خبریں

نیو یارک ٹائمز کا مضمون، طارق فتح کا ویڈیو، اور ارنب گوسوامی کے خط کا سچ

سوشل میڈیا پر کچھ ایسے مضامین اور  تصویریں گردش میں رہیں جو یہ پختہ کرنا چاہتی تھیں کہ موجودہ شکست میں مودی کی کوئی خطا نہیں ہے اور عوام پر مودی کے لاکھ انعامات کے باوجود بھی عوام مودی کے کام اور ان کے ایثار کو نہیں سمجھ پا رہے ہیں  !

NewYorkTimes_FakeNews

گزشتہ ہفتے مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ، تلنگانہ اور میزورم اسمبلی انتخابات کے نتیجے منظر عام پر آئے جس میں بی جے پی کو امید کے مطابق کامیابی نہیں ملی اور کانگریس پارٹی کے ساتھ ساتھ دوسری علاقائی پارٹیوں کو ان صوبوں کے عوام نے قبول کیا۔ بی جے پی کی اس شکست کے بعد سوشل میڈیا پر پھر فیک نیوز کا دور چلا اور اس دفعہ یہ دور لیپا پوتی کا دور تھا۔

سوشل میڈیا پر کچھ ایسے مضامین اور  تصویریں گردش میں رہیں جو یہ پختہ کرنا چاہتی تھیں کہ موجودہ شکست میں مودی کی کوئی خطا نہیں ہے اور عوام پر مودی کے لاکھ انعامات کے باوجود بھی عوام مودی کے کام اور ان کے ایثار کو نہیں سمجھ پا رہے ہیں  ! اور بدقسمتی سے کانگریس پر یقین کر رہے ہیں ! آج ہمارے فیک نیوز راؤنڈ اپ کا مرکز گفتگو وہ خبریں ہیں جو اسمبلی انتخابات کے نتیجوں کے بعد سوشل میڈیا پر آئیں۔

رینوکا جین نامی ایک خاتون نے اپنے فیس بک پیج پر   ایک پوسٹ لکھی جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ امریکہ کے نیویارک ٹائمز اخبار میں ایک مضمون نگار نے اپنے مضمون میں کچھ باتیں لکھی جن سے  یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستانی عوام کم علم ہیں  اور مودی کے کام کو سمجھ نہیں سکے۔ رینوکا جین کو پرائم منسٹر نریندر مودی خود ٹوئٹر پر فالو کرتے ہیں۔  رینوکا نے اپنی پوسٹ میں نیو یارک ٹائمز کے مضمون نگار کو منسوب کرتے ہوئے  جو کچھ لکھا اس میں اہم باتیں یہ ہیں:

ہندوستانی عوام  نہ اس بات کو سمجھتے ہیں  اور نہ اس کی فکر کرتے ہیں  کہ  کسی ملک کا  مالیاتی خسارہ یعنی fiscal deficit کیا ہوتا ہے ، ان کو یہ نہیں معلوم کہ سبسیڈی کا کیا مطلب ہوتا ہے اور ان کو فرق نہیں پڑتا کہ مالیاتی خسارہ 2.4فیصد ہو یا 3.4 فیصد !
ہندوستانی عوام  کے لئے یہ قابل قدر بات ہی نہیں ہے کہ کس طرح ہندوستان کا GDP گزشتہ برسوں میں 3.8سے بڑھکر7.4 ہو گیا !
ہندوستانی عوام کو صرف شکایات کرنے کی عادت بنی ہوئی ہے۔ یہ لوگ پیاز، پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں پر شکایات کرنے والے ہی ہیں!
ہندوستانی عوام اپنی پرانی عادتیں نہیں بدلنا چاہتے ہیں، یہ چاہتے ہیں کہ جو کچھ تبدیلی آئے وہ حکومت ہی لائے ۔
عوام کی یاداشت مختصر اور  نظر و مقصد تنگ ہے۔  یہ لوگ ذات کی بنا پر ووٹ دیتے ہیں، وکاس ان کو نظر نہیں آتا !

مضمون نگار کو منسوب کرتے ہوئے یہ باتیں ٹیکسٹ اور تصویر کی شکل میں متعدد افراد نے سوشل میڈیا میں شیئر کیں لیکن کسی نے بھی اس مضمون نگار کا نام نہیں بتایا ! یہ پہلا سراغ ثابت ہوا جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ خبرفیک نیوز ہی ہے۔ مزید یہ کہ پوسٹ میں موجود انگریزی الفاظ کی ہجے بہت غلط پائی گئیں:  promote، castism، increased، their جیسے الفاظ کو pramote، castisum، increasesed،  thier لکھاگیا   تھا ! ایک امریکی اخبار میں لکھنے والا مضمون نگار انگریزی کے ہجے میں اتنا کمزور کیسے ہو سکتا ہے اور ان غلط الفاظ کو ایڈیٹر اور تمام ڈیسک نے کیسے نظر انداز کر دیا ؟

RajashthanFakeNews

ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے ! جب نیو یارک ٹائمز کی ویب سائٹ دیکھی گئی تو اس طرح کا کوئی مضمون وہاں موجود نہیں تھا۔ وہاں اسمبلی انتخابات کے بعد صرف یہی خبر شائع ہوئی اور یہ مضمون نہیں تھا۔طارق فتح اس وقت کینیڈا میں مقیم ہیں۔ انہوں نے ١٣ دسمبر کو اونٹاریو سے ایک ویڈیو ٹوئٹ کیا۔ اس ٹوئٹ کا تعلق ہندوستان کے موجودہ اسمبلی انتخابات سے تھا۔ انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا:راجستھان میں اسمبلی انتخابات کے نتیجے آنے کے بعد ہندوستانی مسلمان پاکستانی پرچم کے مثل سبز پرچم لہراتے ہوئے اور ‘الله اکبر’ کے نعرے لگاتے ہوئے !یہ ٹوئٹ طارق فتح نے شام تقریبا ٨ بجے کیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنا یہ ٹوئٹ ڈیلیٹ کر دیا اور دوبارہ اسی ویڈیو کو شئیر کرتے ہوئے انہوں نے لکھا:راجستھان میں اسمبلی انتخابات کے نتیجے آنے کے بعد ہندوستانی مسلمان سبز اسلامی پرچم لہراتے ہوئے اور ‘الله اکبر’ کے نعرے لگاتے ہوئے !

طارق فتح کے علاوہ دوسری جگہوں پر بھی یہ ویڈیو وائرل ہوا۔ Politics Solitics نامی فیس بک پیج پر اس ویڈیو کو شئیر کرتے ہوئے لکھا گیا:کانگریس پرست ہندو بھائیوں ! مبارک ہو ! آپکی چاہت کی مانگ شروع ہو گئی !مدھو پورنیما کشور کا نام فیک نیوز کی اشاعت میں اول درجے میں آتا ہے۔ اس وقت وہ ICSSR میں مولانا آزاد نیشنل پروفیسر ہیں۔ مدھو کشور نے بھی اس ویڈیو کو ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا :کانگریس کی فتح کے 24 گھنٹے سے کم وقت میں ہم یہاں ہیں : ‘بابری مسجد لیکے رہینگے ، پاکستان زندہ آباد’ !!

ویڈیو کی تفتیش کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ:

یہ ویڈیو تقریباً ا دو برس پرانا ہے۔
ویڈیو کا تعلق اتر پردیش کے ضلع سنبھل سے ہے اور راجستھان سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
ویڈیو میں جو لوگ جلوس میں شامل ہیں ان کے ہاتھ میں پاکستانی پرچم نہیں ہیں، بلکہ  وہ سبز پرچم ہیں۔  اور یہ سبز پرچم اسلامی تاریخ میں کیا حیثیت رکھتا ہے، یہ اپنے آپ میں ایک بحث کا موضوع ہے۔
یہ احتجاج سنبھل کے شہریوں نے بابری مسجد شہادت کی برسی کے موقع پر منعقد کیا تھا جس میں یہ نعرے لگے تھے: بابری مسجد لیکے رہینگے، نعرہ تکبیر – الله اکبر ! اس احتجاج میں پاکستان زندہ آباد کا کوئی نعرہ نہیں لگا۔

لہذا، طارق فتح اور مدھو کشور اپنے تعصّب کی بنا پر صرف فیک نیوز عام کر رہے تھے۔ سیاست، صحافت اور تعلیمی اداروں کے ذمہ داران کو یہ باتیں زیب نہیں دیتیں۔  (تصاویر: بشکریہ الٹ نیوز)

2014 میں عام انتخابات کے دوران  بی جے پی نے ‘مودی’ کے نام پر عوام سے بہت وعدے کئے تھے۔ ‘اچھے دن’ اور ‘مودی لہر’ کے نام پر بی جے پی کو زبردست کامیابی ملی۔ حال ہی میں مکمل ہوئے اسمبلی انتخابات کے نتیجے آنے کے بعد بی جے پی، ان کے کارکنوں اور حمایتیوں کا یقین مدھم ہو چلا ہے۔ چاروں طرف لوگ حیرت بھری نگاہوں سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا ہوا مودی لہر کا؟ حالانکہ بی جے پی کی یہ کوئی بڑی شکست نہیں ہے لیکن اس نے پارٹی کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اور ‘مودی’ نام  کا طلسم  برقرار رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ShankhNaad_FakeNews

گزشتہ ہفتے ایک خط بعنوان ‘Dear PM، We Don’t Deserve You’ منظر عام پر آیا۔ اس خط کے بارے میں کہا گیا کہ یہ خط ریپبلک ٹی وی کے بانی مدیر ارنب گوسوامی نے لکھا ہے۔ خط میں اس بات کا تذکرہ ہے کہ پرائم منسٹر نریندر مودی دن بھر میں ١٦ گھنٹے خدمات انجام دیتے ہیں لیکن عوام کو انکے ایثار کی کوئی قدر نہیں ہے۔ عوام چھوٹی اور غیر ضروری باتوں میں مبتلا ہیں اور فضول بحثوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ اسمبلی انتخابات میں صحیح لوگوں کا انتخاب نہیں کر پاتے ہیں۔

بوم لائیو  نے اپنے انکشاف میں بتایا کہ اس خط کا اصل مصنف کون ہے، اس بات کی کوئی سند نہیں ہے۔ یہ خط تقریباً تین سال پرانا ہے۔2015میں اسے Shankhnaad جیسے پورٹل نے بھی شائع کیا تھا۔ بوم کے مطابق یہ خط بہار انتخابات کے بعد آیا تھا اور اس میں بہار کے اسمبلی انتخابات کا تذکرہ  ملتا ہے۔   دراصل یہ خط مودی نام کے طلسم کو برقرار رکھنے کی کوشش بھر ہے جو نام بدلکر وقتا فو قتا  سامنے آتا رہتا ہے۔