فکر و نظر

رام چندر گہا کا کالم: کیکی تاراپور نے اچھے کرکٹرز کے ساتھ بہت اچھے انسان بھی بنائے 

کیکی تاراپور کی نگرانی میں آگے بڑھنے والے  کھلاڑیوں میں سے کسی کو بھی وہ مقام حاصل نہ ہوا، جو راہل دراوڑ نے پایا۔یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ جن نوجوانوں کی تربیت کیکی کے زیر نگرانی ہوئی، وہ نہ صرف اچھے کرکٹر بنے بلکہ وہ بہت اچھے انسان بھی بنے۔

فوٹو : سوشل میڈیا

کیکی تاراپور/ فوٹو : سوشل میڈیا

1992 میں راقم نے ہندوستان کے بے حدمقبول کھیل پر ایک کتاب لکھی۔ اس کتاب پر ممبئی کے ایک باشندے نے، جس کا نام راج دیپ سردیسائی ہے، تبصرہ کیا کہ ‘کرناٹک کے کرکٹرس سے گہا کی حد سے زیادہ بڑھی ہوئی محبت ایک اور کاویری تنازعہ کا سبب بن سکتی ہے۔’ اس کے ایک دہے بعد قومی سطح کےایک مؤقر اخبار میں شائع اپنے مضمون میں میں نے لکھا کہ ‘جب تک دراوڑ رن بناتے اور کمبلے وکٹ لیتے رہتے ہیں، مجھے اس کی چنداں پرواہ نہیں ہوتی کہ ہندوستان جیت رہا ہے یا ہار رہا ہے۔’ اس کے جواب میں لوگوں کے غصے بھرے ای میل کی قطاریں لگ گئی تھیں۔

 ویسے حقیقت میں کرکٹ کی میری وفاداری میں کرناٹک کو دوسرا مقام حاصل ہے۔ پہلا مقام بنگلورکے فرینڈس یونین کلب یعنی ایف یو سی سی کو حاصل ہے۔ 1966 میں، میں نے یہ کلب جوائن کیا تھا۔ اس وقت میری عمر آٹھ سال کی تھی۔ تب سے اب تک میں اس کا وفادار ممبر ہوں۔ ابھی بھی حال یہ ہے کہ کرناٹک اسٹیٹ کرکٹ ایسوسی ایشن کی فرسٹ ڈویژن لیگ میں میرا کلب کھیلتا ہے، تو کئی بار میں وہ میچ دیکھنے جاتا ہوں۔

 1936 میں ایف یو سی سی کی بنیاد رکھی گئی۔ اس وقت ہمارے کلب سے پرانا صرف ایک ہی کلب تھا، بنگلوریونائیٹیڈ کرکٹ کلب۔ یہ ایک صدی پہلے قائم ہوا تھا۔ بڑے ہوتے ہوئے میں نے بی یو سی سی اورسواستک یونین کے بیچ سخت  مقابلہ آرائی کی باتیں سنیں۔ سواستک کے لیے ہماری بھی کٹر دشمنی چھپی ہوئی نہیں تھی، البتہ بی یو سی سی کو لے کر ہمارے جذبات کچھ الگ طرح کے تھے۔ یقیناً ہم میدان میں اسے ہرانا چاہتے تھے، لیکن اس کلب کے روح رواں کیکی تاراپور کے ہم سب مداح بھی تھے۔

ہم لوگ بنگلور کے جے محل ایکسٹنشن میں رہا کرتے تھے۔ اسی علاقے میں بے حد خاص سید مجتبیٰ حسین کرمانی کی بھی رہائش تھی۔ جہاں ان کے چرچے عام تھے کہ کیسے کالونی کے پارک میں انہوں نے وکٹ کیپنگ سیکھی، جہاں وہ فاسٹ بالرس کے لیے ایک اینٹ کا استعمال کیا کرتے تھے؛ اور کیسے کیکی نے انہیں پہلی بار گلووس(دستانے) لا کر دیے، کیسے وہ انہیں بی یو سی سی لے کر گئے اور کیسے انہیں ایک ٹیسٹ کرکٹ پلیئر بنایا۔ کیکی نے بعد میں راجر بنی اور سدانند وشوناتھ کو بھی ٹیسٹ کرکٹ کی راہ دکھائی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ کیکی تاراپور سے استفادہ کرنے والوں میں بہت سے ایسے کھلاڑی تھے، جو بی یو سی سی سے کبھی نہیں کھیلے۔

جنوری 1994 میں ہندوستان اور سری لنکا کے بیچ بنگلورمیں ٹیسٹ میچ ہوا۔ سب کو پوری امید تھی کہ نوجوان فاسٹ بالر جواگل سری ناتھ کو اس ٹیسٹ میچ میں ضرور کھلایا جائے گا۔ سری ناتھ نے آسٹریلیا اور ساؤتھ افریقہ کے دورے میں عمدہ بالنگ کی تھی۔ ظاہر ہے اس سے وہ اور ہم سب بھی پوری طرح مطمئن تھے کہ انہیں موقع ملے گا ہی۔ بطور انٹرنیشنل کرکٹ کھلاڑی اپنی آمد مستحکم کرنے کے بعد ان کے ہوم گراؤنڈ پر ہونے والا آخر یہ پہلا ٹیسٹ میچ ہے۔

لیکن افسوس سلیکٹرز نے کچھ اور سوچا۔ سری ناتھ اب بلا شبہ ہندوستان کے سب سے بہترین فاسٹ بالر تھے؛ لیکن کپل دیو اور منوج پربھاکر بالر ہونے کے ساتھ اچھے بلےباز بھی تھے، اور اس میدان کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا گیا کہ یہاں تین اسپینرس کو لے کر کھیلنا عقلمندی ہوگی۔ لہذا سری ناتھ کو بارہواں کھلاڑی بنا دیا گیا۔ چینا سوامی اسٹیڈیم میں ہو رہا وہ میچ میں نے ‘پی 2 اسٹینڈ’ میں بیٹھ کر دیکھا، جو کے ایس سی اے کے ڈائمنڈ باکس سے لگا ہوا تھا۔ پہلے دن انڈیا کی بیٹنگ چل رہی تھی اور میں دیکھ رہا تھا کہ کیکی سری ناتھ سے باتیں کیے جا رہے تھے۔ میں انہیں اچھے سے جانتا ہوں۔ اندازہ ہو گیا کہ وہ کیا کہہ رہے ہوں گے۔ تجربہ کار بزرگ کوچ نوجواں کھلاڑی کا یہ کہہ کر حوصلہ بڑھا رہے تھے کہ وہ مایوس نہ ہو۔ اس کا وقت آئے گا۔ ایسا ہوا بھی۔ چند سال بعد ہی سری ناتھ نے ساؤتھ افریقہ کے خلاف ہندوستان کو احمدآباد ٹیسٹ میں جیت دلائی ۔ اس ٹیسٹ میں انہوں نے اپنی گیندبازی سے قہر برپا دیا تھا۔ مجھے امید ہے کہ کیکی نے وہ ٹیسٹ میچ ٹی وی پر ضرور دیکھا ہوگا۔

کیکی تاراپور کی نگرانی میں آگے بڑھے کھلاڑیوں میں سے کسی کو بھی وہ مقام حاصل نہ ہوا، جو راہل دراوڑ نے پایا۔ راہل اس وقت بی یو سی سی کے اعزازی صدر ہیں۔ اسی مہینے کے اوائل میں کلب کی صد سالہ تقریب منائی گئی۔ اس میں حالیہ اور سابقہ کئی ٹیسٹ کھلاڑیوں نے شرکت کی۔ ان میں بی یو سی سی کے دراوڑ، کرمانی، بنی، ایس وشوناتھ اور کے ایل راہل کے ساتھ ہی انل کمبلے، جی آر وشوناتھ، وینکٹیش پرساد اور کرن نایر بھی موجود تھے، جو مخالف کلبس کی جانب سے کھیلتے تھے۔ ایف یو سی سی کی جانب سے بولنے کا موقع دیے جانے پر راقم نے کہا، میں اسے جھٹلا نہیں سکتا کہ بی یو سی سی ہمارے کلب سے بہت پہلے وجود میں آ چکا تھا، اس کے باوجود میرے کلب کو دو ایسی تخصیص حاصل ہیں، جہاں تک مخالف کلب نہیں پہنچ سکا۔ پہلا یہ کہ کرناٹک سے پہلا ٹیسٹ کھلاڑی، آف اسپینر وی ایم مدیا ہمارے کلب نے دیا۔ دوسرا یہ کہ جہاں بی یو سی سی نے اپنی صد سالہ تقریبات کی یادگار کے طور پر ایک مخصوص ٹائی بنوائی، وہیں ہمارے کلب نے بھی پچاس سال پورے ہونے کی خوشی میں ایک ٹائی بنوائی ہے۔ میں نے اس شام بھوری اور لال پٹیوں کے ساتھ ایف یو سی سی کا تاج بنی ٹائی پہن رکھی تھی۔

ناچیز نے آگے کہا کہ میں یہاں شیخی بگھارنے نہیں آیا ہوں، بلکہ بنگلورکے ایک قدرے جوان اور چھوٹے کلب کی جانب سے ایک بزرگ اور بڑے کلب کو نذرانہ عقیدت پیش کرنے آیا ہوں۔ مقام تقریب کے باہر ایک بورڈ پر بی یو سی سی کے ان گیارہ کھلاڑیوں کے نام لکھے گئے تھے، جنہوں نے ملک کی قومی کرکٹ ٹیم میں اپنی خدمات دی تھیں۔ میں نے اپنے خطاب میں اس بات کی نشاندہی کی کہ ان گیارہ میں بی یو سی سی کے دو ایسے کھلاڑی بھی ہیں، جو ورلڈ کپ جیتنے والی ہماری ٹیم کے گیارہ کھلاڑیوں میں شامل تھے۔ یہ کھلاڑی ہیں سید کرمانی اور راجر بنی۔ ساتھ ہی میں نے یہ بھی کہا کہ اس ٹیم میں ممبئی کے جو تین کھلاڑی شامل تھے، وہ تینوں ممبئی کے الگ الگ کلبس سے کھیلتے تھے۔ اس کے علاوہ بی یو سی سی کو ایک اور تخصیص حاصل ہے۔ وہ یہ کہ آل ٹائم انڈین ٹیسٹ الیون میں اس کے دو کھلاڑی راہل دراوڑ اور سید کرمانی شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ہی میں نے یہ بھی جوڑا کہ یہ باتیں کہنے کے بعد میں مستقبل قریب میں رانچی نہیں جانے والا ہوں۔

بی یو سی سی کی یہ صد سالہ تقریب ہندوستانی کرکٹ کے کچھ گمنام محافظین جیسے کلب کوچ و سکریٹریز کی یاد بھی دلا رہی ہے۔ جنہوں نے کرکٹ کو اس صوبے کے شہروں و قصبوں تک پہنچایا۔ آنجہانی کیکی تاراپور کی روح اس وقت یہیں کہیں، ہمارے آس پاس منڈرا رہی ہوگی۔ ان کا وہ عظیم جذبہ بنگلور اور اس سے آگے کی کرکٹ کو نئی اونچائیوں تک پہنچاتا رہے۔ اس وقت یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ جن نوجوانوں کی تربیت کیکی کے زیر نگرانی ہوئی، وہ نہ صرف اچھے کرکٹر بنے بلکہ وہ بہت اچھے انسان بھی بنے۔

(انگریزی سے ترجمہ: جاوید عالم)