خبریں

نربھیا کے والدین نہیں کرنا چاہتے حق رائے دہندگی کا استعمال، بولے–انصاف کے وعدوں سے رہنما کرتے ہیں سیاسی نوٹنکی

متاثرہ کے والد نے کہا ، کچھ بھی نہیں بدلا ۔ اس بار مجھے بھی اپنا ووٹ ڈالنے جانے کا من نہیں ہے ۔ سسٹم میں میرا بھروسہ ڈگمگا گیا ہے۔

نربھیا کے والدین،فائل فوٹو: پی ٹی آئی

نربھیا کے والدین،فائل فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی : 16 دسمبر 2012 کو دہلی میں گینگ ریپ کا شکار ہوئی نربھیا(بدلا ہوا نام) کے والدین کا کہنا ہے کہ شاید وہ اس بار ووٹ نہ دیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ پارٹیوں کے انصاف کے وعدے سے تھک چکے ہیں اور ان کے بارے میں کچھ نہیں کیا جارہا ہے۔ غور طلب ہے کہ 16 دسمبر 2012 کی شب کو گینگ ریپ کا شکار ہوئی پیرامیڈیکل اسٹوڈنٹ کی اس حادثے کے 11 دنوں بعد سنگاپور کے ایک ہاسپٹل میں موت ہو گئی تھی ۔ بعد میں اس کو نربھیا کے نام سے جانا جانے لگا۔

اس معاملے میں نربھیا کے والدین نے سیاسی  پارٹیوں کی  ہمدردی اور ان کے وعدے کو سیاسی نوٹنکی قرار دیتے ہوئے کہا کہ مجرم ابھی تک زندہ ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سڑکیں شہر کی خواتین اور بچوں کے لیے غیر محفوظ ہیں ۔ انہوں نے الزام لگایا کہ حکومتوں نے عورتوں اور بچے کی حفاظت کے لیے مؤثر قدم نہیں اٹھائے ۔ سی سی ٹی وی کیمرے ابھی تک نہیں لگائے گئے ۔ ملک ابھی تک غیر محفوظ بنا ہوا ہے ۔ مائیں اپنی بیٹیوں کے گھر لوٹنے تک فکرمند رہتی ہیں۔

متاثرہ کی ماں نے خبررساں ایجنسی بھاشا-پی ٹی آئی سے کہا کہ ، لوگوں کا سسٹم پر کوئی بھروسہ نہیں ہے ۔مجھے اس بار کسی بھی پارٹی کے لیے ووٹ دینے کا من نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ان کی بیٹی سے ریپ اور قتل ہوئے 7 سال گزر چکے ہیں لیکن موت کی سزا کا فیصلہ ابھی تک نافذ ہونا باقی ہے۔ متاثرہ کے والد نے کہا ، کچھ بھی نہیں بدلا ۔ اس بار مجھے بھی اپنا ووٹ ڈالنے جانے کا من نہیں ہے ۔ سسٹم میں میرا بھروسہ ڈگمگا گیا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ  سپریم کورٹ نے 5 مئی 2017 کو نربھیا کیس میں چاروں مجرم مکیش، اکشے، ونئے اور پون کو دہلی ہائی کورٹ کے ذریعے دی گئی پھانسی کی سزا کو برقرار رکھا تھا۔ سپریم کورٹ نے کہا تھا یہ معاملہ ریئرسٹ آف ریئر میں آتا ہے۔ عدالت نے کہا تھا کہ متاثرہ نے مرنے سے پہلے جو بیان دیا وہ بے حد اہم اور پختہ ثبوت ہے ۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)