فکر و نظر

کیا ممتا بنرجی بنگال کو اپنا کھلونا مان بیٹھی ہیں؟

 بنگال کھلونانہیں ہے،یہ کہا تھا ممتا بنرجی نے کچھ روز قبل، لیکن اب ان کے رویے سے یہی لگتا ہے کہ وہ بنگال کو اپنا کھلونا ہی مان بیٹھی ہیں، ورنہ وہ ریاست میں ڈاکٹروں کی ہڑتال چار دن تک نہ کھنچنے دیتیں۔

ممتا بنرجی، فوٹو: پی ٹی آئی

ممتا بنرجی، فوٹو: پی ٹی آئی

بنگال میں ڈاکٹروں کی ہڑتال کے ٹوٹنے کے آثار نہیں دکھ رہے۔ وزیراعلیٰ چاہتی ہیں کہ ہڑتالی ڈاکٹر ان کے دفتر آئیں اور وہ اڑے ہیں کہ ممتا بنرجی ان تک چل‌کے آئیں۔ ان دونوں کے درمیان کشیدگی میں ہزاروں مریض تباہ ہو رہے ہیں۔ اخبار آپ کو بچوں کی تصویریں دکھلا رہے ہیں جو علاج کی کمی سے موت کے شکار ہو رہے ہیں۔’ بنگال کھلونا نہیں ہے، ‘یہ کہا تھا ممتا بنرجی نے کچھ روز پہلے، لیکن اب ان کے رویے سے یہی لگتا ہے کہ وہ بنگال کو اپنا کھلونا ہی مان بیٹھی ہیں، ورنہ وہ ریاست میں ڈاکٹروں کی ہڑتال چار دن تک نہ کھنچنے دیتیں۔مورچے پر سب سے آگے آکر لڑنے والی ممتا آج اگر ڈاکٹروں کے سامنے خود جانے سے کترا رہی ہیں یا روٹھ گئی ہیں کہ وہاں جانے پر ان کی بے عزتی کیوں کی گئی!

ہر وزیراعلیٰ یا رہنما کو عوام کا غصہ جھیلنے کے لئے ہمیشہ تیار رہنا چاہیے اور اس کو اپنی رعایا نہیں سمجھنا چاہیے۔ کل تک جو عوام آپ پر جان قربان کرتی تھی، وہ آج آپ پر تھوتھو بھی کر سکتی ہے۔ اس کے لئے اس کو کوسنے کی جگہ خود کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔آپ کان کھلے نہ بھی رکھیں تو بنگال کی گلی گلی اور سڑک سڑک پر ممتا کو لےکر مذاق سنائی دے‌گا ہی۔ یہ کہنے والے بھی ملنے لگے ہیں کہ جیوتی بابو کی حکومت ہی اچھی تھی! اس سے ممتا سمجھ سکتی ہیں کہ عوام کی ہمدردی جو ان کی کمائی تھی، وہ کتنی جلدی انہوں نے گنوا دی ہے!ممتا اگر آج بھارتیہ جنتا پارٹی پر الزام لگائیں کہ وہ ڈاکٹروں پر ہوئے حملے کو فرقہ وارانہ رنگ دے  رہی ہے، تو ان کی بات سچ ہوتے ہوئے بھی کیوں سنی نہیں جا رہی؟

کیونکہ انہوں نے خود ڈاکٹروں پر الزام لگایا کہ وہ نام پوچھ‌کر علاج کر رہے ہیں! وزیراعلیٰ یہ الزام اپنے ہی ڈاکٹروں پر کھلےعام لگائیں، یہ نہ صرف غیرمہذب رویہ ہے بلکہ ناقابل قبول ہے!کیا ان کے پاس اس کا کوئی ثبوت ہے؟ اگر ایک بھی ایسا معاملہ ہے تو اس کو عوامی بحث کا موضوع بنانے کی جگہ ان کو کارروائی کرنی چاہیے تھی۔ وہ نہ کرکے اس کو تقریر میں بتانا ایک تنازعہ کھڑا کرنا ہے جو کم سے کم حکمراں  کا کام نہیں ہے۔اس سے بھی زیادہ سنگین مسئلہ یہ ہے کہ اس سے سماج میں عداوت پیدا ہوگی جس کو ختم کرنا ممتا کے ہاتھ میں نہ رہے‌گا! ممتا کے برتاؤ کو دیکھ‌کر ہی پرانے سیانوں کی اس سوجھ کا مطلب سمجھ میں آتا ہے کہ آپ کی زبان آپ کو کھا جا سکتی ہے۔

ممتا کی جارحانہ اور بےلگام زبان نے ہر منٹ ان کے اور دشمن پیدا کئے ہیں۔ ڈاکٹروں پر مریض کے پریشان رشتہ داروں کے ذریعے حملہ ہوا۔ الزام ہے کہ وہ منظم تھا۔ مریض مسلمان تھا، رشتہ دار بھی مسلمان ہی ہوں‌گے۔ تشدد کرنے والے ظاہر ہے وہی ہوں‌گے۔ممکن ہے علاج میں لاپروائی ہوئی ہو، ممکن ہے ڈاکٹر نے روکھا برتاؤ کیا ہو، لیکن اس کی بنیاد  پر تشدد صحیح  نہیں ہے۔ مریض غریب ہوں توبھی ان کا تشدد جائز نہیں ہے۔اس تشدد کے خلاف ڈاکٹروں کے اشتعال کو بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ بھی کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اس مسئلے کا سیاسی استعمال کرے‌گی جو اس نے کیا ہی، لیکن ایسی حالت میں خود وزیراعلیٰ کا کیا کردار ہونا چاہیے تھا؟

وہ جنگ کے موڈ میں  میدان میں کود پڑیں۔ صحت سکریٹری، وزیر صحت، دوسرے سینئر اہلکار کو کیوں نہیں بھیجا سکتا تھا؟ کیوں ممتا پہلے ہی منٹ میں خود مورچے پر آ کھڑی ہوئیں؟ آکے کیوں انہوں نے ڈاکٹروں کو دھمکی دی؟

کولکاتہ میں مظاہرہ کرتے ڈاکٹر(فوٹو : پی ٹی آئی)

کولکاتہ میں مظاہرہ کرتے ڈاکٹر(فوٹو : پی ٹی آئی)

یہ بھی ثابت ہوا کہ وہ ایک کم نظر سیاستداں ہیں۔ انتخاب فوراً ختم ہوئے ہیں اور ان کے استحکام کا متھ ٹوٹ چکا ہے۔ عوام جان گئی ہے کہ وہ سیاسی طور پر کمزور ہو چکی ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ ان کے ایم ایل اے باہر جانے کا موقع تلاش کر رہے ہیں۔پھر صبروتحمل کے ساتھ حالات کو قابو کرنے کی جگہ، اپنے دوست بنانے کی جگہ انہوں نے خنجر لےکرمیدان میں اتر جانا ٹھیک سمجھا، یہ ناسمجھی کے علاوہ اور کیا ہے؟بی جے پی دو دنوں سے خاموش ہے۔ سی پی ایم لگاتار ان پر حملہ کر رہی ہے۔ عوام ان کو پاگل مان چکی ہے۔ ان کی جماعت میں کوئی بھی ان سے بات نہیں کرنا چاہتا کیونکہ وہ ذلیل نہیں ہونا چاہتا۔ حکمراں ان سے اوب چکے ہیں۔

بی جے پی کو اب کھلےعام فعال ہونے کی ضرورت بھی نہیں رہ گئی ہے۔ ممتا کی ساکھ جا چکی ہے تو اقتدار جانے میں کتنا وقت لگتا ہے!اس کے بعد ڈاکٹروں کی تحریک کا اتنا لمبا کھنچنے پر بات ہونی چاہیے۔ اس مسئلے پر کل ہند مخالفت کا مطلب سمجھنا چاہیے۔کیا اس میں ایمانداری ہے؟ یا، اس کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہے؟ کیا اس کے پہلے دہلی، بہار، اتر پردیش، وغیرہ میں ڈاکٹروں پر ہوئے حملے پر ایسا ہی رد عمل ہوا تھا؟ کیا اس کا کوئی سیاسی مقصد نہیں ہے؟خود ڈاکٹروں کے بیچ سے اس طرح کے پیغام چکر کاٹ رہے ہیں کہ ڈاکٹروں پر تشدد ایک ہی کمیونٹی کرتی ہے۔ کیا بنگال کے تشدد کے تئیں اشتعال ظاہر کرتے وقت انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن (آئی ایم اے) کو اس مسئلے پر صاف بیان نہیں دینا چاہیے کہ نہ تو پیشے کا کمیونلائزیشن کیا جائے، نہ مریضوں اور اس کے رشتے کا؟

وہ ممتا کی مخالفت کریں لیکن ساتھ ہی بی جے پی کے ذریعے اس پورے معاملے کے کمیونلائزیشن کی مذمت نہ کرنا کچھ واضح نہیں کرتا؟ کیا اس پیشے میں صرف ایک ہی کمیونٹی کے لوگ ہیں؟اس خطرے کو بنگال میں سمجھا گیا ہے اس لئے مظاہرے اور جلوس میں اس کمیونلائزیشن کی مخالفت کی گئی ہے۔ پھر آئی ایم اے اس پر صاف طور پر بیان کیوں نہیں دے رہی؟دوسری طرف کیا ممتا یہ مان رہی ہیں کہ اس ہڑتال کی وجہ سے غریب اور خاص طور پر دیہی عوام ان کے ساتھ آ جائے‌گی کیونکہ ڈاکٹروں کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ وہ غریبوں کا استحصال کرتے ہیں!کیا یہ حساب کرکے وہ ڈاکٹروں کے خلاف بول رہی ہیں کہ یہ عوام ان کے ساتھ صف بندی  کرے‌گی؟ کیا کل اپرنا سین جیسوں کا ڈاکٹروں کی حمایت میں آنا بھی ممتا کو اپنے لئے فائدےمند دکھ رہا ہے؟ کیا وہ دیہی-شہری فرق کی گنجائش تلاش  کررہی ہیں؟

کیا یہی ان کے اس  رویے کی وجہ ہے؟ لیکن بنگال میں ممتا کے زوال کا آغاز ہو چکا ہے۔ ورنہ اس بحران کے لمحے میں وہ یہ بیان نہ دیتیں کہ بنگال میں رہنا ہو تو بانگلا سیکھنا ہوگا! یہ بیان  اتنا بےتکا ہے کہ اس پر بنگالی ہنس بھی نہیں پا رہے!300 سے زیادہ زبانوں والی ریاست میں ایک بانگلا کو واحد اہلیت بتانا ناسمجھی نہیں ہے۔ یہ بنگالی-بہاری بغض و حسد کے سہارے سرخ روبننے کی بدحواس کوشش ہے۔ اس معاملے میں بنگالی ہی ان کے ساتھ نہ ہوں‌گے۔یہ سمجھنے کے لئے آپ کو مقبول عام بانگلا ٹیلی ویژن پروگرام دیکھ لینے چاہیے جہاں اب بانگلا کی جگہ ہندی کا استعمال ہو رہا ہے۔ پھر کون سی بانگلا اچھی ہے؟ یہ کون طے کرے‌گا؟اس بحث سے الگ یہ سوال ہے کہ جب اتنا بڑا بحران ریاست میں ہو تو ممتا زبان کا تنازعہ کیسے کھڑا کر سکتی ہیں؟ ممتا اس وقت زیادہ شدت پسند نظر آنے لگی ہیں۔ وہ بےیار و مددگار بھی نہیں ہیں۔ ان کی مدد کیسے کی جائے؟

سوال لیکن بنگال کا ہے ممتا کا نہیں اور یہ دکھ رہا ہے کہ بنگال تشدد کے ایک نئے دور میں داخل ہو گیا ہے۔ اس سے بنگال کو بچانا پہلے ممتا کی ذمہ داری ہے کیونکہ وہ ابھی اس کی مکھیا ہیں، لیکن اگر مکھیا بےسمت ہو جائے تو کیا باقی سماج بھی بیچارا ہو جائے؟

(مضمون نگار دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔ )