خبریں

ہر سال ایک ارب بچے تشدد کا شکار ہو تے ہیں: اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کورونا وائرس کے مدنظرمختلف ممالک میں لگائے گئے لاک ڈاؤن کی وجہ سے ڈھیر سارے بچوں کو اپنے ساتھ بدسلوکی کرنے والوں کے ساتھ رہنے کے لیے مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔

(علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی)

(علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: بچوں کو محفوظ رکھنے کی تسلیم شدہ پالیسیوں پر عمل  کرنے میں لگ بھگ تمام ممالک کے ناکام رہنے کی وجہ سے دنیا بھر کے آدھے سے زیادہ بچےیعنی ایک ارب بچے ہر سال جسمانی، جنسی اورنفسیاتی تشدد سے متاثرہوتے ہیں، زخمی  ہوتے ہیں اور مارے جاتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی اپنی طرح کی پہلی رپورٹ میں یہ بات کہی گئی ہے۔ماہرین نے اس رپورٹ میں نشاندہی کی ہے کہ کورونا وائرس کے مدنظرمختلف ممالک میں لگائے گئے لاک ڈاؤن کی وجہ سے ڈھیر سارے بچوں کو اپنے ساتھ بدسلوکی کرنے والوں کے ساتھ لگاتار رہنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔

گزشتہ 18 جون کو جاری کی گئی بچوں کے خلاف تشدد کو روکنے سے متعلق عالمی رپورٹ 2020 میں کہا گیا کہ لگ بھگ تمام ممالک (88 فیصد)میں نابالغوں کے تحفط کے لیے قانون ہیں، لیکن آدھے سے بھی کم (47 فیصد)نے مانا ہے کہ وہ سختی سے ان کونافذ کرتے ہیں۔اس میں کہا گیا کہ بچوں کے تحفظ کے لیے تسلیم شدہ پالیسیوں پر عمل  کرنے میں ملک ناکام رہے ہیں اس لیے ہر سال تقریباً ایک ارب بچہ جسمانی، جنسی یا نفسیاتی تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق، اکثرممالک (83 فیصدی) کے پاس بچوں کے خلاف تشدد کے واقعات پر قومی اعدادوشمار ہیں لیکن محض 21 فیصدی ملک  ہی ان کا استعمال قومی ہدف کو قائم  کرنے اور بدسلوکی کی روک تھام کے لیےپالیسیاں بنانے میں کرتے ہیں۔قابل ذکر ہے کہ 80 فیصد سے زیادہ ممالک کے پاس قومی کارروائی کے لیےمنصوبے اورحکمت عملیاں ہیں، لیکن محض 20 فیصدی کے پاس ہی انہیں مؤثر ڈھنگ سے نافذکرنے کے لیے مالی وسائل  ہیں۔ فنڈ اور پیشہ ورانہ صلاحیت کے فقدان میں اس سمت میں ترقی  کی رفتار سست ہے۔

ڈبلیو ایچ اوکے ڈائریکٹر جنرل نے کہا، ‘بچوں کے خلاف ہونے والےتشدد کے لیے کوئی بہانہ نہیں بنایا جا سکتا ہے۔’

یواین ہیلتھ ایجنسی کے سربراہ نے کہا کہ بچوں کی فلاح وبہبوداور ان کے صحت کی حفاظت ہماری عوامی صحت اورفلاح  کے لیے ضروری ہے۔انہوں نے زور دےکر کہا، ‘ایسےتشدد کے لیے کسی بھی وجہ کو جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ہمارے پاس اس کی روک تھام کرنے کے لیے حقائ پر مبنی وسائل  ہیں اور ہم تمام ممالک سے انہیں استعمال کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔’

ڈبلیوایچ او، یونیسیف، یونیسکو، بچوں کے خلاف تشدد پر اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل  کے خصوصی نمائندہ اور انڈ وائلنس پارٹنرشپ’کے ذریعے جاری اس رپورٹ میں بچوں کے خلاف تشدد کو روکنے اور اس کے خلاف ردعمل دینے کے لیے تیار کی گئی سات پالیسیوں کے مجموعہ ‘انسپائر’ کے بارے میں 155 ممالک کے ڈیولپمنٹ کو نشان زد کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں تمام ممالک کو ان پالیسیوں کو لاگو کرنے کی کوشش تیز کرنے کی ضرورت کاواضح اشارہ دیا گیا ہے۔ اس میں پہلی بار 18 سال سے کم عمر کے بچوں کے قتل عام  کو لےکر عالمی اندازےکو دکھایا گیا ہے۔یونیسیف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہنریٹا فور نے کہا، ‘بچوں کے خلاف تشدد ہمیشہ بڑے پیمانے پر ہوتا رہا ہے لیکن اب حالات اور بگڑ رہے ہیں۔’

انہوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن، اسکولوں کے بند ہونے اور نقل وحمل  پر پابندی کی وجہ سے کئی بچہ ان سے بدسلوکی  کرنے والوں کے ساتھ پھنس گئے ہیں، کیونکہ ان کے پاس وہ محفوظ جگہ  نہیں ہے، جو عام طور پر اسکول فراہم  کراتے ہیں۔ہنریٹا نے کہا، ‘یہ بہت ضروری ہے کہ اس وقت اور اس کے بعد بھی بچوں کو تحفظ دینے کی کوششوں  کا دائرہ بڑھایا جائے۔ بچوں کے لیے ہیلپ لائن اور ان کے لیے طے سماجی کارکنوں کو ضروری خدمات میں شامل کرنا ہوگا۔’

یونیسکو کی ڈائریکٹرجنرل  نے کہا کہ آن لائن میڈیم پر بھی تشدد اور نفرت میں اضافہ  ہوا ہے۔ اس سے کووڈ 19 کی پابندیاں ہٹنے کے بعد اسکول واپس جانے کے لیے بچوں میں ڈر بڑھ رہا ہے۔انہوں نے کہا، ‘ہمیں اس بارے میں سوچنا ہوگا اور اسکولوں اور سماج میں تشدد روکنے کے لیے اجتماعی  طور پرکارروائی کرنی ہوگی۔’

(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)