خبریں

جے ڈی یو نے کی تین طلاق بل کی مخالفت-کہا بنا مشورے کے مسلمانوں پر نہ تھوپاجائے کوئی قانون

سوموار سے شروع ہورہے پارلیامنٹ کے بجٹ سیشن میں بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت کی جانب سے تین طلاق بل کو پیش کیے جانے کا امکان ہے۔غور طلب ہے کہ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی قیادت والی جے ڈی یو نے وزیر اعظم نریندر مودی کی پہلی مدت کار کے دوران بھی اس بل کی مخالفت کی تھی ۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی :سوموار سے شروع ہو رہے پارلیامنٹ کے بجٹ اجلاس میں بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت کی طرف سے تین طلاق بل ایک بار پھر سے پیش کئے جانے کا امکان ہے۔حالاں کہ، بی جے پی کی اتحادی پارٹی جے ڈی یو نے جمعہ کو تین طلاق بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ بغیر جامع مشورے کے مسلمانوں پر کوئی بھی خیال  مسلط نہیں کیاجانا چاہئے۔واضح ہو کہ مرکزی کابینہ نے ‘تین طلاق’کی روایت پر پابندی لگانے کے لئے بدھ کو نئے بل کومنظوری دے دی تھی۔ مرکزی وزیر پرکاش جاویڈکر نے یہ جانکاری  دی تھی۔این ڈی ٹی وی کے مطابق، جے ڈی یو ترجمان کے سی تیاگی نے ایک بیان میں کہا کہ، جے ڈی یویکساں سول کوڈ پر اپنے پہلے موقف کا اعادہ کرتا ہے۔ ہمارا ملک مختلف مذاہب  کے لئے قانون اور حکومت کے اصولوں کے تناظر میں ایک بہت ہی نازک توازن پر مبنی ہے۔

حالاں کہ، بیان میں، تین طلاق کے بلوں کابراہ راست ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ لیکن جے ڈی یو ذرائع نے بتایا کہ مجوزہ یکساں سول کوڈ ان کے خیالات کے مرکز میں ہے کیونکہ بی جے پی نے مسلمانوں کے تین طلاق کی روایت  کو جرم کے زمرے میں ڈالنے پر اکثر زور دیا ہے۔بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی قیادت والی جے ڈی یو نے وزیر اعظم نریندر مودی کے پہلے دور اقتدار کے دوران بھی اس بل کی مخالفت کی تھی۔ پارٹی نے اپنےموقف کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ جے ڈی یو اپنے موقف پر مضبوطی سے قائم ہے۔تیاگی نے کہا، ‘ہمارا ماننا ہے کہ اس (یکساں سول کوڈ) پر مختلف مذہبی گروپوں کے ساتھ اب بھی صلاح و مشورہ کرنے کی ضرورت ہے۔اس طرح کی کارروائی  کی غیر موجودگی میں شادی، طلاق، وراثت اور جائیداد کی جانشینی کے پیچیدہ مسئلے سے نمٹنے والی طویل مدت سے چلی آرہی مذہبی روایت سے جلدبازی میں چھیڑ چھاڑ کرنے کاصاف طور  پر مشورہ نہیں دیا جا سکتا۔

جے ڈی یو نے مطالبہ کیا ہے کہ قانون کو مزید جامع اور قابل قبول بنانے کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو بھروسے میں لیا جائے۔ پارٹی نے 2017 میں کمار کی طرف سے لاء کمیشن کو لکھے گئے خط کو بھی منسلک کیا ہے، جس میں انہوں نے اس معاملے پر آگے بڑھنے کی کوئی کوشش کرنے سے پہلے بحث کرنے اورصلاح و مشورہ کرنے کی اپیل کی تھی۔غور طلب ہے کہ  مودی حکومت کے پہلے دور اقتدار کے دوران تین طلاق بل راجیہ سبھا میں اٹک گیا تھا کیونکہ وہاں اس کے پاس مطلوبہ تعداد  نہیں ہے۔ اپر ہاؤس میں پاس کرنے کے لئے حکومت کو غیر این ڈی اے جماعتوں کی حمایت کی بھی ضرورت ہوگی۔ اگرچہ، جے ڈی یو جیسے اتحادیوں کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کی طرف سے راجیہ سبھا میں اس کے سامنے مشکلات کھڑی کرنے کا امکان ہے۔

 مسلم خاتون (شادی پر حقوق کی حفاظت)بل کو حزب اختلاف کی جماعتوں سے مخالفت کا سامناکرنا پڑا تھا۔ یہ بل طلاق  بدعت کو جرم کے دائرے میں لاتا ہے۔بتا دیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی مرکزی حکومت نے ستمبر 2018 اور فروری 2019 میں دو بار تین طلاق آرڈیننس جاری کیا تھا۔ اگرچہ، لوک سبھا میں اس متنازعہ بل کی منظوری کے بعد وہ راجیہ سبھا میں زیر التوا رہا تھا۔راجیہ سبھا میں زیر التوا ہونے کی وجہ سے گزشتہ ماہ 16 ویں لوک سبھا کے تحلیل ہونے کے بعد پچھلا بل غیر مؤثر ہو گیا تھا۔مسلمان عورت (شادی پر حقوق کےتحفظ) آرڈیننس، 2019 کے تحت تین طلاق کے تحت طلاق غیر قانونی اور غلط ہے اور شوہر کو اس کے لئے تین سال کی قید کی سزا ہو گی۔

سترہویں لوک سبھا کے پہلے سیشن میں نئی حکومت کا منصوبہ  تین طلاق کی روایت  پر پابندی لگانے سمیت 10 آرڈیننس کو قانون میں تبدیل کرنے کا ہے۔ دراصل، ان آرڈیننس کو سیشن کے شروع ہونے کے 45 دنوں کے اندر قانون میں تبدیل کرنا ہے دوسری صورت میں وہ غیر مؤثر ہو جائیں گی۔