خبریں

نارتھ ایم سی ڈی کے دو ہاسپٹل کے ڈاکٹروں کو تین مہینے سے نہیں ملی تنخواہ، استعفیٰ کی دھمکی

نارتھ دہلی میونسپل کارپوریشن کے تحت آنے والے ہاسپٹل میں کام کرنے والے تقریباً 3000 ڈاکٹروں اور دوسرے میڈیکل پیشہ وروں کو تین مہینے سے زیادہ  سے تنخواہ نہیں ملی ہے۔ ڈاکٹروں کی مختلف تنظیمیں وزیر اعلیٰ  اروند کیجریوال ، ایل جی  انل بیجل سے لےکر وزیر اعظم  نریندر مودی تک کو خط لکھ چکی ہیں۔

ہندو راؤ ہاسپٹل۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

ہندو راؤ ہاسپٹل۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: نارتھ دہلی میونسپل کارپوریشن (نارتھ ایم سی ڈی)کے تحت آنے والے دو ہاسپٹل کستوربا اور ہندو راؤ کے 350 سے زیادہ ریزیڈنٹ ڈاکٹروں نے تین سے چار مہینے تک کی تنخواہ نہ ملنے کی بات کہتے ہوئے اجتماعی طور پراستعفیٰ دینے کی دھمکی دی ہے۔ انہوں نے اپنے مطالبات ماننے کے لیے ایک ہفتہ کاوقت دیا ہے۔

بتا دیں کہ نارتھ ایم سی ڈی کے تحت کام کرنے والے تقریباً 3000 میڈیکل پیشہ وروں کو تین مہینے سے زیادہ وقت سے تنخواہ نہیں ملی  ہے۔اس سلسلےمیں ڈاکٹروں کی مختلف تنظیمیں وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال، ایل جی  انل بیجل سے لےکر وزیر اعظم  نریندر مودی تک کو خط لکھ چکی ہیں۔حالانکہ، اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔

دریا گنج واقع کستوربا ہاسپٹل کے ریزیڈنٹ ڈاکٹرس ایسوسی ایشن(آرڈی اے)نے 10 جون کو ہاسپٹل انتظامیہ کو خط لکھتے ہوئے کہا کہ اگر 16 جون تک ان کی تین مہینے کی  بقایہ تنخواہ نہیں دی جاتی ہے اور انہیں ریگولرتنخواہ کی یقین دہانی  نہیں کرائی جاتی  ہے تو وہ اجتماعی طور پراستعفیٰ دینے کو مجبور ہوں گے۔

بتا دیں کہ کستوربا ہاسپٹل میں تقریباً 100ریزیڈنٹ ڈاکٹر ہیں۔آرڈی اے نے ہاسپٹل کے ایڈیشنل میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کو لکھے خط میں کہا ہے، ‘ہمیں تنخواہ نہیں دی جا رہی ہے، جس سے ہم اپنے گھر کا کرایہ، سفر کا خرچ اور ضروری سامان  کو خریدنے کے اہل نہیں ہیں۔ ہم بنا پیسے کے کام نہیں کر سکتے۔ فرنٹ لائن کارکن ہونے کے ناطے ہمیں جلد سے جلد بقایہ تنخواہ کی ادائیگی  کی جانی چاہیے اورریگولرتنخواہ کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔’

کستوربا ہاسپٹل کے آرڈی اے صدر ڈاکٹر سنیل کمار نے کہا، ‘ہمارے ہاسپٹل میں جتنے بھی سینئر اور جونیئر ریزیڈنٹ ڈاکٹر ہیں انہیں پچھلے تین مہینے سے تنخواہ نہیں ملی ہے۔ پہلے ہم لوگوں نے ہڑتال کرنے کا منصوبہ  بنایا تھا لیکن پھر لگا کہ کورونا کے بحرانی دورمیں ہڑتال کرنا انسانیت کے لیے اچھا نہیں ہوگا اور اس لیے ہم لوگوں نے اجتماعی طور پر استعفیٰ  دینے کا فیصلہ کیا ہے۔’

WhatsApp-Image-2020-06-10-at-10.26.09-PM

وہ کہتے ہیں، ‘ڈاکٹروں، میڈیکل پیشہ وروں، پولیس اہلکاروں اور بینک اسٹاف  کو کورونا واریئرس کےطور پر دیکھا جا رہا ہے، انہیں عزت دی جا رہی ہے اور تالیاں بجائی جا رہی ہیں۔ عزت دینا اچھی بات ہے لیکن میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا اس سے راشن ملےگا۔ مجھے سیاست میں نہیں پڑنا ہے، میں کام کرتا ہوں تو مجھے تنخواہ چاہیے۔ بنا تنخواہ کے کام کروانا غلامی کے برابر ہے۔ میں چاہتا ہوں عوام، سرکار،عدلیہ اورہیومن رائٹس کمیشن اس کو اپنے علم میں لیں۔’

کستوربا ہاسپٹل میں پچھلے پانچ سالوں کام کر رہے ڈاکٹر ابھیمان چوہان ریزیڈنٹ ڈاکٹروں کی ٹیم کا حصہ ہیں۔دی  وائر سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘زیادہ تر ریزیڈنٹ ڈاکٹر باہر سے آئے ہوئے ہیں۔ وہ کرایہ  کا مکان لےکر رہتے ہیں۔ انہیں اپنا کرایہ دینا ہے، آمد ورفت  کا خرچ دیکھنا ہے۔ پہلے کئی لوگ میٹرو سے آتے تھے لیکن اب انہیں ٹیکسی اور کیب کرنا پڑتا ہے۔ تین مہینے تک تنخواہ نہیں ملےگی  تو ہم اپنی نجی ذمہ داریوں کو کیسے نبھا پائیں گے۔ گھر میں اگر بیوی  اور بچہ ہیں تو چیزیں اور بھی مشکل  ہو جاتی ہیں۔ ان سب کو دیکھتے ہوئے ہم نے اجتماعی طور پر استعفیٰ دینے کی وارننگ دی ہے۔’

وہ کہتے ہیں، ‘دہلی سرکار کے تحت آنے والے ہاسپٹل کو تنخواہ مل رہی ہے لیکن نارتھ ایم سی ڈی کے تحت آنے والے ہاسپٹل کے اسٹاف کو تنخواہ نہیں مل پا رہی ہے۔ ہاسپٹل انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ان کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ انہوں نے اگلے دو سے تین مہینے تک تنخواہ نہیں مل پانے کی بھی بات کہی ہے۔ اتنے لمبےوقت تک تو ہم لوگ نہیں جھیل سکتے ہیں۔’

حالانکہ، یہ پریشانی صرف ریزیڈنٹ ڈاکٹروں کی نہیں ہے۔ نارتھ ایم سی ڈی کے سینئر ڈاکٹروں کو بھی پچھلے تین مہینے سے تنخواہ نہیں ملی ہے۔دی  وائر سے بات کرتے ہوئے کستوربا ہاسپٹل کے سابق ایڈیشنل میڈیکل سپرنٹنڈنٹ اور سینئر ڈاکٹر آلوک پردھان کہتے ہیں، ‘ہمارے ہاسپٹل کے کسی بھی ڈاکٹر کو تین مہینے سے تنخواہ نہیں ملی۔ میئر، وزیر اعلیٰ، ایل جی اور یہاں تک کہ وزیر اعظم  کو بھی خط لکھا جا چکا ہے۔ یہ ساری پریشانی  ایم سی ڈی اور دہلی سرکار کے بیچ جھگڑے کی وجہ سے ہے۔’

ریزیڈنٹ ڈاکٹروں کی پریشانی پر وہ کہتے ہیں، ‘17-18 ہزار روپے پانے والےیہ لوگ کتنے دن بنا تنخواہ کے کام کر پائیں گے۔ ہم لوگ بھی اپنا مدعا اٹھاتے رہے ہیں۔ ہم لوگ تو 30-40 سال سے نوکری کر رہے ہیں اور ہمارے پاس کچھ بچت بھی ہے لیکن یہ بیچارے تو نئے نئے ایم بی بی ایس کرکے نکلے ہیں۔’

WhatsApp-Image-2020-06-10-at-10.59.40-PM

اسی طرح ہندو راؤ ہاسپٹل کے آرڈی اے نے 10 جون کو ہاسپٹل انتظامیہ کو خط لکھتے ہوئے کہا ہے کہ 18 جون تک ان کے چار مہینے سے بقایہ تنخواہ کو جلد سے جلد جاری کیا جائے اور سبھی میڈیکل پیشہ وروں کو ہر مہینے کی تنخواہ کو یقینی بنایا جائے۔آرڈی اے نے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کو لکھے خط میں کہا، ‘روزانہ کا خرچ برداشت کرنا ہمارے لیے مشکل ہوتا چلا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ روز کام پر آنے اور روزگار چلانا مشکل ہو گیا ہے۔ ہر خط میں ہم اسے اہمیت کے ساتھ اٹھاتے رہے ہیں لیکن ہمیں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ہماری آواز نہیں سنی جا رہی ہے۔’

انہوں نے لکھا، ‘ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ آئندہ 18 جون تک ہماری  بقایہ تنخواہ جاری کی  جائے اور سبھی میڈیکل پیشہ وروں کی تنخواہ ہر مہینے یقینی بنائی  جائے۔ تھک ہارکر ہمیں آپ کو یہ بتانا پڑ رہا ہے کہ ریزیڈنٹس ڈاکٹروں نے اپنا احتجاج درج کرانے کے لیے ‘تنخواہ نہیں تو کام نہیں’ کا راستہ  اپنایا ہے اور اگر ہماری پریشانیوں کاحل نہیں ہوتا ہے تو ہم اجتماعی طور پراستعفیٰ دیں گے۔’

دی  وائر سے بات کرتے ہوئے ہندو راؤ آرڈی اے صدر ابھیمنیو سردانہ نے کہا، ‘اکثر ہی ہماری تنخواہ ایک دو مہینے کی دیری سے آتی ہے۔ ہم کسی طرح سے کام چلا لیتے تھے، مگر اب مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ آج تنخواہ ملے ہوئے 106 دن ہو چکے ہیں۔’سردانہ کہتے ہیں، ‘میرے والدتاجرہیں لیکن فی الحال وہ بھی کچھ نہیں کر رہے ہیں۔ اپنے گھر میں میں ہی کمانے والا ہوں اور ایسے حالات میں جب میرہی تنخواہ 105 دن تک نہیں آئےگی تب گھر کا خرچ کیسے چلےگا۔ میرے ہی جیسے اس وقت یہاں پر 250 سے زیادہ ریزیڈنٹ ڈاکٹر ہیں۔’

کستوربا کی طرح ہی ہندو راؤ ہاسپٹل میں بھی احتجاج بھلے ہی صرف ریزیڈنٹ ڈاکٹر کر رہے ہوں مگر یہاں بھی سینئر ڈاکٹروں کی تنخواہ رکی  ہوئی ہے۔

سینئر ڈاکٹروں کی تنخواہ کے سوال پر سردانہ نے کہا، ‘سینئر ڈاکٹروں کی  بھی تنخواہ نہیں آ رہی ہے۔ حالانکہ، ان کی تنخواہ ہم سے ایک مہینے زیادہ کی  آ جاتی ہے۔’انتظامیہ سے بات کرنے کے سوال پر وہ کہتے ہیں، ‘ہاسپٹل انتظامیہ کے ساتھ ہم لگاتار اس مدعے کو اٹھاتے رہے ہیں۔ ہم مارچ سے لگاتار انہیں خط لکھ رہے ہیں۔ پچھلے ہفتے ہم نے صرف تنخواہ کو لےکر ایک خط لکھا تھا لیکن ابھی تک اس کا جواب نہیں آیا۔ ہم کالی پٹی باندھنے کے علاوہ کئی اور طرح سے احتجاج درج کرا چکے ہیں اور اب ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ انتظامیہ نے ہمیں چھوڑکر جانے تک کے لیے کہہ دیا ہے۔’

کورونا وائرس سے جڑے مریضوں کے آنے اور اس بارے میں ہاسپٹل کے ذریعے مہیا کی جانے والی سہولیات پر سردانہ کہتے ہیں، ‘ایسی خبریں ہیں کہ اسے بھی کووڈ ہاسپٹل بنانے کی تیاری چل رہی ہے۔ لیکن ابھی تک ہمیں کووڈ کی سبھی سہولیات نہیں مل رہی ہیں۔ پی پی ای کٹ بھی اچھی کوالٹی کے نہیں ہیں۔ ہمیں این 95 ماکس بھی مطلوبہ تعداد میں نہیں مل پاتا ہے۔ دہلی سرکار کے ہاسپٹل میں ہر ہفتے دو این 95 ماسک دیے جاتے ہیں، جبکہ ہمیں جب سے کورونا وائرس شروع ہوا ہے تب سے صرف چار ماسک ملے ہیں۔’

نارتھ ایم سی ڈی کے تحت آنے والے ہاسپٹل کی حالت بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ‘میری جانکاری میں دہلی میونسپل کارپوریشن میں 15 سے 16 پالی کلنک ہیں ان میں بھی تین مہینے یا اس سے زیادہ وقت سے تنخواہ نہیں دی گئی ہے۔’

ترینگر پالی کلنک کی ایک ڈاکٹر نام نہ بتانے کی شرط پر کہتی ہیں، ‘ہمیں بھی پچھلے تین مہینے سے تنخواہ نہیں ملی ہے۔ ہمارے ایریئر بھی کافی وقت سے نہیں ملے ہیں۔ کسی کا ساتواں پے کمیشن کا بقایہ ہے تو کسی کا 2011 سے تو کسی کا سال 2014 سے ایریئر نہیں ملا ہے۔’

وہ کہتی ہیں،‘ایم سی ڈی میں فنڈ کی کافی پریشانی ہے۔ ماسک بھی بہت کم دستیاب ہیں۔ ہم لوگ تو خود سے ماسک لےکر آتے ہیں۔ این 95 ماسک ہمیں نہیں ملتے ہیں۔’

ریزیڈنٹ ڈاکٹروں کی پریشانیوں پر وہ کہتی ہیں،‘ریزیڈنٹ ڈاکٹر پوسٹ گریجویشن کرکے آئے ہوتے ہیں۔ انہیں اپنے گھر شروع کرنے ہوتے ہیں۔ ان کے پاس کئی طرح کے لون ہوتے ہیں اور بچوں کی فیس ہوتی ہے۔ اپنا انسٹال منٹ جمع کرنے کے لیے وہ لون تک لینے کو تیار ہیں۔ اب ان کی حالت ایسی ہو گئی ہے انہیں استعفیٰ ہی دینا پڑےگا۔ نجی سیکٹرمیں کم ہی سہی، کم سے کم انہیں پیسہ مل تو جائےگا۔’

انہوں نے کہا، ‘چھٹیوں تک کی پریشانی ہے۔ ہمیں مارچ سے ہی چھٹی لینے کی اجازت نہیں ہے، جبکہ ہم میڈیکل پیشہ ور ہیں۔ ہمیں تو ہر دن آنا تھا۔ گھریلواسٹاف کے نہ آنے کے باوجود ہم ہر روز کام پر آ رہے ہیں۔ ہماری ای ایل جون میں ختم ہو جاتی ہیں۔ انہیں بھی نہیں لینے کے آرڈر ہیں۔ وہ بھی ختم ہو جائیں گی۔’

دو سال سے ہندو راؤ میں کام کر رہیں ریزیڈنٹ ڈاکٹر شیکھا دھون کہتی ہیں، ‘چار مہینے سے تنخواہ نہیں ملی ہے۔ کسی بھی عام  انسان کے لیے ایسے مشکل وقت میں اس طرح کام کرنا کیسے ممکن  ہو سکتا ہے۔’

دہلی میونسپل کارپوریشن (ایم سی ڈی) ڈاکٹرس ایسوسی ایشن کی سکریٹری  ڈاکٹر ماروتی سنہا نے کہا، ‘پریشانی تو ہمارے ساتھ بھی ہے۔ تین مہینے پہلے وزیر اعظم کو خط لکھا تھا۔ ہم نے بھی بولا تھا کہ ہم اجتماعی طور پراستعفیٰ دے دیں گے اگر آپ ہمیں تنخواہ نہیں دیں گے۔ اس کے بعد انہوں نے ایک مہینے کی تنخواہ دی۔ فروری کی تنخواہ سب کو ملا ہوئی ہے جبکہ مارچ، اپریل اور مئی کی تنخواہ باقی ہے۔ اب تو جون بھی ختم ہونے والا ہے۔’

انہوں نے کہا، ‘بدھ کو بیٹھک کے بعد ریزیڈنٹ ڈاکٹر ایسوسی ایشن نے بھی کہا کہ اگر ایسا کریں گے تو ہم بھی کام نہیں کریں گے۔ پریشانی یہ ہے کہ اس کا کوئی مکمل حل  نہیں نکال رہا ہے۔ وہ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کے پاس بھی گئے تو انہوں نے بولا کہ اوپر سے کہا گیا ہے کہ فنڈ نہیں ہے۔’

ڈاکٹر سنہا کہتی ہیں، ‘ہم کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ سے نہیں سنبھل رہا ہے تو صحت ویسے بھی اسٹیٹ  کا موضوع ہے۔ آپ دے دیجیے دہلی سرکار کو۔ ایم سی ڈی وزارت داخلہ اور ڈی ڈی اے کے تحت آتی ہے، تومرکزی حکومت کو دے دو۔ پہلی بار ہم نے 2015 میں احتجاج شروع کیا تھا اور تب سے آج تک کبھی بھی ہمیں وقت سے تنخواہ نہیں ملی۔’

وہ کہتی ہیں کہ آرڈی اے کے بعد اب ہم بھی کوئی ٹھوس قدم اٹھانے پرغور کر رہے ہیں۔

اس سلسلے میں ایک بیان جاری کرکے دہلی میڈیکل ایسوسی ایشن (ڈی ایم اے)نے کہا ہے، ‘نارتھ دہلی میونسپل کارپوریشن کے تحت آنے والے کستوربا ہاسپٹل، ہندو راؤ ہاسپٹل اور دوسرےہاسپٹل اور ڈسپنسری سے جڑے ریزیڈنٹ ڈاکٹروں کو تنخواہ نہیں دیے جانے پر ہماری تنظیم فکرمندہے۔ وہ پچھلے تین مہینے سے اس بے حد کشیدہ  ماحول میں بنا کسی مفاد اور پوری وابستگی کے ساتھ اپنا کام کر رہے ہیں۔’

بیان میں ڈی ایم اے کے صدر ڈاکٹر گرش تیاگی نے کہا کہ انہوں نے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کو خط لکھا ہے اور اس مدعے پر چرچہ کے لیےوقت مانگا ہے۔وزیر داخلہ کو لکھے خط میں تیاگی نے ان سے معاملے کو دیکھنے اور فوری طور پر دخل اندازی کی مانگ کی ہے تاکہ ریزیڈنٹ ڈاکٹروں کے پچھلے تین مہینے کی تنخواہ کے ساتھ ان کے ایریئر جلد سے جلد مل سکیں۔

دی وائر سے بات کرتے ہوئے نارتھ ایم سی ڈی کے میئر اوتار سنگھ نے کہا، ‘لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہم لوگ پچھلے دو تین مہینے سے ہاؤس ٹیکس وغیرہ اکٹھا نہیں کر پائے ہیں اور دہلی سرکار بھی تنخواہ دینے کا پیسہ نہیں دے رہی ہے اس لیے ان کی  تنخواہ نہیں دی جا سکی ۔ ہم ان کی جلد سے جلد مدد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ’

دہلی میں مقتدرہ عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے اورترجمان دلیپ پانڈے نے دی  وائر کے کال اور میسیج کا کوئی جواب نہیں دیا۔

بتا دیں کہ نارتھ ایم سی ڈی کے تحت ہندو راؤ اور کستوربا ہاسپٹل کے علاوہ مہرشی والمیکی انفیکشیش ڈیزیزہاسپٹل، گردھاری لال میٹرنٹی ہاسپٹل اور راجن بابو انسٹی ٹیوٹ آف پلمونری میڈیسن اینڈ ٹیوبر کلوسس آتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی 21 ڈسپنسری، 63 میٹرنٹی اینڈ چائلڈ ویلفیئر سینٹر، 17 پالی کلنک اور 7 میٹرنٹی ہوم ہیں۔ نارتھ ایم سی ڈی میں 1000سینئر ڈاکٹر، 500ریزیڈنٹ ڈاکٹر اور 1500 نرسنگ اسٹاف کام کرتے ہیں۔