فکر و نظر

ملک کی موجودہ کورونا صورتحال  کے لیے سب سے زیادہ وزیر اعظم  ذمہ دار ہیں

ملک میں بےحد تیزی سے بڑھ رہے کورونا انفیکشن کے معاملوں کے مدنظر اب تک ویکسین کی پیداواری صلاحیت کو بڑھا دیا جانا چاہیے تھا۔ ظاہر ہے کہ اس سمت میں مرکزی حکومت کی پلاننگ پوری طرح ناکام  رہی ہے۔

8 اپریل کو ممبئی کے ایک ٹیکہ کاری مرکز پر ویکسین ختم ہونے کے بعد کھڑے لوگ۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

8 اپریل کو ممبئی کے ایک ٹیکہ کاری مرکز پر ویکسین ختم ہونے کے بعد کھڑے لوگ۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: ملک میں کو رونا معاملوں کی بڑھتی تعداد کے بیچ کووڈ 19 ویکسین کی کمی کو لےکر اٹھ رہے سوالوں کو مرکزی حکومت  نے مسترد  کردیا ہے اور اس کے لیے ریاستوں کو ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔

حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ویکسین کی خریداری  اور اس کے ڈسٹری بیوشن کی اجارہ داری مرکز کے ہی پاس ہے، لیکن وہ45 سال سے زیادہ  عمر والوں کے لیے ویکسین کی ضرورت کا اندازہ  کرنے میں پوری طرح سے ناکام رہے ہیں۔

ایک سادہ سےحساب سے اس بات کی تصدیق  کی جا سکتی ہے۔ ہندوستان  کی دواہم  ویکسین کووشیلڈ اور کوویکسین کے مینوفیکچر ایک دن میں تقریباً 24 لاکھ کو رونا ٹیکہ بنارہے ہیں۔ لیکن اس وقت  ایک دن میں 37 لاکھ ویکسین کی ضرورت ہے۔

پہلے سے ہی کو رونا ویکسین کی شدید کمی ہے اور شاید کووڈشیلڈ کے پرانے اسٹاک کے ذریعے اسے چھپایا جا رہا ہے۔اگرپیداواری صللاحیت بڑھانے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے، تب بھی آنے والے وقت میں سنگین حالات  دیکھنے کو ملیں گے۔

مارچ مہینے میں ویکسین کی مانگ میں اس لیے اضافہ  نہیں ہوا تھاکہ اس وقت نئے کورونا معاملے کنٹرول  میں تھے اور ٹیکہ  لگوانے کو لےکر لوگوں میں جھجھک بھی تھی۔

لیکن ایک اپریل سے ہی مانگ میں زیادہ اضافہ ہوا ہے کیونکہ اس وقت ملک کورونا کی سب سے خطرناک  لہر کا سامنا کر رہا ہے اور ٹیکہ لگوانے کی عمر بھی گھٹاکر 45 کر دی گئی ہے۔ ایسے میں سرکار کو اب تک پیداواری صلاحیت کو بڑھا دینا چاہیے تھا۔

لیکن یہ صاف  ہے کہ مرکز اس سمت میں پوری طرح ناکام رہا ہے۔ اسٹاک میں رکھے ویکسین ختم ہوتے ہی مانگ اورفراہمی  کے بیچ کا فرق  بڑھ کر ہر دن15 سے 20 لاکھ ہو سکتا ہے۔ اس لیے ویکسین کا پروڈکشن  بڑھانے کی ضرورت ہے۔

جب ملک کورونا ویکسین کی اتنی شدید کمی سے جوجھ رہا ہو، ایسے میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعےگزشتہ جمعرات  کو وزرائے اعلیٰ  کے ساتھ ویڈیو کانفرنسنگ میں‘ٹیکہ  اتسو’کی بات کرنا ‘لفاظی’ جیسا معلوم ہوتا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ زیادہ تر ریاستوں  کے پاس صرف دو یا تین دن کے لیے ویکسین کا اسٹاک بچا ہوا ہے۔ اس میں مہاراشٹر ایک اہم  ریاست ہے،جہاں سیاسی اٹھاپٹک  کا دور چل رہا ہے۔ وہیں اڑیسہ ،چھتیس گڑھ، تلنگانہ اور آندھر اپردیش جیسی  ریاستوں نے بھی ویکسین کی کمی کی شکایت کی ہے۔

اپولو ہاسپٹل گروپ کی شریک مالکن سنگیتا ریڈی نے این ڈی ٹی وی کو بتایا ہے کہ آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں ضلعی سطح  پر بھی ویکسین کی کمی ہے۔

چھتیس گڑھ  کے وزیر صحت ٹی ایس سنگھ دیو نے بھی مرکزی حکومت پر شدیدحملہ کرتے ہوئے کہا کہ ریاست ایک دن میں جتنی ویکسین لگا سکتے ہیں، اس کے مقابلےمیں کم ہی ویکسین مل رہا ہے۔ اسپتالوں کے باہر لمبی لمبی لائنیں لگی ہوئی ہیں اور اس بار شہروں میں اور تیزی سے کو رونا بڑھ رہا ہے۔

اس صورتحال  میں ویکسین کی فراہمی50 فیصدی تک بڑھانے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اس لیے اپریل کے اواخر تک ریاست  کو ویکسین تقسیم کرنے میں 50 فیصدی کااضافہ  کرنا ہوگا۔ اس مانگ میں اور اضافہ  ہوگا کیونکہ ماہرین  نے کہا ہے کہ کورونا کی موجودہ لہر وسط مئی تک چلےگی۔

ایسے میں بڑا سوال یہ ہے کہ کیا صرف دو مینوفیکچررز کی موجودہ پیدواری صلاحیت  اگلے کچھ ہفتوں میں آنے والی مانگ کی فراہمی  کر پائےگی۔ مودی کا ‘ٹیکہ اتسو’اس بات پر منحصر کرےگا کہ کتنی تیزی سے سیرم انسٹی ٹیوٹ کے ذریعے کووشیلڈ اور بھارت بایوٹیک کے ذریعے کو ویکسین کا پروڈکشن  بڑھایا جاتا ہے۔

کل ویکسین فراہمی  کا 90 فیصدی سے زیادہ  حصہ کووشیلڈ کا ہے۔ سیرم انسٹی ٹیوٹ کی صلاحیت ایک مہینے میں تقریباً چھ کروڑ ڈوز پیدا  کرنے کی ہے اور اس کے پرموٹر ادار پوناوالا سرکار سے مالی مدد کی مانگ کر رہے ہیں، تاکہ وہ  پیداواری صلاحیت  کو بڑھاکر 10 کروڑ کر سکیں۔

موجودہ وقت میں سیرم انسٹی ٹیوٹ چھ کروڑ سےزیادہ  ڈوز کی اپنی موجودہ  ایکسپورٹ کی ذمہ داری  کو بھی پورا نہیں کر پا رہا ہے۔ وہیں کو ویکسین کا پروڈکشن کرنے والی بھارت بایوٹیک کی کافی کم پیداواری صلاحیت  ہے، ممکنہ طو رپرایک مہینے میں ایک کروڑ سے بھی کم۔

سیرم انسٹی ٹیوٹ کی طرح ہی پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لیے فروری مہینے میں بھارت بایوٹیک نے بھی سرکار سے مالی  مدد کی مانگ کی تھی۔ ممکنہ طور پرسرکاری افسروں  نے اس پر دھیان نہیں دیا اور جواب دینے میں تاخیرکی۔

حقیقت یہ ہے کہ مرکزیہ سمجھنے میں بالکل ناکام  رہا ہے کہ کورونا کی دوسری لہر سے لڑنے کے لیے اسے ویکسین کی پیداواری صلاحیت کتنی بڑھانے کی ضرورت ہے، جبکہ اس وقت اور تیزی سے ٹیکہ کاری کی ضرورت ہے۔

یہ حالات اس لیےپیداہوئے ہیں کہ ویکسین کی پیداواراور اس کی فراہمی سے متعلق فیصلوں کی ذمہ داری کچھ بابوؤں کو سونپ دی گئی ہے۔ ایک طرف مودی کہتے ہیں کہ نوکرشاہوں کو بزنس نہیں چلانا چاہیے، وہیں دوسری طرف ویکسین کی پیداوار اور اس کے ڈسٹری بیوشن کا پورا سسٹم سینٹرلائز کر دیا گیا ہے۔

چونکہ صرف سرکار ہی ویکسین کی خریدار ہے، اس لیےیہ پیداواری صلاحیت کوبڑھانے کے فیصلے کو متاثر کرتا ہے۔ اگر سرکار نے قیمت کے تعین  اور غریبوں کو سبسڈی دینے کے اہتمام  کو چھوڑکر باقی سارا کام نجی سیکٹر کے لیے چھوڑ دیا ہوتا تو آج کے حالات کافی الگ ہوتے۔

آخر کیوں مودی سرکار ویکسین کی خریداری  کوسینٹرلائز کیے ہوئے ہے۔ جبکہ جب بھی کوئی غلطی ہوتی ہے تو اس کا قصورصوبوں  کے سر پر ڈال دیا جاتا ہے۔

مرکزی وزیر پرکاش جاویڈیکر نے کہا ہے کہ مرکزی حکومت صرف ویکسین کا اسٹاک کرتی ہے اور ضلع سطح پر اسے تقسیم کرنا ریاستوں کی ذمہ داری ہے۔ بالخصوص غیر بی جے پی مقتدرہ ریاستوں کو جواب دیتے ہوئے جاویڈیکر نے یہ تبصرہ  کیاتھا۔

تو کیا جاویڈیکر بی جے پی مقتدرہ  ریاستوں جیسے کہ اتر پردیش اور مدھیہ پردیش کو لےکر کوئی جواب دیں گے جہاں دیگر ریاستوں  کی طرح ہی ویکسین کی کمی ہو رہی ہے اور وہاں کے وزیر اعلیٰ  اس کے بارے میں بول نہیں رہے ہیں۔ مرکز کو قصوروارٹھہرانے کا یہ کھیل ختم کرنا چاہیے اور اسے اپنی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔

سرکار کا بنیادی طورطریقہ ہی غلط ہے۔ سرکاریں، چاہے مرکز ہوں یا ریاست، کبھی بھی ماہر خریدار اور ڈسٹری بیوٹر نہیں ہو سکتے ہیں، بالخصوص جب مرکز واحد خریدار ہے۔ یہ پرانےلائسنس راج کی طرح ہی ہے۔

صرف ویکسین بنانے والوں  اور ڈی سینٹرلائزنجی ڈسٹری بیوشن، جس میں بڑی کمپنیاں جیسے کہ فائزر، جانسن اینڈ جانسن اور سپتنک وغیرہ  شامل ہوں، کے بیچ مقابلہ  ہی اس کا راستہ نکال سکتی ہے، تبھی مرکز اور ریاستوں کے بیچ جاری الزام ترشیوں کا دور ختم ہوگا۔

ملک کی موجودہ کوروناصورتحال  کے لیے سب سے زیادہ وزیر اعظم  ذمہ دار ہیں۔ ویکسین اورویکسین کمپنیوں کی کمی کے بیچ ان کی جانب سے‘ٹیکہ اتسو’کی بات کیا جانا بالکل ڈھونگ ہے۔ یہ ایک خراب سرکاری پالیسی  کی مثال ہے۔

فائزر نے پچھلے سال دسمبر میں درخواست دی تھی، لیکن نوکرشاہوں کی جانب سے عجیب و غریب سوال کیے جانے پر وہ پیچھے ہٹ گئے۔ اسی طرح سپتنک اور جانسن اینڈ جانسن نے بھی کئی بار اتھارٹی کو خط لکھ کر ڈسٹری بیوشن کی  اجازت مانگی ہے۔

کوویکسین اور کووشیلڈ کو منظوری دینے سے پہلے جن سوالوں کو نظر انداز کیا گیا تھا، اب وہی سوال دیگرکمپنیوں سے پوچھے جا رہے ہیں۔ سرکاری بابو یہ سوچتے ہیں کہ وہ ویکسین پروڈکشن  اور اس کےڈسٹری بیوشن  کا بزنس چلا سکتے ہیں، تو سمجھیے کہ ہم اندھیرے میں ہیں۔

ہم اس کی اجازت نہیں دے سکتے ہیں کیونکہ لوگوں کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔ نوکرشاہوں کے ذریعے کی گئی غلطی کو سدھارنے میں سالوں لگ جائیں گے۔ اس لیے یہی وقت ہے کہ اب تک کی گئی غلطیوں کو سدھارنے کے لیے مودی اہم منصوبوں  کا اعلان  کریں۔

پچھلے سال لاک ڈاؤن کے اعلان کےوقت مودی نے بہت زیادہ جوش وخروش  دکھاتے ہوئے کہا تھا کہ جس طرح مہابھارت کی لڑائی 18 دن میں جیتی گئی تھی، اسی طرح ہم اس کو رونا کو جیت لیں گے۔ حالانکہ اس دعوے کا کیا ہوا، اب وہ صرف تاریخ ہے۔

اب اگر ہم بازار میں ویکسین دستیاب ہوتے ہوئے بھی اس لڑائی کو نہیں جیتتے ہیں تو سرکار کو اپنے آپ کو مورد الزام ٹھہرانے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں بچےگا۔

 (اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں)