خبریں

سپریم کورٹ نے سینٹرل وسٹا پروجیکٹ پر روک لگانے سے منع کیا، کہا-کورونا کے وقت کوئی کچھ نہیں کرے گا

کورٹ نے کہا کہ کووڈ 19 کے دوران صرف بہت ضروری معاملوں پر ہی شنوائی ہوگی اور یہ بے حد ضروری معاملہ نہیں ہے۔

فوٹو بہ شکریہ : پی آئی بی

فوٹو بہ شکریہ : پی آئی بی

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعرات کو دہلی میں نئےپارلیامنٹ اورمرکز کے دوسرے سرکاری دفتروں  کی تعمیر کے لیے لائے گئے سینٹرل وسٹا پروجیکٹ پر روک لگانے سے منع کر دیا۔لائیولاء کے مطابق،چیف جسٹس  ایس اے بوبڈے نے کہا، ‘اس پروجیکٹ کے خلاف ایسی ہی ایک عرضی زیر التوا ہے۔ ڈپلی کیٹ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔’

جسٹس بوبڈے اور انرودھ بوس کی رکنیت والی بنچ  نے آگے کہا کہ کووڈ 19 کے دوران صرف بہت ضروری معاملوں پر ہی شنوائی ہوگی۔ انہوں نے کہا، ‘کووڈ 19 سے پیدا حالات  کے دوران کوئی کچھ کرنے والا نہیں ہے اوریہ بے حد ضروری  نہیں ہے۔’اس معاملے پر سرکار کی طرف سے پیش ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے کہا، ‘پارلیامنٹ بنایا جائےگا…اس سے کسی کو کیا اعتراض  ہے؟’

عرضی  میں سینٹرل وسٹا پروجیکٹ کے لیے طے لینڈیوز کو چیلنج  دیا گیا ہے۔ اس میں الزام  لگایا ہے کہ اس کام کے لیے لٹینس زون کی 86 ایکڑ زمین  استعمال ہونے والی ہے اور اس کی وجہ سے لوگوں کے کھلے میں گھومنے کی جگہ  اور ہریالی ختم ہو جائےگی۔عرضی  میں یہ دلیل دی گئی ہے کہ دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی(ڈی ڈی اے)کے ذریعے 19 دسمبر 2019 کو جاری کئے گئے پبلک نوٹس کو امانیہ قرار دینے کے لیے سرکارکے ذریعے 20 مارچ 2020 کو جاری کیا گیا نوٹیفیکشن قانون اور جوڈیشیل پروٹوکال کے ضابطے  کا استحصال ہے کیونکہ 2019 والے نوٹس کوچیلنج  دیا گیا ہے اور خود سپریم کورٹ اس ک شنوائی کر رہا ہے۔

مرکزی حکومت کے 20000 کروڑ روپے کی لاگت والے سینٹرل وسٹا پروجیکٹ کو لے کر ڈی ڈی اے نے دسمبر 2019 میں ایک پبلک نوٹس جاری کیا تھا جس میں لوگوں سے لینڈ یوزکے بارے میں اعتراضات یا صلاح دینے کے لیے کہا گیا تھا۔20 مارچ 2020 کو مرکزنے لٹینس دہلی کے سینٹر میں 86 ایکڑ زمین  کو لینڈ یوزاعلان کر دیا جس میں پارلیامنٹ، راشٹرپتی بھون، انڈیا گیٹ سمیت مرکزی حکومت کی کئی اہم  عمارتیں شامل ہیں۔

11 فروری کو دہلی ہائی کورٹ کی ایک رکنی بنچ نے ڈی ڈی اے کو ہدایت  دی تھی کہ سینٹرل وسٹا میں لینڈیوز بدلنے سے پہلے وہ کورٹ کے پاس جائیں۔ یہ عرضی  راجیوسوری کی تھی، جنہوں نے سپریم کورٹ میں بھی عرضی  دائر کی ہے۔حالانکہ اس آرڈرکے بعدمرکز اور ڈی ڈی اے نے اپیل فائل کی، جس پر دہلی ہائی کورٹ کی ڈویژن بنچ نے آرڈر کورد کر دیا۔ اس سے ناخوش ہوکر سوری نے سپریم کورٹ کا رخ کیا۔

چھہ مارچ کو جسٹس ااے یم کھانولکر اور دنیش مہیشوری کی بنچ  نے دہلی ہائی کورٹ سے رٹ عرضی کو سپریم کورٹ میں ٹرانسفر کر لیا۔بنچ  نے اس وقت کہا تھا، ‘عوامی مفادکو دھیان میں رکھتے ہوئے ہمارا یہ ماننا ہے کہ ہائی کورٹ کے سامنےزیر التوا اس پورے معاملے کو کورٹ کے ذریعے جلد سنا جائے اورجلدی  سے اس پر فیصلہ لیا جائے۔’