خبریں

جی او ایم رپورٹ: وزرا کو موصولہ تجاویز کے بعد کانگریس مخالف دعوے کو قومی خبر بنایا گیا

جی او ایم رپورٹ کے مطابق حکومت نواز کالم نگارکنچن گپتا نے جون 2020 میں وزرا کو ‘چین کی کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے راجیو گاندھی فاؤنڈیشن کو دیے ڈونیشن’ کو لےکر خبر پھیلانے کی تجویز دی تھی۔ کئی میڈیا اداروں  کی شائع خبریں دکھاتی ہیں کہ بی جے پی  نے اس تجویز کو سنجیدگی  سے لیا تھا۔

مختلف  میڈیا اداروں کے ذریعے شائع راجیو گاندھی فاؤنڈیشن کے ڈونیشن سےمتعلق  خبر۔ (فوٹوبہ شکریہ: متعلقہ  چینل/اخبار/ویب سائٹ)

مختلف  میڈیا اداروں کے ذریعے شائع راجیو گاندھی فاؤنڈیشن کے ڈونیشن سےمتعلق  خبر۔ (فوٹوبہ شکریہ: متعلقہ  چینل/اخبار/ویب سائٹ)

نئی دہلی: میڈیا میں مودی سرکار کی امیج  بنانے، حکومت نواز میڈیا کوفروغ  دینے اور آزاد صحافت  کو غیر مؤثر بنانے کے لیے نو وزرا کےگروپ(جی او ایم)کے ذریعے تیار کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق کالم نگار کنچن گپتا نے مودی سرکار کو یہ تجویز دی تھی کہ ‘چین کی کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے راجیو گاندھی فاؤنڈیشن کو ڈونیشن دیے جانے کو ایک خبر کے طور پر تیار کیا جا سکتا ہے۔’

کنچن گپتا اپنے حکومت نوازنظریات کے لیےمعروف ہیں اور اس وقت  نئی دہلی کے ایک تھنک ٹینک آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن(اوآرایف)سے ممتاز فیلو کے طور پر وابستہ ہیں۔گپتا کی یہ تجویز براہ راست  ڈیجیٹل میڈیا کو کاؤنٹر کرنے کے لیے تھی، جو ‘بہت زیادہ  سرگرمی پیدا کرتے ہیں، جومین اسٹریم  کے قومی میڈیا میں پہنچتی ہے۔’

کووڈ19وبا کے عروج اور لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر ہندوستان اور چین کے بیچ جاری تعطل کے بیچ اس جی او ایم کا قیام  ہوا تھا۔ ایک وزیرکے لفظوں  میں سمجھیں، تو اس کا بنیادی مقصد‘سرکار کی تنقید کرنے والے آزاد ڈیجیٹل میڈیا اداروں  کو بے اثر بنانے کے لیے ایک منصوبہ  بنانا تھا۔’

ایک میڈیا رپورٹ کے ذریعے سامنے آئی وزرا کے اس گروپ  کی رپورٹ کے مطابق، کنچن گپتا کئی دوسرے حکومت نواز کالم نگاروں کے ساتھ 23 جون 2020 کووزیر اطلاعات ونشریات  پرکاش جاویڈکر سے ملے تھے۔اس کے تین دن بعد 26 جون کو ایک اورہ بیٹھک وزیر کرن رجیجو کے گھر پر ہوئی تھی، جہاں صحافیوں  اورمبصرین  کا ایک اورگروپ  موجود تھا۔

کیا کنچن گپتا کی تجویز پر واقعی میں عمل کیا گیا، ایک چھوٹی سی گوگل سرچ کرنے پر اس کو لےکر ایک عجیب اتفاق سامنے آتا ہے۔

گزشتہ 25 جون 2020 کو، گپتا کے جی او ایم کو یہ مبینہ تجویز دینے کے محض دو دن بعد سرکار حمایتی  پروپیگنڈہ ویب سائٹ آپ انڈیا پر ایک رپورٹ شائع ہوئی، جس کا عنوان  تھا ‘سونیا گاندھی ہیڈیڈ راجیو گاندھی فاؤنڈیشن ہیڈ ریسیوڈ 10  لاکھ رپیز ڈونیشن فارم چائنا ان 2006 (سونیا گاندھی کی قیادت  والی راجیو گاندھی فاؤنڈیشن کو 2006 میں چین سے دس لاکھ روپے ڈونیشن ملا)

اس میں کہا گیا تھا،‘ایسے وقت پر جب کانگریس پارٹی کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے ساتھ خفیہ  سودوں کو لےکر نشانے پر ہے، اسی بیچ ایک اور انکشاف میں گاندھی فیملی  کے چین کے ساتھ خفیہ تعلقات  کے دعووں کو اور مضبوطی  ملتی ہے۔ نئے انکشاف  سے پتہ چلتا ہے کہ چینی سرکار نے سال 2006 میں ‘راجیو گاندھی فاؤنڈیشن’ کو ‘مالی اعانت’کے لیے 10 لاکھ روپے عطیہ  دیے تھے۔ ’

آگے کہا گیا تھا، ‘چینی سفارت خانے پر دستیاب  ایک دستاویز کےمطابق، ہندوستان  میں اس وقت کے چینی سفیر سن یکسی نے راجیو گاندھی فاؤنڈیشن کو 10 لاکھ روپے دیےتھے، جو کانگریس پارٹی سےمتعلق  ہے اور پارٹی کے رہنماؤں کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔’

دلچسپ یہ ہے کہ جی او ایم رپورٹ میں یہ بات بھی درج ہے کہ مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی سے ملے دومبصرین نے سرکار سے آپ انڈیا کا پروپیگنڈہ  کرنے میں مدد کرنے کی بات بھی کہی تھی۔کانگریس اور گاندھی فیملی پر ہوا یہ حملہ لداخ میں گلوان گھاٹی ایل اےسی پر ہندوستان  چین کے بیچ ہوئے پرتشدد تصام  جس میں بیس ہندوستانی جوان شہید ہوئے تھے اور جس نے عوام کے جذبات اور نریندر مودی سرکار کی امیج کو متاثر کیا تھا، کے بعد ہوا تھا۔

اس وقت تک حکومت ہند کی طرف سےچینی فوج کے ایل اےسی پر کسی بھی طرح کی دراندازی  کی بات قبول نہیں کی گئی تھی۔ وہیں اپوزیشن  کانگریس، بالخصوص راہل گاندھی مودی سرکار سے اس کو لےکر سوال پوچھنے والوں میں سب سے آگے تھے۔

گزشتہ 25 جون کو روی شنکر پرساد، جو اس گروپ  کے وزرا میں سے ایک ہیں، نے قومی  میڈیا کو چین کے سفارت خانے کی ویب سائٹ سے لیے کچھ دستاویز بانٹتے ہوئے کانگریس کو اس مسئلے کو لےکر نشانہ  بنایا  تھا۔

پرساد نے یہاں مبینہ  طور پر راجیو گاندھی فاؤنڈیشن کو ‘اور کچھ نہیں بس کانگریس کی توسیع’بتایا تھا، ساتھ ہی کہا تھا کہ فاؤنڈیشن نے 2009-2011 کے بیچ ہندوستان  اور چین کے بیچ آزادانہ تجارتی معاہدے کی وکالت کی تھی۔ انہوں نے اس ڈونیشن کو ‘مطلوبہ اور باہمی  فائدہ پہنچانے والا’ بتایا تھا۔

اسی دن مدھیہ پردیش میں پارٹی کارکنوں کی ایک ورچوئل ریلی کے دوران بی جے پی صدرجے پی نڈا نے بھی کانگریس کو اسی مدعے پر نشانے پر لیا تھا۔کنچن گپتا کی مجوزہ خبر کو قومی  میڈیا میں بھی پوری توجہ دی گئی تھی۔دی  ہندو اخبار میں‘خصوصی نامہ نگار’کے نام سے شائع ہوئی ایک رپورٹ ‘لداخ فیس آف: بی جے پی اٹیکس کانگریس اوور چائنیز فنڈس [لداخ تعطل: چینی فنڈ کو لےکر بی جے پی  نے کانگریس پر حملہ بولا]تھا۔’

وہیں پرساد کے بیان کو بنیاد بناکر این ڈی ٹی وی، نیوز18 ڈاٹ کام، دی  ٹربیون اور دی  پرنٹ نے بھی خبریں شائع کی تھیں۔ حالانکہ انہوں نے اس میں کانگریس کے ردعمل کو بھی شامل کیا تھا۔

‘چائنیز فنڈس فار راجیو گاندھی فاؤنڈیشن: بی جے پیز لیٹیسٹ پالیٹیکل اٹیک عنوان سےسنکیت اپادھیائے کی لکھی این ڈی ٹی وی کی رپورٹ میں کہا گیا تھا، ‘قابل توجہ  بات ہے کہ 2004-2014 کے بیچ اپوزیشن میں رہنے کے دوران بی جے پی  کے کئی رہنماؤں نے چین کی کمیونسٹ پارٹی کے اراکین سے ملاقات کی تھی۔ سال 2007 میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کےایک وفد نے اس وقت کے بی جے پی صدر راج ناتھ سنگھ کے بیچ بی جے پی ہیڈکوارٹر میں ایک بیٹھک ہوئی تھی۔’

اس بیچ اے بی پی نیوز نے پرساد کے بیان کی ویڈیو کلپ کو بریکنگ نیوز کی طرح چلایا تھا، جہاں اینکر نے یہ بھی بتایا تھا کہ نہ صرف گاندھی فیملی بلکہ سابق وزیر اعظم   منموہن سنگھ بھی فاؤنڈیشن کے رکن  ہیں اور پرساد کے مطابق چین کی طرف سےیہ ڈونیشن آزادانہ تجارتی معاہدے کے عوض میں دیا گیا تھا۔

پرساد کے بیان کو نشر کرنے کے بعد چینل نے کانگریس ترجمان  پون کھیڑا کا بیان لیا، جنہوں نے راجناتھ سنگھ کی صدارت کےوقت  بی جے پی کے ساتھ چین کی کمیونسٹ پارٹی کے دوستانہ تعلقات  کی بات کہی۔اسی دن ٹائمس آف انڈیا نے بھی ایک رپورٹ شائع کی تھی، حالانکہ اس میں نڈا یا پرساد کا بیان نہ لےکر بی جے پی کےآئی ٹی سیل کے چیف  امت مالویہ کا بیان لیا گیا تھا۔

اس کے اگلے دن ری پبلک اور ٹائمس ناؤ نے بھی اس خبر کو چلایا۔رائٹ ونگ  ویب سائٹ سوراجیہ نے 26 جون کو ایک خبر شائع کی، جو مالویہ اور پرساد دونوں کے بیان کو بنیاد بناکر لکھی گئی تھی۔

گزشتہ 26 جون سے 29 جون کے بیچ بی جے پی  کی طرف سے کانگریس کو نشانہ بنانے کو لےکر نیو انڈین ایکسپریس، د ی ویک، ڈی این اے اور بزنس اسٹینڈرڈ میں کئی خبریں چھپیں، جس نے جی او ایم کے سامنے ان کی مختلف صحافیوں  اور حکومت نواز بااثر لوگوں کے ساتھ ہوئی بیٹھکوں کے پورا ہونے سے پہلےیہ ثابت کیا کہ کنچن گپتا کی طرف سے  دی گئی تجویز کے نتیجے مل سکتے ہیں۔

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)