خبریں

نیپال جیسا چھوٹا ملک ہندوستان کے سامنے کیسے ڈٹ گیا ہے؟

نیپال کی ندیوں سے آنے والا پانی ہر سال جنوبی بہار کے لیے بہت بڑی تباہی لے کر آتا ہے۔اس لیےہندوستان نے نیپال کی سرحد سے ملحق بہار کے مشرقی چمپارن میں  گنڈک ڈیم تعمیر کرایا تھا جسے تقریباً ہرسال مرمت کی ضرورت ہوتی ہے۔اس بار نیپال نے مرمت کی اجازت دینے سے انکار کردیا ہے۔

نیپال کے وزیر اعظم کے پی شرما، فوٹو: پی آئی بی

نیپال کے وزیر اعظم کے پی شرما، فوٹو: پی آئی بی

ہندوستان سے نیپال کی ناراضگی بڑھتی جارہی ہے۔تازہ کشیدگی کی وجہ بہار میں سیلاب کے خدشے کے پیش نظرمرمتی کام سے متعلق ہے، جس کے لیے کاٹھمنڈو نے اجازت دینے سے انکار کردیا ہے۔اس سے قبل نیپال نے ایک نیا سیاسی نقشہ جاری کیا تھا جس میں بعض ایسے علاقوں کو نیپال کاحصہ دکھایا گیا جسے ہندوستان اپنا قرار دیتا ہے۔ اس کے بعد دونوں ملکوں کی سرحد پر فائرنگ کے ایک واقعہ میں ایک ہندوستانی شہری کی موت بھی واقع ہوچکی ہے۔

 پچھلے دو ہفتوں کے دوران پیش آنے والے ان واقعات پر ہندوستان سخت خفا ہے۔تاہم یہ واقعات ہندوستان کے اپنے ایک قریبی پڑوسی ملک کے ساتھ تعلقات میں بڑھتی ہوئی خلیج کا پتہ دیتے ہیں۔نیپال کی ندیوں سے آنے والا پانی ہر سال برسات کے دنوں میں جنوبی بہار کے لیے بہت بڑی تباہی لے کر آتا ہے۔ ہزاروں ایکٹر پر کھڑی فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں، مکانات منہدم ہوجاتے ہیں اور لاکھوں لوگ بے گھر ہوجاتے ہیں۔ اس مصیبت پر قابو پانے کے لیے ہندوستان نے نیپال کی سرحد سے ملحق بہار کے مشرقی چمپارن ضلع میں لال باکیا ندی پر کئی برس پہلے گنڈک ڈیم تعمیر کرایا تھا جسے تقریباً ہرسال مرمت کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس بار بھی جب ہندوستانی حکام پشتے کی مرمت کے لیے گئے تو نیپالی حکام نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا اور کہا کہ اس پشتے سے پانچ سو میٹر تک کا علاقہ نیپال کا ہے۔اطلاعات کے مطابق ہندوستانی حکام نیپال کے اس رویے سے حیرت زدہ رہ گئے کیوں کہ ماضی میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ ہندوستان کی پریشانی یہ بھی ہے کہ برسات کا موسم شروع ہوچکا ہے اور سیلاب کا خطرہ سرپر آن کھڑا ہے۔ بہار کی حکومت نے ہندوستانی وزارت خارجہ سے رجوع کیا ہے اور اپیل کی مرکزی حکومت اس مسئلے کو جلد سے جلد حل کرنے کے لیے نیپال سے بات کرے۔

ہندوستانی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ دونوں ملکوں کے رشتوں میں تلخی اسی وقت شروع ہوگئی تھی جب 2015 میں نیپال نے اپنا نیا آئین منظور کیا اور اس کے خلاف ہندوستانی نژاد مدھیشوں نے مظاہرے شروع کرکے ہندوستان سے نیپال جانے والی سڑک بلاک کر دی۔ اس سڑک کی بندش کے باعث نیپال کوکئی مہینوں تک اقتصادی پریشانیوں کا سامنا رہا۔ کاٹھمنڈو نے اس صورت حال کے لیے ہندوستان کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔

نیپال کا نیا سیاسی اور انتظامی نقشہ۔ (فوٹو: نیپال سرکار)

نیپال کا نیا سیاسی اور انتظامی نقشہ۔ (فوٹو: نیپال سرکار)

پچھلے دنوں جب وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے ہندوؤں کے لیے انتہائی مقدس چین میں واقع کیلاش مانسرور پہاڑ تک جانے کے لیے ریاست اتراکھنڈ میں ایک سڑک کا افتتاح کیا تو نیپال کی ناراضگی مزید بڑھ گئی۔ نیپال کا موقف ہے کہ کالاپانی، لیپو لیکھ اور لمپیا دھورا کے جس راستے سے یہ سڑک گزرتی ہے وہ علاقے نیپال کے ہیں۔ نیپال کی حکومت نے پارلیامنٹ میں آناً فاناً  ملک کا نیا نقشہ پیش کردیا جس میں ان علاقوں کو نیپال کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ نیپال میں قوم پرستی کی فضا میں تمام سیاسی جماعتوں نے اس کی مکمل حمایت کی اور نیپالی صدر کے دستخط کے بعد اب یہ نقشہ باضابطہ طور پر منظور کیا جا چکا ہے۔

ہندوستان نے نیپال کے اس فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کیا کہ یہ نقشہ تاریخی حقائق اور شواہد کے برعکس ہے۔ اس پس منظر میں اب بہار کے بعض علاقوں پر نیپال کا دعویٰ کشیدگی میں اضافہ کرسکتا ہے۔اس دوران نیپالی پارلیامان نے شہریت قانون میں ترمیم کو بھی منظوری دے دی۔ نئی ترمیم کے بعد نیپالی مردوں سے شادی کرنے والی ’غیر نیپالی‘ خواتین کو سات برس تک شہریت نہیں ملے گی۔اب تک کے قانون کے مطابق شادی کے فوراً بعد ہی انہیں نیپال کی شہریت حاصل ہوجاتی تھی۔

نئے قانون کی روسے ان کے لیے کئی سماجی اور اقتصادی مسائل بھی پیدا ہوں گے۔ ترمیم شدہ شہریت قانون کی رو سے اب نیپال کی شہریت حاصل کرنے والے غیر نیپالی افراد اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز نہیں ہو سکیں گے۔ ان  میں صدر، وزیر اعظم، گورنر، وزیر اعلی،اسپیکر، مسلح افواج کے سربراہ اور انٹلی جنس ایجنسیوں کے سربراہ کے عہدے شامل ہیں۔


یہ بھی پڑھیں: نیپال کے نئے نقشے سے ہندوستان خفا، کیا ہے پورا معاملہ؟


سفارتی امور کے ماہر سنجے کپور نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بہ ظاہر نیپال اب اپنی ایک الگ شناخت پر زور دینے کی کوشش کررہا ہے اور ہندوستان کو پیغام دے رہا ہے کہ وہ ہندوستان کو ایسا کوئی خصوصی اختیار نہیں دے گا جو نیپالی شہریوں کو ہندوستان  میں حاصل نہیں۔نیپال میں ہندوستان کے سابق سفیر رنجیت رائے کا کہنا ہے کہ شہریت ترمیمی قانون ہندوستان اور نیپال کے درمیان بیٹی اورروٹی کے رشتے  میں آخری کیل ثابت ہوسکتا ہے۔

ہندومذہبی اساطیر کے مطابق بھگوان رام کی بیوی سیتا کا تعلق جنک پور سے تھا جو کہ موجودہ نیپال میں ہے۔ اور ہندوستان کی متعدد ریاستوں کی خواتین کی نیپالی مردوں سے شادی عام بات ہے۔دوسری طرف لاکھوں کی تعداد میں نیپالی شہری ہندوستان میں کسی دستاویز کے بغیر ملازمت کرتے ہیں اور ہندوستانی فوج میں باضابطہ ایک گورکھابٹالین بھی ہے۔اس لیے ہندوستان کے سیاسی رہنما دونوں ملکوں کے تعلقات کو اجاگر کرنے کے لیے ’بیٹی روٹی کا رشتہ‘ کی اصطلاح کا سہارا لیتے ہیں۔ وزیردفاع راجناتھ سنگھ نے بھی حالیہ سرحدی تنازعہ پربیٹی اور روٹی کی اصطلاح استعمال کی تھی۔

رنجیت رائے کا مشورہ ہے کہ ہندوستانی پالیسی سازوں کو خوابوں کی دنیا سے نکل کر تعلقات میں خلیج دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

(ڈی ڈبلیو اردو کے لیے جاوید اختر کی رپورٹ)