حقوق انسانی

بے گناہوں کی رہائی کے لیےجدوجہد ہی شاہد اعظمی کو سچی خراج عقیدت

شاہد اعظمی کے ماضی کے بارے میں بہت کچھ لکھا پڑھا جاچکا ہے لیکن ان کی خدمات  کی اصل اہمیت وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جن کے مقدمات انہوں نے اس وقت لڑنا شروع کئے تھے جب ان کے اہل خانہ اور دوست احباب بھی ان سے دور ہوگئے تھے۔

فوٹو : تہلکہ

فوٹو : تہلکہ

میں 11 فروری 2010 کو کیسے بھول سکتا ہوں جب مجھے لینڈ لائن پر جمعیۃ علماء مہاراشٹر کے آفس میں خبر موصول ہوئی کہ شاہد اعظمی پر ان کے آفس کرلا میں نا معلوم افراد نے فائرنگ کی ہے جس کی وجہ سے انہیں شدید چوٹیں آئی ہیں اور وہ نازک حالت میں ہیں. انہیں اسپتال میں داخل کیا گیا ہے ۔حملے کی خبر سن کر اپنے آپ کو سنبھال ہی پاتا کہ ان کی موت کی خبر موصول ہوئی جس کے بعد جمعیۃ علماء آفس میں یکایک خاموشی چھا گئی اور ماحول افسردہ ہوگیا ، اس شام میں جمعیۃ علماء دفتر میں گلزار اعظمی(سکریٹری قانونی امداد کمیٹی)، اشفاق احمد خان(سینئر حلال آڈیٹر) و دیگر کے ہمراہ موجود تھا۔گلزار اعظمی جیسے مضبو ط قوت ارادی والے شخص بھی خبر کی تصدیق ہونے کے بعد نڈھال ہوچکے تھے، میری کیا کیفیت تھی وہ میں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا۔اس رات گلزار اعظمی صاحب دیر شب تک دفتر میں ہی بیٹھے رہے اور جو بھی فون کرکے شاہدبھائی کے متعلق دریافت کرتا وہ ان کے قتل کے بارے میں بتاتے ہوئے اشک بار ہوجاتے ۔

مجھے یاد ہےاسی دن شاہد بھائی سے ممبئی کے سٹی سول اینڈ سیشن عدالت میں میری ملاقات ہوئی تھی جس کے دوران انہوں نے مجھے مغرب بعد کرلا آفس میں مالیگاؤں بم دھماکہ مقدمہ کے سلسلہ میں گفتگو کرنے کے لیئے بلایا تھا ۔پلان کے مطابق مجھے مغرب بعد ان کی آفس جانا تھا لیکن موصوف نے میرے آفس سے نکلنے سے چند منٹ قبل فون کرکے منع کیا کہ آج ملاقات نہیں ہوسکتی ہے ، کل میٹنگ کرلیں گے اور پھر تھوڑے وقفہ کے بعد ان پر حملہ کی خبر موصول ہوئی جس کی وجہ سے دل لرز اٹھا اور عجیب سی کیفیت ہوگئی اور یقین نہیں ہورہا تھا کہ میں جس شخص سے چند منٹوں بعد ملاقات کرنے والا تھا وہ اس دنیا میں نہیں رہا ۔

دہشت گردی کے الزامات کے تحت گرفتار مسلم نوجوانوں کے مقدمات کی پیروی کرنے کا جو بیڑا انہوں نے اٹھایا تھا وہ بدستور جاری ہے لیکن ان کی کمی ہمیشہ شدت سے محسوس ہوتی رہتی ہے۔ 2008 میں صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر گلزار اعظمی نے ممبئی میں جمعیۃ علماء لیگل سیل کی بنیاد ڈالی تھی اور اس بنیاد کی وجہ مرحوم شاہد اعظمی ہی تھے۔شاہد اعظمی کے مخلصانہ مشوروں اور خود ان کی انتھک جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی نے ابتک 180؍ افراد کے ماتھوں سے دہشت گردی کا داغ صاف کیا ہے جبکہ80؍ افراد کو ضمانت پر رہائی نصیب ہوئی ہے اور فی الحال 708؍ ملزمین کے مقدمات کی پیروی کی جارہی ہے جو ملک کے مختلف صوبوں کی مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں ۔ ابتک جمعیۃ علماء کو تقریباً تمام مقدمات میں کامیابی حاصل ہوئی ہے اور جن مقدمات میں ملزمین کو سزائیں ہوئی ہیں ان کی اپیلیں اعلیٰ عدالتوں میں زیر التواء ہیں ۔یہ شاہد بھائی کی ہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج جمعیۃ علماء لیگل سیل سے تقریباً 135؍ وکلاء جڑے ہوئے ہیں جس میں سپریم کورٹ سے لیکر ہائی کورٹ اور ٹرائل کورٹ کے مشہور وکلاء شامل ہیں۔


یہ بھی پڑھیں : شاہد زندہ ہے…


ان کے ماتحت مجھے بہت زیادہ وقت گزارنے کا موقع تو نہیں ملا لیکن جتنا بھی وقت میں نے ان کے زیر نگرانی گزارا ہے وہ میرے لیئے سنہرااور سیکھنے والا وقت تھا۔میں ذاتی طور پر ان کی کمی شدت سے محسوس کرتا ہوں ۔ شاہد اعظمی کے ماضی کے بارے میں بہت کچھ لکھا پڑھا جاچکا ہے اور ان کی زندگی پر ایک کامیاب فلم بھی بنی تھی لیکن ان کی خدمات وہی لوگ جان سکتے ہیں جن کے مقدمات انہوں نے اس وقت لڑنا شروع کئے تھے جب ان کے اہل خانہ اور دوست احباب ان سے دور ہوگئے تھے۔ان کی خواہش تھی اور اس کا برملا اظہار انہوں نے متعدد مواقع پرکیا بھی تھا کہ مسلمانوں کو شعبہ وکالت اور عدلیہ میں آنا چاہئے اور وہ خود اس کے لیے کوشش کرتے تھے، نوجوانوں کو ترغیب دیتے تھے ،وکالت کے ذریعہ مسلمانوں اور دیگر دبے کچلے طبقہ کے افراد کی مدد کرنے کی تلقین کرتے تھے۔

ٓآج جس طرح سے فرقہ پرست افراد اقلیت خصوصاً مسلمانوں کودہشت گردی، ماب لنچنگ ، گئو رکشا، لو جہاد، فرقہ وارانہ فسادکے نام پر نشانہ بنا رہے ہیں ، عدلیہ میں مسلمانوں کا ہونا بہت ضروری ہوگیا ہے ۔ہندوستانی عدلیہ آج بھی آزاد اور غیر جانبدار ہے اور مسلمانوں اور اقلیت کی حفاظت ہندوستانی عدلیہ کی ہی مرہون منت ہے ۔جس رفتار سے آج مسلمان ڈاکٹر ،انجینئر ، ٹیچرس و دیگر پیشہ وارنہ شعبوں میں اپنی کامیاب موجود گی کا احساس دلا رہے اگر اس میں قانون و عدلیہ کا شعبہ بھی جڑ جائے تو آنے والی نسل اور موجودہ معاشرہ کویقیناًفائدہ ہوگا۔

گذشتہ کچھ برسوں کے دوران میں نے ملک کے ان تمام صو بوں کا دورہ کیا ہے جہاں دہشت گردی کے الزامات کے تحت مسلم نوجوانوں کی گرفتاری عمل میں آئی ہے اور ان کے مقدمات برسوں بعد بھی التواء کے شکار ہیں ۔دہلی ، ممبئی، اورنگ آباد، احمد آباد، پٹنہ، کولکاتہ، حیدرآباد اور دیگر بڑے شہروں کو چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں مسلم نوجوانوں کے مقدمات کی پیروی کرنے کے لیے قابل وکلاء کا زبردست فقدان ہے اور یہ مسئلہ تب ہی حل ہوگاجب مسلمان بچے شعبہ وکالت میں قدم رکھیں گے اور ان کا نصب العین خدمت خلق ہوگا۔

شاہد اعظمی کی خدمات کا نعم البدل نہیں ہوسکتا لیکن ہم ان کے نظریات اور مشوروں پر عمل کر کے انہیں اصل خراج عقیدت پیش کرسکتے ہیں۔

(مضمون نگار حقوق انسانی کے وکیل اور جمعیت علماہند،مہاراشٹر لیگل ایڈ کمیٹی کے قانونی معاون ہیں۔ )