حکومت کے جس قدم سے ملک کا نقصان ہو، اس کی تنقید ہی ملک کا مفاد ہے۔ ‘نیوز کلک’ کی تمام رپورٹنگ سرکاری دعووں کی پڑتال کرتی ہے، لیکن یہی تو صحافت ہے۔ اگرسرکار کے حق میں لکھتے اور بولتے رہیں تو یہ اس کا پروپیگنڈہ ہے۔ اس میں صحافت کہاں ہے؟
منوج جھا کے ایک بیان پر جس طرح کے ردعمل سامنے آئے ہیں، ان سے اونچی ذات اور اشرافیہ کمیونٹی کے پرتشدد مزاج کا پتہ چلتا ہے۔
بی جے پی کی تہذیب بد زبانی اور بدتمیزی کی تہذیب ہے۔ مخالفین اور مسلمانوں کی توہین کرکے انہیں یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ بی جے پی لیڈر کہلانے کےاہل ہیں۔ بدھوڑی اس کی تازہ ترین مثال محض ہیں۔
مظفر نگر کی معلمہ سے پوچھ سکتے ہیں کہ وہ طالبعلم کے لیے ‘محمڈن’ کی صفت کیوں استعمال کر رہی ہیں؟ وہ کہہ سکتی ہیں کہ ان کی ساری فکرمسلمان بچوں کی پڑھائی کے حوالے سے تھی۔ ممکن ہے کہ اس کااستعمال یہ پروپیگنڈہ کرنے کے لیےہو کہ مسلمان تعلیم کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہیں اور جب تک انہیں سزا نہیں دی جائے گی، وہ نہیں سدھریں گے۔
ہندوستان میں جگہ جگہ دراڑیں پڑ رہی ہیں یا پڑ چکی ہیں۔ یہ کہنا بہتر ہو گا کہ یہ دراڑیں ڈالی جا رہی ہیں۔ ماضی کی تقسیم کو یاد کرنے سے بہتر کیا یہ نہیں ہوگا کہ ہم اپنے زمانے میں کیے جارہےسلسلے وار بٹوارے پر غور کر یں اور اسے روکنے کے لیے کچھ کریں؟
افسوس کی بات تھی کہ ایک ایسے نازک وقت میں ایوان کے اندر سرکارکے لوگ ہنسی مذاق اور چھینٹا کشی کر رہے تھے، جب منی پور میں گزشتہ تین ماہ سے لاشیں دفن کیے جانے کا انتظار کر رہی ہیں۔ اتنی سنگدلی، بے رحمی اور بے حسی کے ساتھ کوئی معاشرہ کس قدر اور کب تک زندہ رہ سکتا ہے؟
اکثریت پسندی (میجوریٹیرین ازم) کا جو مطلب مسلمانوں کے لیے ہے، وہی ہندوؤں کے لیے نہیں ہے ۔ وہ اس کی ہولناکی کو کبھی محسوس نہیں کر سکتے۔ مثلاً، ڈی یو کی صد سالہ تقریبات میں جئے شری رام سن کر ہندوؤں کو وہ خوف محسوس نہیں ہوگا، جو مسلمانوں کو ہو گا، کیونکہ انہیں یاد ہے کہ ان پر حملہ کرتے وقت یہی نعرہ لگایا جاتا ہے۔
ویڈیو: جے این یو کے سابق طالبعلم عمر خالد نے شمال–مشرقی دہلی میں پھوٹنے والے 2020 فسادات سے متعلق ایک کیس میں جیل میں 1000 دن پورے کر لیے ہیں۔ حال ہی میں دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند نے ان کی رہائی کی حمایت اور مطالبہ کے لیے منعقدہ میٹنگ میں اپنے خیالات پیش کیے تھے۔
‘دی کشمیر فائلز’کے بعد ‘دی کیرالہ اسٹوری’ کا بنایا جانا ایک سلسلے کی شروعات ہے۔ کم پیسوں میں، ناقص اداکاری اور ہدایت کاری کے باوجودصرف مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈے کی مدد سے اچھی کمائی کی جاسکتی ہے، کیونکہ ایسی فلموں کی تشہیر میں اب اسٹیٹ مشینری لگائی جاتی ہے اور بی جے پی کی پوری مشینری اس کے لیے کام کرتی ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ سوویت یونین میں آپ اسٹالن کی آواز سے بچ نہیں سکتے تھے۔ اسٹالن کی آواز سڑکوں پر لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے آپ کا پیچھاکرتی تھی۔ ہٹلر نےسیلف پروپیگنڈے کے لیے ریڈیو کو کس طرح استعمال کیا، یہ ایک معروف حقیقت ہے۔ ہندوستان بھی اب ہٹلر اور اسٹالن کے راستے چل رہا ہے۔
اجتماعی تشدد یا نفرت کے علاوہ بغیرکسی تنظیم کےبھی بہت سے ہندوؤں میں دوسروں کے لیےنفرت ظاہر کرنے کی ہوس فحاشی کی حد تک پہنچ چکی ہے۔ان ہندوؤں میں ایسے ‘باکمال’ خطیبوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، جو کھلے عام تشدد کو فروغ دیتے ہیں۔ خطیبوں کے ساتھ ساتھ ان کے سامعین کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
مجرم کے حمایتی مجرم ہی ہو سکتے ہیں اور وہ ہیں۔ اسٹیٹ کے ذریعے سماج کے ایک حصے کو قتل کاساجھے دار بنا دینے کی سازش ہمارے لیے باعث تشویش ہے۔اس کے ساتھ ہی ہماری تشویش یہ بھی ہے کہ قانون کی حکمرانی کا مفہوم عوام کے ذہنوں سے غائب ہو گیا ہے۔
اتر پردیش کی مرادآباد پولیس نے بجرنگ دل کے احتجاج اور دھمکی کے بعد ایک مسلمان کی اپنی نجی عمارت میں ہو رہی نماز تراویح کو بند کروادیا۔ کیا اب یہ حقیقت نہیں ہے کہ مسلمان یا عیسائی کا چین و سکون تب تک ہے جب تک آر ایس ایس کی تنظیمیں کچھ اور طے نہ کریں؟ کیا اب ان کی زندگی غیریقینی نہیں ہو گئی ہے؟
راہل گاندھی آر ایس ایس کی سیاست کے خلاف بولتے رہے ہیں، اس لیے انہیں تباہ یا بے اثر کیے بغیر آر ایس ایس کا ہندوستان کو ایک اکثریتی ریاست میں تبدیل کرنے کا خواب مکمل نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی اور مرکزی حکومت ان پر پوری طاقت سے حملہ کر رہی ہے۔
گزشتہ دنوں ڈائریکٹر جنرل پولیس اور انسپکٹر جنرل کی میٹنگ میں وزیراعظم اور وزیر داخلہ نے بھی شرکت کی تھی۔ یہاں ریاستوں کے سب سے بڑے پولیس افسران خبردار کر رہے تھے کہ ہندوتوا دی ریڈیکل تنظیمیں ملک کے لیے خطرہ بن چکی ہیں۔ تاہم جیسے ہی یہ خبر باہر آئی، اس رپورٹ کو ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا۔
غیرت نہایت ہی غیر ضروری اور فضول شے ہے۔ اس کے بغیر انسان بنے رہنا بھلے مشکل ہو، غیرت کے ساتھ وائس چانسلر بنے رہنا ناممکن ہے۔ جامعہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وی سی وقتاً فوقتاً اس کی تصدیق کرتے رہتے ہیں۔
جسٹس ایس اے نذیر کی الوداعی تقریب میں سپریم کورٹ بار کونسل کے صدر نے ان کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ سیکولر ہیں۔ ان کے خیال میں جسٹس نذیرکے سیکولر ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہ بابری مسجد کے تنازعہ میں فیصلہ کرنے والی سپریم کورٹ کی بنچ کے واحد مسلمان رکن تھے، لیکن انھوں نےمندر بنانے کے لیے مسجد کی زمین کو مسجد توڑنے والوں کے ہی سپرد کرنے کے فیصلے پر دستخط کیا۔
ٹی وی آرٹسٹ تونیشا شرما کی خودکشی کے بعد بحث ذہنی صحت پر ہونی چاہیے تھی کہ اس عمر میں اتنا کام کرنے کا دباؤ کسی کے ساتھ کیا کر سکتا ہے، وہ بھی ایسی دنیا میں جہاں مقابلہ آرائی غیر معمولی ہے۔ لیکن بحث کو ‘لو جہاد’ کا زاویہ دے کر آسان سمت میں موڑ دیا گیا ہے۔
نئے سال میں اصل تشویش ہندوستان میں ہندو ذہن کی تشکیل ہے جو احساس برتری کے نشے میں دھت ہے۔ مسلمان بےیارومددگارہیں۔ چند دانشور ہی ان کے ساتھ ہیں۔ کشمیر میں مسلمانوں کو ان کے حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ آسام میں ان کو حاشیے میں دھکیلا جا رہا ہے اور پورے ملک میں قانون اور غنڈوں کی ملی بھگت سے ان کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔
پچھلی صدی کی آخری دو دہائیوں میں اس بات پر بحث ہوتی تھی کہ سادھوی اوما بھارتی زیادہ پرتشدد ہیں یا سادھوی رتمبھرا۔ ان دونوں کی روایت خوب پروان چڑھی۔ اس لیے سادھوی پراچی، سادھوی پرگیہ ٹھاکر جیسی شخصیات کے لیے صرف لوگوں کے دلوں میں ہی نہیں ، بلکہ قانون ساز اسمبلیوں اور پارلیامنٹ میں بھی جگہ بنی۔
مغلوں اور سکھ رہنماؤں کے درمیان تصادم ہوا، لیکن سکھوں نے آج اس حقیقت کو مسلمانوں کے خلاف تشدد کی سیاست کے لیے استعمال کرنے سے گریز کیا ہے۔ یہ بات آر ایس ایس اور بی جے پی کو پریشان کرتی رہی ہے۔ وہ سکھوں کو مسلمانوں کے خلاف تشدد میں ملوث کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے وہ گرو گوبند سنگھ یا گرو تیغ بہادر کو یاد کرتے ہیں۔ ارادہ انہیں یاد کرنے کا جتنا نہیں، اتنا مغلوں کی’ بربریت’ کی یاد کو زندہ رکھنے کا ہے۔
لڑکیاں اپنی مرضی سے جینا چاہتی ہیں۔ اپنی مرضی سے رشتے بنانا چاہتی ہیں۔ اس کے لیے انہیں اپنے لوگوں سے بھاگنے کی ضرورت نہ پڑے، ایسا معاشرہ بنانے کی ضرورت ہے۔ جب تک وہ نہ بنے، تب تک ان خواتین کو اگر بچایا جانا ہے تو ان کے خاندانوں سے، بابو بجرنگی جیسے غنڈوں سے اور بجرنگ دل جیسی پرتشدد تنظیموں سے۔ لیکن اب اس فہرست میں شامل کرنا ہوگا کہ انہیں اسٹیٹ سے بھی بچانے کی ضرورت ہے۔
کولکاتہ میں منعقد فلم فیسٹیول میں ستیہ جیت رے کی ‘گن شترو’ کا ذکر کرتے ہوئے امیتابھ بچن کی یہ قیاس آرائی بالکل ٹھیک ہے کہ آج عوام کے لیے آواز اٹھانے والےلوگ رے کی فلم کے ‘ڈاکٹر گپتا’ ہی ہیں، جوعوام کو خبردار کرنا چاہتے ہیں، لیکن اقتدار اس وقت کامیاب ہو جاتی ہے جب عوام انہیں ہی اپنا دشمن سمجھ کر انہیں قتل کرنے کے لیےآمادہ ہوجائے۔
آج کے ہندوستان میں، خاص طور پر ہندوؤں کے لیے ضروری ہے کہ وہ غیر ہندوؤں کے مذاہب، صحیفے، شخصیتوں اور ان کے مذہبی طرز عمل کو جانیں۔ مسلمان، عیسائی، سکھ یا آدی واسی تو ہندو مت کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں، لیکن ہندو اکثر اس معاملے میں صفر واقع ہوئے ہیں۔ بہت سے لوگ محرم پر بھی مبارکباد دے ڈالتے ہیں۔ ایسٹر اور بڑاد دن میں کیا فرق ہے؟ اورآدی واسی عقائد کے بارے میں تو کچھ بھی نہیں معلوم ۔
ہندوستان کے لیے گجرات کے انتخابی نتائج کے نظریاتی مضمرات بہت سنگین ہوں گے۔ مسلمان اور عیسائی مخالف نفرت اور تشدد گجرات کے باہر بھی شدت اختیار کریں گے۔ مزدوروں، کسانوں، طلبہ وغیرہ کے حقوق کو محدود کرنے کے لیے قانونی طریقے اپنائے جائیں گے۔ آئینی اداروں پر بھی دباؤ بڑھے گا۔
‘معافی ویر’ کہہ کر ساورکر کو تمسخر کا نشانہ بنانے کے بجائےہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ساورکر واد (ازم) کے معنی ومفہوم پر بات کریں۔ اگر وہ کامیاب ہو ا تو ہم سب انتخابات کے ذریعے راجا کا انتخاب کرتے رہیں گے اور ہمیں فرمانبردار رعایا کی طرح اس کے ہر حکم کی تعمیل کرنی ہوگی۔
صلاحیت کی وجہ سےمواقع ملتے ہیں۔ یہ جملہ غلط ہے۔ یہ کہنا درست ہے کہ موقع ملنے سے صلاحیت نمایاں ہوتی ہے۔ صدیوں سے جنہوں نے تمام مواقع اپنے لیےمحفوظ کر رکھے ہیں، وہ اپنی صلاحیتوں کو فطری اور قدرتی تصور کرنے لگے ہیں۔ وہ نت نئی چالیں اور ترکیبیں ایجاد کرتے ہیں کہ جمہوریت کی وجہ سے جو مواقع ان سے لے لیے گئے ہیں، وہ پھر سے ان کو واپس ان کو مل جائیں۔
رشی سنک کا وزیر اعظم بننا برطانیہ کے لیےضرور ایک قابل فخر لمحہ ہے، کیونکہ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے ‘بیرونی لوگوں’ کے ساتھ دوستی میں بڑی ترقی حاصل کرلی ہے۔ اس میں ہندو مذہب یا اس کے پیروکاروں کا کوئی خاص کمال نہیں ہے۔ یہ کہنا کہ برطانیہ کو بھی ہندو مذہب کا لوہا ماننا پڑا، احساس کمتری کا اظہار ہی ہے۔
عدالتوں میں انصاف اب استثنائی بنتا جا رہا ہے، بالخصوص جب انصاف مانگنے والے مسلمان ہوں یا مودی حکومت کے ناقدین ہوں یا پھر مخالفین۔
موہن بھاگوت نے کسی بھی برادری کا نام لیے بغیر ملک میں برادریوں کے درمیان آبادی کے بڑھتے ہوئے عدم توازن پرتشویش کا اظہارکیا۔ سنگھ شروع سے ہی اشاروں میں بات کرتا رہا ہے۔ اس سے وہ قانون کی گرفت سے بچتا رہا ہے۔ ساتھ ہی اشاروں کی زبان کی وجہ سے دانشور حضرات بھی ان کے دفاع میں کود پڑتے ہیں، جیسا کہ اس وقت سابق الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی کر رہے ہیں۔
ایران میں اگر گشتی دستے زبردستی حجاب پہنا رہے ہیں ہیں توہندوستان میں سرکاری گشتی دستے زبردستی حجاب اتار رہے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ایران میں اسلامی حکومت مسلمانوں کو اپنے حساب سے پابندکرنا چاہتی ہے اور ہندوستان میں ایک ہندو حکومت مسلمانوں کو اپنے قاعدوں میں قید کرنا چاہتی ہے۔
گیان واپی کیس میں بنارس کی عدالت نے ابھی صرف یہ کہا ہے کہ ہندو خواتین کی عرضی قابل غور ہے۔ میڈیا اس فیصلے کو ہندوؤں کی جیت قرار دے کر مشتہر کر رہی ہے۔ اس سے آگے کیا ہوگا ،یہ صاف ہے۔ وہیں اتر پردیش کے نائب وزیر اعلیٰ متھرا کی دھمکی بھی دے رہے ہیں۔
جگہ–جگہ قبرستان اور عیدگاہ کی زمین پر کبھی پیپل لگا کر، کبھی کوئی مورتی رکھ کر اور بھجن آرتی کا سلسلہ شروع کر کے قبضہ کرنےکےحربے زمانے سے استعمال ہورہے ہیں۔ اب حکومتیں بھی اس میں تندہی سے مصروف ہیں۔لطف کی بات یہ ہے کہ اگر مسلمان اس کی مخالفت کریں تو انہیں عدم روادارکہا جاتا ہے۔
ساورکر نے اپنی کتاب ‘6 گورو شالی ادھیائے ‘ میں ریپ کو سیاسی ہتھیار کے طور پر جائز ٹھہرایا تھا۔ آزاد ہونے کے بعد ایک مجرم نے کہابھی کہ ان کو ان کے سیاسی نظریے کی وجہ سے سزا دی گئی۔ وہ شاید یہ کہنے کی کوشش کر رہے ہوں کہ انھوں نے کوئی جرم نہیں کیا تھا، صرف ساورکر کے سیاسی نظریے کی پیروی کی تھی ۔
ادے پور میں بہیمانہ قتل کے باوجود اس پروپیگنڈے کو قبول نہیں کیا جا سکتا کہ ہندو خطرے میں ہیں۔ اس قتل کے بہانے جو لوگ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں، وہ قتل و غارت گری اور تشددکے پیروکار ہیں۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ ایک منصوبہ بند سازش چلائی جارہی ہے کہ کسی ایک واقعہ پر ہندو اورمسلمان ایک ساتھ ایک آواز میں نہ بول پائیں۔
ویڈیو: اگنی پتھ سے لے کر سی اے اے، زرعی قانون اور نوٹ بندی کی وجہ سے ملک میں احتجاجی مظاہروں کے سلسلے میں مودی کی حکومت کے بارے میں دی وائر کے بانی ایڈیٹر سدھارتھ وردراجن اور دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند کی بات چیت۔
بی جے پی کی آٹھ سالہ حکومت نے ایک بڑی آبادی ایسی پیدا کی ہے جو مانتی ہے کہ پارٹی لیڈر کے بگڑے بول کی وجہ سے ہوئی بین الاقوامی شرمندگی کے لیے پارٹی کے ‘شعلہ بیاں مقرر’ ذمہ دار نہیں ہیں، بلکہ وہ لوگ ذمہ دار ہیں جو اس موضوع پر اتنی دیر تک چرچہ کر تے رہے کہ بات ہندوستان سے باہر پہنچ گئی۔
گیان واپی مسجد میں شیولنگ کے نمودار ہوجا نے کو جو معجزہ سمجھ رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے۔ ‘بابا پرکٹ ہوئے مسجد میں’، ایسا کہنے والے مذہبی ہوں نہ ہوں، وہ تجاوزات کےمجرم لازماًہیں۔
یوپی، مدھیہ پردیش، گجرات اور اب دہلی میں بلڈوزر کا استعمال ہر دن کے جوش کو بنائے رکھنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ ہندوؤں میں مسلمانوں کو اجڑتے، روتے، بدحواس دیکھنے کی پرتشدد خواہش بیدار کی جا رہی ہے۔ اب بی جے پی، میڈیا، پولیس اور انتظامیہ میں کوئی فرق نہیں رہ گیا ہے۔ ایک راستہ دکھا رہا ہے، ایک بلڈوزر کا قانون بتا رہا ہے، ایک ہتھیارکے ساتھ اس کو گھیرا دے کر چل رہا ہے، تو کوئی للکار رہا ہے۔
عید مبارک کے جواب میں اکشے ترتیہ یا پرشورام جینتی کی مبارکباد دینا کلینڈر پرست مذہبیت کی علامت ہے۔ ہم ہر جگہ اپنا تسلط چاہتے ہیں۔ آواز کی سرزمین پر، آواز کی لہروں پر بھی، دوسروں کی عبادت گاہوں پر اور سماج کے نفسی وجودپر بھی۔