپنےاپنے کام پر گئی ہوئی تھیں۔  یہ واقعہ کن وجہوں سے ہوا ان کو نہیں معلوم۔

ان میں سے ایک ملزم کی ماں باداما دیوی بتاتی ہیں، ہمارے بچے وہاں پہلے بھی کھیلا کرتے تھے لیکن اس طرح کا جھگڑا کبھی نہیں ہوا۔  ہمیں نہیں معلوم کہ کس بات کو لےکے جھگڑا ہوا تھا۔  اس واقعہ سے ہم صدمے میں ہیں۔  ہمیں عظیم کی موت کا دکھ ہے۔والمیکی بستی کے سروج نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا، ہم 10 سال سے رہ رہے ہیں۔  یہ سب کیسے ہوا مجھے پتا نہیں۔  لوگ مجھے اور میرے شوہر کو اس معاملے میں پھنسا رہے ہیں۔  ہاں، میں یہ قبول کرتی ہوں کہ مدرسے کی زمین پر لوگ شراب-گانجا پیا کرتے ہیں اور جوا بھی کھیلتے ہیں۔  ہمارا اس معاملے میں کوئی رول نہیں ہے۔

اس جگہ عظیم پٹائی کے دوران بےگر کرہوش ہو گیا تھا۔  (فوٹو : پرشانت کنوجیا/دی وائر)

اس جگہ عظیم پٹائی کے دوران بےگر کرہوش ہو گیا تھا۔  (فوٹو : پرشانت کنوجیا/دی وائر)

حالانکہ مدرسے کے ایک بچے نے بتایا کہ پٹائی کے بعد دو بچوں کو مدرسے کے کچھ لوگوں نے پکڑ لیا تھا، لیکن سروج ان کو چھڑا لے گئی تھیں۔سروج نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ وہاں موجود نہیں تھی۔مدرسے کے ایک طالب علم نے بتایا کہ جب بچےعظیم کو مار رہے تھے تب وہاں موجود کچھ لوگ ملزم بچوں کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔  وہ لوگ گالی دینے کے ساتھ ہمارے کپڑوں اور ٹوپیوں پر طنز کر رہے تھے اور ہمارے مذہب کو گالی دے رہے تھے۔

علاقے میں لگے کیمرے سے ملی سی سی ٹی وی فوٹیج میں بچوں کے درمیان لڑائی دیکھی جا سکتی ہے لیکن وہاں موجودہ دیگر لوگ بیچ بچاؤ نہیں کر رہے تھے۔پولس کے مطابق، معاملے کی جانچ کی جا رہی ہے اور دونوں طرف کے لوگوں کی طرف سے لگائے جا رہے الزامات کی تحقیق کی جا رہی ہے۔  پولیس کے ایک دستہ کو لاء اینڈ آرڈر بنائے رکھنے کے لئے مدرسے اور والمیکی کیمپ بستی کے پاس تعینات کیا گیا ہے۔  پولیس تمام سی سی ٹی وی کیمروں کو کھنگال رہی ہے۔خبر لکھے جانے تک  عظیم کی لاش  دہلی کے ایمس ہاسپٹل میں تھی  اور بتایا گیا تھا کہ جمعہ کو پوسٹ مارٹم کے بعد لاش اس کی فیملی کو سونپا جائے‌گا۔