ادبستان

رالف رسل کی یاد میں

رالف نے انگریزی دانوں کے درمیان اردو اور اپنے پسندیدہ شاعر غالب کو مقبول و معروف کرانے کاکام بھی اسی سنجیدگی سے عبادت کی طرح کیا۔ اردو کے ترویج کی ان کی کوششیں عملی ہیں— بحیثیت استاد بھی اور بہ حیثیت تنظیم کار بھی۔ غالب سے عشق ان متعدد کتابوں کی صورت میں ظاہر ہوا ہے جو انھوں نے وقتاً فوقتاً آکسفرڈ یونیورسٹی پریس اور دوسرے اشاعت گھروں سے شائع کرائی ہیں۔

رالف رسل، فوٹو بہ شکریہ: ارجمند آرا

رالف رسل، فوٹو بہ شکریہ: ارجمند آرا

بعض دفعہ کچھ ایسی عجیب و غریب باتیں واقع ہوتی ہیں کہ کٹر حقیقت پسندوں کو غیبی اشاروں پر یقین آنے لگے۔ لیکن میں اسے محض اتفاق کہہ کر خود کو سمجھا لیتی ہوں۔ آج ایک ایسا ہی عجیب اتفاق ساجھا کر رہی ہوں۔ آج صبح آنکھ کھلی تو دل بے چین اورذہن منتشر تھا۔

جب بھی ایسی کیفیت میں جاگتی ہوں تو اپنے پراگندہ ذہن کو پرسکون کرنے کے لیے فوری طور پر وہ خواب یاد کرنے کی کوشش کرتی ہوں جس سے بے چین ہو کر آنکھ کھلتی ہے۔ یہ خواب اکثر کام ادھورے رہ جانے سے متعلق ہوتے ہیں۔ اگر فوراً یاد نہ کروں تو وہ یاد بھی نہیں رہتے۔

بہرحال، یاد آیا کہ خواب میں رالف رسل پر کتاب مرتب کرنے کے لیے سناپسس بنا رہی تھی، اور یہ سوچ کر شرمندہ تھی کہ یہ کام تو میں اب سے دس سال پہلے کرنا چاہتی تھی لیکن ایمانداری کی بات یہ ہے کہ عملی طور پر اس کے لیے میں نے کوئی کوشش نہیں کی تھی۔

ذہن کے کسی گوشے میں پرانے کاٹھ کباڑ کی طرح زنگ کھاتا ہوا یہ خیال اب یوں اچانک ظاہر ہوا تھا۔ ذہن کی رو جب رالف رسل کی طرف مڑ گئی تو خیال آیا کہ ان کے انتقال کو تیرہ برس گزر چکے ہیں، اور پھر تاریخ پیدائش بھی یاد آئی۔ یا خدا! آج 21 مئی ہے۔ رالف رسل 21 مئی 1918کو پیدا ہوئے تھے—آج سے ٹھیک103سال پہلے۔

میں کسی کی تاریخِ پیدائش یاد نہیں رکھتی، اور نہ کسی کو سالگرہ کی مبارکباد دینے کا خیال ہی آتا ہے!اوریہ حضرت ہیں کہ ہڈیاں تک مٹی ہونے کے بعد عین اپنے یوم پیدائش پر صبح صبح وارد ہو گئے! خیر، جب آپ دراندازی کر ہی بیٹھے ہیں رالف رسل، تو آپ کی یاد میں سالنامہ درساتِ اردو (Annual of Urdu Studies) کے لیے لکھے  مضمون کو آپ کے مداحوں کے ساتھ ساجھا کرتی ہوں۔

یومِ پیدائش مبارک ہو رالف!

(ارجمند آرا)

رالف رسل سے میں پہلی بار دس برس قبل1998میں ملی تھی۔ لیکن اس ملاقات کو یک طرفہ ملاقات کہنا ہی زیادہ بہتر ہوگا۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے اسکول آف لنگویجز کے کمیٹی روم میں رالف کا لیکچر تھا — اردو کے بارے میں ان کے نجی تجربات حوالے سے۔ لیکچر کا اہتمام اطہر فاروقی کے توسط سے لٹریری کلب نے کیا تھا۔ رالف رسل تقریر کرنے کھڑے ہوئے تو انھوں نے پہلے ہی جملے میں اپنے کمیونسٹ ہونے کا اعلان کیااور کہا تھا اور ان کی گفتگو کے حوالے سے اس بات کو ذہن نشین رکھا جائے۔

اس کے بعد انھوں نے بڑی فصیح اردو میں ایک طویل لکچر دیا۔ میری طرح غالباً سبھی لوگ ’رالف رسل کیا کہہ رہے ہیں‘ سے زیادہ ’کیسی زبان میں کہہ رہے ہیں‘ کے سحر میں گرفتار تھے۔ صاف پتہ چل رہا تھا ہر شخص مرعوب ہے۔ پروگرام کے بعد ہر کوئی ان سے ملنا چاہتا تھا۔

(مجھے یاد ہے اس موقع پر ہمارے مرکز کے ایک استاد نے اپنی وہ کتاب بھی انھیں تبصرے کی درخواست کے ساتھ پیش کی تھی جو غیر اردو دانوں کو اردو سکھانے کے لیے تیار کی گئی تھی اور جس پر انھی دنوں پروفیسرچودھری محمد نعیم کا تبصرہ وسکانسن یونی ورسٹی کے ’سالنامہ دراساتِ اردو ‘میں اس کمنٹ کے ساتھ شائع ہوا تھا کہ یہ کتاب ان لوگوں کے لیے لکھی گئی ہے جو اردو نہیں جانتے لیکن اس کو صرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو اردو جانتے ہیں۔ لطف کی بات یہ تھی کہ یہ تبصرہ ان دنوں سینٹر میں ہر شخص کے لیے گفتگو کا موضوع بنا ہوا تھا ، ایسے میں زبان سکھانے والے کسی ماہر استاد کو کتاب پیش کرنا واقعی حوصلے کی بات تھی۔)

خیر،رالف رسل جیسے تیسے وہاں سے نکلے۔ دوپہر کے کھانے کا انتظام اَراوَلی گیسٹ ہاؤس میں تھا، وہاں پہلی مرتبہ رالف رسل سے باقاعدہ تعارف ہوا۔ انھوں نے بھی اخلاقاً میری تعلیم اور دلچسپیوں کے بارے میں ایک آدھ سوال کیا۔

کھانے کے بعد ہم لوگ صدر دروازے کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئے اور طالب علموں میں بائیں بازو کے نظریات کی اشاعت اور کیمپس کی سیاست پر باتیں کرنے لگے۔ چلتے وقت انھوں نے اپنی ڈائری میں پنسل سے میرا پتہ لکھا۔ ابھی میں پنسل کو دیکھ کر حیران ہی ہورہی تھی کہ انھوں نے وضاحت کی، ’لوگوں کے پتے میں پنسل سے لکھتا ہوں۔ بعدمیں جن سے رابطہ رہتا ہے ان کے پتے روشنائی سے لکھ لیتا ہوں، جن سے رابطہ نہیں رہتا ان کے پتے مٹا ڈالتا ہوں۔‘

لکچر سے لے کر اب تک ان کی شخصیت کے دو گوشے میرے سامنے نمایاں ہوچکے تھے۔ اول یہ کہ اپنے کمیونسٹ ہونے پر انھیں ناز ہے اور اس کا اعلان وہ بھری محفل میں بھی بلاجھجھک کر سکتے ہیں،بلکہ فخریہ کرتے ہیں، دوم یہ کہ وہ بہت ڈسپلن میں رہتے ہیں اور یہ ڈسپلن ان کی واضح فکر اورمعمولی سے معمولی بات پر سنجیدہ غوروفکر کا نتیجہ ہے۔

ہم جیسے بے ترتیب زندگی گزارنے والوں کے لیےیہ جاے حیرت تھی کہ پتہ لکھنے تک میں اتنا اہتمام برتا جائے۔ البتہ یہ تمام باتیں اُس وقت میرے ذہن میں نہیں آئیں بلکہ اس کے برعکس میں نے سوچا — ہوں!! تو یہ ہے ایک انگریز کی تنک مزاجی! یہ لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں۔

رالف رسل نے وعدہ کیا کہ وہ مجھے اپنی کتاب بھیجیں گے۔ میں نے ان کو خط لکھا اور انھوں نے مجھے اپنی کوئی کتاب بھیجی اوراس طرح مجھے پتہ چلا کہ میرا پتہ ان کی ڈائری میں پکی سیاہی والے پتوں میں شامل ہوگیا ہے۔ جب انھوں نے2002میں اپنی خودنوشت Finding Keepings: Life, Communism & Everything کی کاپی بھیجی، اس وقت تک میں ان کے ایک مضمون کا اردو ترجمہ کرچکی تھی جو ہندوستان میں اردو کی صورتِ حال کے بارے میں تھا۔

سوانح پڑھنی شروع کی تو اتنی دلچسپ لگی کہ میں نے سوچا اس کے کچھ صفحے اردو میں ترجمہ کرکے شائع کراؤں۔ چنانچہ پہلے باب کا ترجمہ کرنے سے خود کو نہ روک سکی اور یہ کام خوب دل لگا کر کیا۔ اگست کے مہینے میں میں نے ترجمے کا ایک پرنٹ آؤٹ ڈاک سے رالف رسل کو بھیجا اور ای میل سے ا ن کو اطلاع دے دی۔ چند دن کے بعد ان کا جواب آیا کہ ترجمہ مل گیا ہے لیکن آئندہ پندرہ دن تک نہیں پڑھوں گا کیونکہ فلاں فلاں کاموں میں مصروف ہوں۔

تیسرے دن پھر ایک ای میل آیا کہ لندن سے فلاں شہر جاتے ہوئے سفر کے دوران ترجمہ پڑھ ڈالا ہے۔ مجموعی طور پر انھوں نے ترجمہ بے حد پسند کیا اور تجویز رکھی کہ میں لندن میں رہ کرسوانح کا ترجمہ کرڈالوں۔ ظاہر ہے سفراور قیام کے اخراجات انھی کو برداشت کرنے تھے۔ جواباً میں نے لکھا کہ ترجمہ کرنے کے لیے ان کے ساتھ بیٹھنا بالکل ضروری نہیں ہے، بلکہ ہندوستان میں رہ کر یہ کام زیادہ بہتر طریقے سے ہوسکتا ہے۔ البتہ اتنا ضرور کیا جاسکتا ہے کہ کام مکمل ہونے کے بعد ساتھ ساتھ اس پر نظرثانی کرلی جائے۔ رالف کو تجویز پسند آئی اور میں نے ترجمہ کرنے کا وعدہ کرلیا۔

رالف رسل

انھی دنوں نومبر 2002میں مجھ کو دہلی یونیورسٹی میں ملازمت مل گئی تو نئی ذمہ داریوںمیں مصروف ہو جانے کی وجہ سے ترجمے کا کام ملتوی رہا لیکن2003کی موسم گرما کی تعطیلات میں میں نے اس کام کو نمٹایا اور2004 کی چھٹیوں میں لندن جا پہنچی۔تقریباً مہینہ بھر مجھے رالف رسل کے ساتھ رہنے اورانھیں سمجھنے کا موقع ملا۔ بلکہ یوں کہوں تو زیادہ بہتر ہوگا کہ ان کی شخصیت کو سمجھنے کا موقع تو سوانح پڑھنے سے ہی مل گیا تھا، ساتھ ساتھ کام کرنے سے قریبی مشاہدے اور اُن اوصاف کو پرکھنے کا موقع ملا جن کا تاثر سوانح پڑھ کر ملتا ہے۔

ویسے بھی رالف رسل کی شخصیت میں کوئی پیچیدگی نہیں۔ میں نے محسوس کیا کہ ان کا باطن آئینے کی طرح صاف ہے اور جس بات کو درست سمجھتے ہیں اسے بڑے پرزور انداز میں اور صاف گوئی کے ساتھ کہہ ڈالتے ہیں۔ یہ بات ان کی سوانح سے بھی مترشح تھی، ساتھ رہ کر اس کی توثیق ہوگئی۔

میں8جون کو لندن پہنچی تھی،9جون کو ہم نے ترجمے پر مشترکہ طور پر نظرثانی کا کام شروع کیا اور29 جون تک،21دن کی مدت میں تقریباً450صفحے کے اس مسودے کو پڑھ ڈالا، کمزور جملوں پر تبادلۂ خیال کیا، زبان درست کی اور کمپیوٹر پر اغلاط بنا کر اشاعت کے لیے اجمل کمال کے پاس کراچی بھیج دیا۔

اپنے اس قیام کی کچھ یادداشتیں میں نے ایک مضمون کی صورت میں لکھی ہیں جو رالف رسل کی سوانح کے اردو ترجمے ”جوئندہ یابندہ“ کے آخر میں شامل ہے، لیکن بہت سی اور بھی باتیں ہیں جو لکھی جاسکتی ہیں۔ مثلاً ایک دن رالف رسل نے مجھ سے پوچھا کہ میں نے ترجمہ کتنے دن میں مکمل کیااور میں کتنے گھنٹے روز کام کرتی تھی۔

میں نے حساب لگا کر بتایا کہ 2 مئی سے ڈھائی مہینے تک میں نے ہر روز کام کیا ہے اور اوسطاً چھے گھنٹے ہر دن کام کرتی تھی۔ چند دن کے بعد پھرکہنے لگے کہ تم نے اس سوانح کا ترجمہ کرکے مجھ پر جو احسان کیا ہے اس کا نہ تو شکریہ ادا کیا جا سکتا ہے اور نہ اس کا کوئی بدل ہے ۔ تم نے ترجمے پر ساڑھے سات سو گھنٹے صرف کیے ہیں۔ اپنی زندگی کے اتنے ہی گھنٹے میں تمہارے لیے وقف کرنے کو تیار ہوں۔ مجھ سے جو کام لینا چاہو لے سکتی ہو، جیسے اپنے مضامین ترجمہ کراسکتی ہو۔

مجھے ہنسی آگئی یہ رالف کا بڑا ٹیپکل انداز تھا کہ وہ کسی سچویشن کو جتنی شدت سے محسوس کرتے اس کو بیان کرنے پربھی اتنی ہی قدرت رکھتے تھے۔ میں نے کہا بھئی ترجمہ میں نے آپ پر احسان کرنے کے لیے نہیں کیا ہے، کتاب پسند آگئی تھی کردیا، آپ بالکل زیر بار محسوس نہ کریں۔ کہنے لگے، پھر بھی مجھے خوشی ہوگی اگر میں تمھارے لیے کام کرسکوں۔

ان کو میرا ایک مضمون بہت پسند آیا تھا جو ’کتاب نما‘ میں دہلی سے مہمان اداریے کے طور پر شائع ہوا تھا۔ کہنے لگے میں اس مضمون کا ترجمہ کروں گا۔ میں نے پھر کہا کہ بالکل ضرورت نہیں ہے،اس سے زیادہ ضروری کام یہ ہے کہ آپ اپنی سوانح کے بقیہ حصوں پر کام کرتے رہیں۔ ان کے خلوص کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے اس کے بعد بھی کئی بار اصرار کیا لیکن میں نے ہر بار انکار کردیا۔ مجھے یہ گوارا نہ تھا کہ 86برس کی عمر میں وہ ان کاموں کو وقت دیں جو ان کی پلاننگ میں پہلے سے شامل نہیں ہیں۔

پلاننگ پر یاد آیا کہ رالف رسل نے ہمیشہ بڑی منضبط زندگی گزاری۔ ان کی زندگی کے کچھ معمولات ایسے رہے کہ نوے برس کی عمر تک ان میں سرمو فرق نہیں آیا ۔ ان میں سے ایک معمول جرنل لکھنے کا ہے یعنی ڈائری نویسی کا۔ آخری چند برسوں میں وہ ہفتے بھرکی (یا کبھی پندرہ دن کی) روداد اپنے چند عزیزوں اور دوستوں کو ای میل کے ذریعے بھیجتے رہے۔

(ڈائری وہ بول کر ٹائپ کراتے تھے ۔ ایک جرمن خاتون اُرسلا برگ ہاؤز ہفتے میں دوبار اس کام کے لیے آتی تھیں)۔ اس روداد میں ان کی صحت کا احوال تفصیل کے ساتھ درج ہوتا تھا۔ مثلاً کس دن طبیعت غیرمعمولی طور پر اچھی یا بری محسوس ہوئی، ڈاکٹر سے ملاقات کیسی رہی، بابوش کے ساتھ وقت کیسا گزرا (بابوش وہ نرس ہے جو اُن کی دیکھ بھال کے روزانہ چندگھنٹے کے لیے آتاتھا)، کس ہفتے کون سی کتاب پڑھی، کتاب کیسی لگی، کون کون لوگ ملنے آئے،(نئے ملنے والوں کا تعارف بھی جرنل میں شامل ہوتا تھا)، وہ خود کہاں کہاں گئے، بازار سے کیا خریدا، کون سے پارک کی سیر کی، ویک اینڈ کیسا گزرا،وغیرہ وغیرہ۔

اپنے حالات اور گردوپیش کے بارے میں لکھنا انھوں نے چوبیس برس کی عمر میں اس وقت شروع کیا تھا جب وہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران لازمی فوجی خدمت پر ہندوستان بھیجے گئے تھے۔ 1939میں جب جنگ چھڑی تو رالف رسل بی اے کے طالبِ علم تھے ۔1940میں تعلیم مکمل ہوتے ہی انھیں فوجی ٹریننگ پر بھیج دیا گیا تھااور مارچ 1942میں ہندوستان کے محاذ پر۔

پوسٹنگ آسام میں ہوئی تھی اور محاذ پر سے وہ اپنے عزیزوں کو پابندی سے خط بھیجتے اور کوشش کرتے تھے کہ یہاں کا احوال بالتفصیل لکھیں، احوال لکھنے کا یہی شوق عادت میں بدل گیا اور اگست1945جب وہ برطانیہ لوٹے تو باقاعدہ ڈائری لکھنے لگے۔ یہ عادت آخرِ عمر تک برقرار رہی۔ انھوں نے بتایا تھا کہ اسی ڈائری کی وجہ سے وہ اپنی سوانح اتنی تفصیل کے ساتھ اور اتنے مربوط انداز میں لکھنے میں کامیاب ہوسکے۔

رالف کے ہاں قیام کے دوران ہماری گفتگو کا موضوع عام طور پررالف کے حالاتِ زندگی، ہندستان میں ان کے تجربات وغیرہ ہوتے۔ اردو کے معروف لوگ جو ان کے رابطے میں رہے، رالف ان کے بارے میں بتاتے ، ان میں سے اکثر باتیں بڑی دلچسپ ہوتیں۔ ک

بھی کبھی ہندستان کی سیاسی صورتِ حال، کمیونسٹ پارٹی اور جے این یو میں طلبہ کی سیاسی سرگرمیاں، سیاست سے میری وابستگی وغیرہ پر بھی بات ہوتی۔ صبح سے دوپہر تک ہم لوگ ترجمے پر کام کرتے۔ لنچ کے بعد ہم لوگ عموماً چھوٹا سا بریک لیتے تھے اور جلد ہی دوبارہ کام کرنے بیٹھ جاتے۔

بعض دفعہ جب کام کو جی نہ چاہتا تو رالف کہتے، ’میں اب قیلولہ فرماؤں گا۔‘ ایسا وہ طنزاً کہتے تھے کیونکہ’فرمانا‘جیسے لفظوں کے استعمال کو وہ معیوب سمجھتے تھے۔ کبھی کبھی وہ اپنے چھوٹے موٹے لیکن ضروری کام کرنا چاہتے تو کہتے تھے، ‘Now I’ll do my little fat works.’ (چھوٹے موٹے کاموں کا لفظی ترجمہ رالف نے یہی کر رکھا تھا)۔

رالف کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ جس شخص سے بھی ملتے اسے شخصی طور پر سمجھنے کی پوری کوشش کرتے تھے اور اس کے پس منظرکو بھی۔ انھوں نے مجھ سے بھی میرے حالات معلوم کیے، میرے وطن سکندرآباد کے بارے میں پوچھا، دہلی سے کتنی دور ہے، کس سمت میں، کتنی آبادی ہے، مسلمان اور ہندو آبادی کا تناسب کیا ہے، دونوں فرقوں کے آپسی رشتے کیسے ہیں، معاشی اور تعلیمی صورت حال کیا ہے، میرے خاندان میں کون کون لوگ ہیں،ان کاذریعہ معاش کیا ہے، لڑکی ہوکر ایک چھوٹے سے قصبے میں کیوں کر اپنی تعلیم جاری رکھ سکی، وغیرہ وغیرہ۔

میں نے ان کے سب سوالوں کا جواب (جو غالباً تسلی بخش ہی ہوگا)دیا۔ اس میں سے انھوں نے بہت سی باتیں اپنے روز نامچے میں درج کرلیں۔

رالف کے گھر میں قیام کے دوران میں نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ بحیثیت استاد رالف رسل نے کس قدر سنجیدگی اور دل چسپی سے اپنی ذمہ داریاں نباہی ہوں گی۔ میں نے دیکھا کہ ان کے پاس آڈیو کیسٹس کا ایک بڑا ذخیرہ ہے جس میں وہ تمام مواد ریکارڈ ہے جس کی مدد سے وہ سوایس(School of Oriental and African Studies)میں اپنے طالبِ علموں کو اردو سننے، سمجھنے اور بولنے کی مشق کراتے تھے۔

زبان دانی کے مختلف سطح کے کورسوں کے لیے الگ الگ ٹیپ ہیں جن کا ایک باقاعدہ کیٹلاگ بنا رکھے تھے۔ اس تدریسی مواد میں فیض احمد فیض، ظ انصاری اور شفیع الدین نیر اور صوفی تبسم وغیرہ کے وہ انٹرویوز بھی شامل ہیں جو رالف نے سوایس کی لینگویج لیب میں خود ریکارڈ کیے تھے۔

فیض کا انٹرویو عبادت بریلوی نے لیا تھا۔ اس کے علاوہ غالب، میر، سودا وغیرہ کا کلام تحت الفظ اور ترنم میں رکارڈ کیا ہوا ہے۔ اس میں غزلوں کے علاوہ مثنویاں اور مرثیے بھی شامل ہیں؛ افسانوں اور ناولوں کے اقتباسات کے ریکارڈ ہیں؛ہندستان پاکستان کے دیہات، قصبوں، شہروں کے طرزِ معاشرت پر، فرقہ وارانہ فسادات، مذاہب و عقائد، موسیقی اور دیگر بہت سے موضوعات پر گفتگو اور انٹرویوز شامل ہیں۔

یہ سب اچھے اردو دانوں اور معروف اساتذہ کی آوازوں میں ہے، مثلاً چودھری محمد نعیم، خالد حسن قادری، خورشید الاسلام اور عبادت بریلوی وغیرہ۔ آڈیو کیسٹس کی یہ اہم لائبریری رالف کی زندگی بھر کی لگن، محنت اور ایک فرض شناس استادکے غوروفکر کے ساتھ مسلسل کام کرنے کی عادت اور تعلیمی معیار کوبہتر سے بہتر بنانے کی کوششوں کا منھ بولتا ثبوت ہے۔

سوانح پر نظرِ ثانی کا طریقہ ہم نے یہ اختیار کیا تھا کہ میں اردو متن پڑھتی جاتی تھی اور رالف انگریزی متن دیکھتے جاتے تھے، جہاں ترجمہ درست نہ لگتا یا کمزور لگتا اس کو ٹھیک کرتے تھے۔ جس میز پر یہ کام کرتے تھے اس کے سامنے بڑی سی کھڑکی تھی جو سڑک کی جانب کھلتی تھی۔

ایک دن ہم بیٹھے ہوئے اسی طرح کام کر رہے تھے، میں کسی جملے کو نئے سرے سے ترتیب دینے میں مصروف تھی اور رالف غالباً سڑک کی طرف دیکھ رہے تھے کہ اچانک بول اٹھے، ’ اوہ ہو ہو پریاں ننھی پری!‘ میں نے جلدی سے نظر اٹھائی۔ سڑک پر سے چھوٹی چھوٹی بچیاں اسکول کی سفید یونیفارم میں ملبوس گزر رہی تھیں۔

ان کے پیچھے پیچھے قبول صورت سی ایک عورت بھی تھی جو غالباً اسکول کی آیا رہی ہوگی اور بچیوں کو ان کے گھر سے لانے لے جانے کا کام کرتی ہوگی۔ میں نے مسکراکر پوچھا، کیا وہ آپ کو بہت خوبصورت لگی؟ کہنے لگے ، ’وہ تو بے جان تھی۔ میں تو سفید لباس والی پریوں کی بات کر رہا ہوں۔ چھوٹی پریوں کی۔‘

مجھے لفظ ’بے جان‘ پر بہت ہنسی آئی تو انھوں نے وضاحت کی کہ خورشید الاسلام نے خوبصورتی اور کشش کے اعتبار سے عورتوں کو تین زمروں میں تقسیم کررکھا تھا: جان، نیم جان اور بے جان۔ جب رالف نے ماسکو میں اپنے ایک دوست حبیب الرحمن کویہ زمرے بتائے تو انھوں نے برجستہ کہا، ’اس میں ایک اور زمرے کا اضافہ کرلو— اماں جان‘۔

ہر بدھ کی شام آٹھ بجے رالف کے پاس کچھ طالبِ علم اردو سیکھنے آتے تھے اور ہر دوسری جمعرات کی شام کو ہندی سیکھنے۔ یہ لوگ یہ زبانیں بولنے کی مشق کے لیے آتے تھے۔ ان میں سے کچھ طالبِ علم انگریز ہوتے توکچھ کا تعلق یوروپی ممالک مثلاً جرمنی وغیرہ سے ہوتا۔

بولنے کی مشق کی یہ کلاسیں بھی خاصی دلچسپ ہوتی تھیں اور ان سے مجھے یہ بھی پتہ چلا کہ یوروپی لوگوں کو دقت ش ق کی درست ادائیگی میں نہیں بلکہ’ ب‘ اور ’بھ‘،’ ک‘ اور ’کھ‘ جیسی آوازوں کے درمیان تفریق میں اور ان کو واضح طور پر ادا کرنے میں ہوتی ہے۔

رالف نہایت شستہ اردو بولتے تھے لیکن اردو بولنے کی مشق کے زیادہ مواقع نہ ملنے کے سبب ان کو بھی تلفظ کی ایسی ہی دقتیں پیش آنے لگی تھیں جو ان کے شاگردوں کو لاحق تھیں۔ مثلاً ایک دن وہ اپنی دوست میرین مولٹینو کی عیادت کرکے لوٹے (جن کے پتّے کا آپریشن ہوا تھا) تو مجھے بتانے لگے کے اسپتال میں میرین کے برابر والے بستر پر جو عورت لیٹی تھی اس نے میرین کو بتایا کہ آپریشن کے بعد اس کے جسم میں ایسے درد ہو رہا ہے گویا کسی گورے نے زور سے لات ماری ہو۔

یہ واقعہ سنا کر رالف خود ہی دیر تک ہنستے رہے اور مجھے بھی اس عورت کی گفتگو کے اس عجیب و غریب اندازپر حیرت بھی ہوئی اور ہنسی بھی آئی۔ مجھے لگا کہ سابق کالونیوں کے کچھ لوگ شاید اب بھی انگریزوں سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ شام کو جب اردو کی مشق والی کلاس شروع ہوئی تو رالف نے اپنے ایک شاگرد ڈیوڈ پیج کو ( جو بی بی سی ورلڈ سروس کے انچارج رہ چکے ہیں، اور رٹائرمنٹ کے بعد اردو بولنے کی مشق کر رہے تھے)یہی واقعہ اردو میں ایک مرتبہ پھر سنایا۔

اب مجھ سے نہ رہا گیا اور میں پوچھ بیٹھی، ”رالف! کیا وہ عورت افریقی نسل کی کالی عورت تھی؟“ اب حیرت زدہ ہونے کی باری رالف کی تھی، ”کیا مطلب؟“ انھوں نے پوچھا۔ میں نے وضاحت کی، ”اگر وہ کالوں کی کسی نسل سے تعلق نہیں رکھتی تھی تو پھر گوروں کا ذکر اتنی نفرت سے کیوں کر رہی تھی!“ اب جاکر رالف کی سمجھ میں میری بات آئی اور انھوں نے پوری احتیاط سے لفظوں کو ادا کرتے ہوئے کہا، ”اچھا تو میں نے ’گورا ‘کہا ہے! لیکن میری مراد تو ’گھوڑے‘سے تھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب مجھے درست تلفظ کی مشق نہیں رہی۔“اس واقعے پر وہ خاصے محظوظ ہوئے اور کئی دوستوں سے اس کا ذکر کیا۔

رالف رسل کی زندگی کے بہت سے دلچسپ واقعات یہاں درج کیے جاسکتے ہیں جو انھوں نے سنائے،لیکن ظاہر ہے ان میں سے اکثر واقعات ان کی سوانح کا بھی حصہ ہیں، اس لیے ان کو دوہرانے کی ضرورت نہیں۔ ایک دو دلچسپ واقعات کا ذکر کرکے میں اپنی بات ختم کروں گی۔

ایک دن معروف تاریخی ناول نگار ولیم ڈیلرمپل نے مجھے اور رالف رسل کو لنچ پر مدعو کیا۔ یہ غالباً7جون کی بات ہے،8 جون کو مجھے ہندستان واپس لوٹنا تھا۔ میں نے ولیم کے لیے کچھ ترجمہ کیا تھا جس کا پے منٹ بھی انھیں کرنا تھا۔ طے یہ ہوا کہ وہ رالف رسل کے نام چیک کاٹ دیں گے اور رالف اتنی ہی رقم مجھے نقد ادا کردیں گے۔

واپسی میں ہم جب کلپہم جنکشن پر اترے تو بنک بند ہونے میں تھوڑی ہی دیر تھی۔ رالف نے کہا میں دوڑ کر بنک جاتا ہوں تم آرام سے گھر پہنچو۔ میں نے کہا میں بھی ساتھ ساتھ چلتی ہوں۔ لیکن میں یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ میرے تیز تیز قدموں سے چلنے کے باوجود رالف مجھ سے بہت آگے نکل گئے اور اپنے بنک کی طرف مڑ گئے۔ اس وقت ان کی عمر86 سال تھی اور میں ان سے عمر میں51 برس چھوٹی۔ اس عمر میں بھی ان میں بلا کی انرجی تھی۔

وہ اپنے سارے کام خود کرتے تھے اورکام کرتے ہوئے ان کے لبوں پر کسی نہ کسی نغمے کی دھن رہتی تھی۔ ان کو گیت گانا، سیٹی بجانا اور دوڑنا بہت پسند تھا۔ ایک دن ہم ASDA یا Marks and Spencer سے کھانا لے کر لوٹ رہے تھے کہ اچانک بارش ہونے لگی۔ میں نے جلدی جلدی قدم اٹھانے شروع کیے تو رالف بولے، اگر تمہارا دل چاہتا ہے تو دوڑو۔ میں ہنسنے لگی۔ میں کوئی بچہ ہوں جو بارش میں بھیگتے ہوئے دوڑوں گی۔

اس پر انھوں نے اپنے علی گڑھ کے قیام کا ایک واقعہ سنایا ۔ کہنے لگے کہ میری یہ عادت تھی کہ چلتے ہوئے اگر میں یہ محسوس کرتا کہ جلدی کرنی چاہیے تو میں سڑک پر دوڑنا شروع کردیتا تھا۔ اور اکثر چلتے ہوئے سیٹی بجاتا تھا۔ علی گڑھ میں بھی میں ایسا ہی کرتا تھا۔ ایک دن میرے دوست اسرار نے ٹوکا، ’سنو، رالف! یہاں کوئی شریف آدمی نہیں دوڑتا اور کوئی شریف آدمی سیٹی نہیں بجاتا۔‘ میں نے کہا اچھی بات ہے، اگر ایسا ہے تو میں فوراً دوڑنا اور سیٹی بجانا چھوڑ دوں گا۔ یہ واقعہ سنا کر رالف خوب ہنسے۔

اس طرح کے بہت سے واقعات اور لطیفے رالف رسل کو یاد تھے، جو وہ بے تکلف سناتے اور خوب ہنستے تھے۔ ان میں سے بہت سے انھوں نے اپنے مضامین میں لکھے بھی ہیں جو Annual of Urdu Studiesمیں ’شادم از زندگیِ خویش‘ (سوانحی مضامین کا سلسلہ)میں شائع ہوئے ہیں۔ زندہ دلی ان کی رگ رگ میں سمائی تھی۔

لیکن یہ ان کی زندگی کا صرف ایک پہلو ہے، اگر آپ ان کی سوانح پڑھیں تو اندازہ ہوگا کہ یہ زندہ دلی ، زندگی کے تئیں ان کے بے حد سنجیدہ رویے اور کچھ اصولوں کے ساتھ مربوط تھی۔ اپنے اصولوں کی قیمت پر انھوں نے کبھی مفاہمت نہیں کی۔ زندگی کرنے کا ان کا ایک نظریہ تھا، اور اپنا یہ موقف انھوں نے پندرہ سے سترہ برس کی عمر کے دوران طے کرلیا تھا۔ عمر کے پختہ ہونے کے ساتھ اپنے نصب العین پر ان کا یقین مستحکم ہوتا گیا اور وہ ہمیشہ اس پر کاربند رہے۔

یہ موقف انسانیت پر اعتماد اور انسان دوستی کا ہے جس نے انھیں اشتراکیت کی راہ پر ڈالا۔ سچی انسانی قدروں پر اس اعتماد نے ہی ان کو ہندستان کی آزادی کی تحریک کا نہ صرف حامی بنایا بلکہ ان کو یہ سوچنے کی صلاحیت دی کہ آزاد ہندستان میں عام آدمی، سپاہی،کسان اور مزدور کا کیا رول ہونا چاہیے۔ رالف رسل ویسے تو برطانوی فوجی افسر تھے لیکن ان معاملات پر ہمیشہ غور کرتے رہتے تھے، جب جب موقع ملتا ہندستانی کمیونسٹوں سے ملنے اور ان کا موقف جاننے کی کوشش کرتے، اپنے خیالات سے ان کو آگاہ کراتے اور اپنی تجاویز لکھ لکھ کر دیتے تھے۔

ایک سچے تنظیم کار کی طرح انھوں نے اپنے فوجی یونٹ کے سپاہیوں میں آزادی کے لیے بیداری لانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ یہ ایک بے حد پرخطر کام تھا۔ پتہ لگنے یا جاسوسی کی صورت میں ان کو غدار قرار دیا جاسکتا تھا، لیکن وہ جتنے دن ہندستان میں رہے بے حد محتاط انداز میں سپاہیوں کے درمیان کام کرتے رہے۔ ان کو یقین تھا کہ فوج سے واپس لوٹنے کے بعد ان کے یونٹ کے کچھ نہ کچھ سپاہی ضرور اپنے لوگوں کے لیے سیاسی کام کریں گے۔

1946میں برطانیہ واپس لوٹنے کے بعد رالف رسل نے لندن یونیورسٹی کے سوایس (School of Oriental and African Studies) میں تین سال تک اردو پڑھی اور سیاسی کام بھی کیا، پھرسوایس ہی میں اردو کے استاد مقرر ہوگئے۔ لیکن اپنا عہدہ سنبھالنے سے پہلے وہ ایک سال کی تعلیمی رخصت لے کر اردو دانوں کے ساتھ رہ کر اردو پڑھنے کے لیے علی گڑھ آئے۔ اس قیام کے دوران اردو کی دنیا سے ان کا جو رشتہ قائم ہوا وہ زندگی بھر کے لیے تھا۔ اپنی زندگی کی تین اہم منازل کا ذکر کرتے ہوئے رالف رسل نے اپنی سوانح کے چودھویں باب میں لکھا ہے:

میری زندگی کے تین مرکزی پہلو ہیں—اُن بنیادی اقدار کے تئیں میری وفاداری جنھوں نے مجھے کمیونسٹ بنایا، اردو کا مطالعہ اور سچی انسانیت کی بنیادی خصوصیت کے طور پر محبت کے جذبے کا عرفان۔ (اردو شاعری کے مطالعے نے اس احساس کو واضح کرنے میں مدد کی کہ انسان بننے کے لیے محبت کرنا بنیادی طور پر لازمی ہے اور یہ کہ ایک معنی میں یہ بات غیراہم ہے کہ آپ کس سے محبت کرتے ہیں اور اس کے اظہار کے کتنے مواقع آپ کو ملے ہیں؛ بنیادی بات تو محبت کرنا ہے)۔

میرے بیشتر احباب اور رفقاے کار کا واسطہ میری زندگی کے کسی ایک ہی پہلو (یا زیادہ سے زیادہ دو پہلوؤں)سے پڑا ہے۔ ان میں سے کوئی کتنا ہی قریبی کیوں نہ ہو، میرے کمیونسٹ دوست میرے اردو کے کام کے بارے میں تقریباً کچھ بھی نہیں جانتے اور نہ ہی انھیں اس کو جاننے میں مطلق کوئی دلچسپی ہوگی؛ میرے رفقاے اردو کے حلقے میں یہ بات بمشکل ہی کسی کے ذہن میں آتی ہے کہ میں کمیونسٹ ہوں۔

رالف نے انگریزی دانوں کے درمیان اردو اور اپنے پسندیدہ شاعر غالب کو مقبول و معروف کرانے کاکام بھی اسی سنجیدگی سے عبادت کی طرح کیا۔ اردو کے ترویج کی ان کی کوششیں عملی ہیں— بحیثیت استاد بھی اور بہ حیثیت تنظیم کار بھی۔ غالب سے عشق ان متعدد کتابوں کی صورت میں ظاہر ہوا ہے جو انھوں نے وقتاً فوقتاً آکسفرڈ یونیورسٹی پریس اور دوسرے اشاعت گھروں سے شائع کرائی ہیں۔

ان کی کم از کم چھ کتابیں غالب پر ہیں، جن میں اردو اور فارسی شاعری اور خطوط کے ترجمے بھی شامل ہیں،غالب کی سوانح بھی اور تنقیدی مضامین بھی۔ بیسویں صدی میں عالمی پیمانے پر غالب کو اس کا مقام دلانے میں رالف رسل کی کاوشوں کو نمایاں مقام حاصل ہے۔

ralph

اس کے علاوہ میر، سودا اور میر حسن پر ان کی مشہور زمانہ کتاب Three Mughal Poets نے، جو انھوں نے خورشیدالاسلام کے اشتراک سے لکھی، لیجنڈ کی سی حیثیت حاصل کرلی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اردو دنیا کے لیے ان کا مقام اردو کے ایک پرستاراورمترجم کا ہے لیکن رالف رسل کو قریب سے جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ ان کی زندگی کا محض ایک پہلو ہے، جو بے شک اہم پہلو ہے، لیکن بہ حیثیت انسان ان کی زندگی اور زندگی کے تئیں ان کے رویے بھی زیادہ نہیں تویکساں طور پر قابلِ قدر ہیں۔

لند ن سے لوٹنے کے بعد ہم لوگوں کا رابطہ بذریعہ ای میل قائم رہا۔ انھوں نے مجھ کو اپنے ان قریبی دوستوں کی فہرست میں شامل کرلیا تھا جن کو وہ اپنی جرنل بھیجتے تھے۔ اس سے ان کے معمولات اور سرگرمیوں کا علم ہوتا رہتا تھا۔ اس کے بعد ان کے ساتھ ای میل پر ہمیشہ رابطہ رہا۔ میری طرف سے لکھنے میں کوتاہی ہوتی تو وہ ہمیشہ متفکر ہوجاتے اور ان کا ای میل آتا تھا کہ صرف خیریت کی اطلاع دے دوں، تفصیلی خط بعد میں لکھتی رہوں۔ اپنے6 مئی 2008 کے جرنل میں رالف نے لکھا تھا کہ  30اپریل کو چیک اپ کے بعد ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ کینسر پھیلنا شروع ہو گیا ہے،اور اس کے پھیلنے کی رفتار کو تھوڑا بہت کنٹرول تو کیا جاسکتا ہے لیکن روکا نہیں جاسکتا۔

یہ اطلاع ان کے لیے حیران کن تھی— غالباً اس لیے بھی کہ عمومی طور پر ان کی صحت کافی عمدہ تھی۔ وہ تنہا رہتے تھے اور اپنے تمام خود کرنے کے عادی تھے۔ ڈاکٹر کے ہاں ان کی شاگرد اور دوست میرئن مولٹینو ساتھ گئی تھیں۔ ان کو رالف کی صحت کا زیادہ اندازہ تھا، اس لیے ڈاکٹر کی اطلاع پر انھیں زیادہ حیرت نہیں ہوئی۔

بہر حال ان دونوں نے ڈاکٹر سے بہ اصرار پوچھا کہ ان کوبتایا جائے کہ اب ان کے پاس کتنا وقت ہے۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ زیادہ سے زیادہ چھ سے آٹھ مہینے کی مہلت ملے گی۔ اس خبر کو سننے کے بعد رالف نے اپنے قریبی دوستوں کو یہ تمام حالات لکھ دیے تھے اور اپنے اھورے کاموں کو زیادہ تنظیم کے ساتھ نمٹانا شروع کردیا تھا۔

انتقال سے کوئی ایک مہینہ پہلے ان کے ای میل آنا بند ہوگئے تھے۔ آخری ای میل21 اگست کو آیا تھا جس میں انھوں نے اطلاع دی تھی کہ وہ اپنی سوانح کی دوسری جلد کے صفحات فائنل کرنے کا کام کررہے ہیں، اسی دن انھوں نے اپنے جرنل یعنی ڈائری کی آخری قسط بھی بھیجی تھی۔11 ستمبر کو ان کے بیٹے ای ان کے ای میل سے اطلاع ملی تھی4 ستمبر کو ان کو اسپتال میں داخل کیا گیا تھا، اور چیک اپ کے بعد پتہ چلا کہ ان کا کینسر جگر تک پھیل گیا ہے —اور جیسا کہ ڈاکٹروں کا اندازہ تھا، رالف رسل ٹھیک ساڑھے چار مہینے بعد14 ستمبر کو چل بسے۔

ان کی صحت کے بارے میں ان کے دوستوں کو ای میل کے ذریعے باخبر رکھنے کی ذمo داری ان کے بیٹے ای اَن نے لے لی تھی۔انھوں نے ہی آخری رسوم کی تیاریوں سے متعلق ہر فیصلے سے ہمیں باخبر رکھا۔ رالف رسل کی آخری رسوم 22 ستمبر2008 کودوپہر دو بجے ٹوٹنگ کے لمبتھ کریموٹوریم میں اداکی گئیں۔ عیسائی طریقے سے تدفین میں غالباً ان کی کوئی دل چسپی نہ تھی۔رالف کی پسند اور مزاج کے مطابق ان کے بچوں نے ان کے جنازے کے ساتھ ان کا پسندیدہ نغمہ I’m Against Itگانے کا اہتمام کیاتھا۔ گیت کا پہلا بند اس طرح ہے:

I don’t know what they have to say

It makes no difference anyway

Whatever it is, I’m against it

No matter what it is or who commenced it

I’m against it

یہ گیت رالف نے مارکس بردرز کی فلم Horse Featherسے سیکھا تھا۔ان کے بیٹے ای ان نے نغمے کے بول اور دھن رالف کے بیشتر دوستوں کو ای میل کے ذریعے بھیج دی تھی، جبکہ رالف کے چند موسیقار دوستوں اور بیٹے نے گانا اٹھانے کی ذمہ داری لی تھی تاکہ جنازے میں شامل سب لوگ آسانی سے گا سکیں۔ رالف طبعاً زندہ دل اور خوش مزاج تھے اور اپنے روز مرہ کے کام نمٹاتے ہوئے ہمیشہ کچھ نہ کچھ گنگناتے رہتے یا سیٹی میں دھنیں بجاتے رہتے تھے۔

کمیونزم کی طرح گانے کی یہ عادت ان کوکم عمری میں پڑ گئی تھی اور آخر تک ان کے ساتھ رہی۔انتقال سے ایک دن پہلے انھوں نے ای ان سے کہا تھا کہ بولنے کے مقابلے میں میرے لیے گانا زیادہ آسان ہے۔ گانے کے ساتھ ان کی طبعی مناسبت اور دلچسپی کے مد نظر ان کے دوستوں اور بچوں نے رالف کو الوداع کہنے کا جو طریقہ اختیار کیا اس سے بہتر کوئی اور طریقہ اختیار کرناممکن نہ ہوسکتاتھا۔

(ارجمند آرا دہلی یونیورسٹی میں اردو زبان و ادب کی پروفیسر ہیں اور شوقیہ مترجم ہیں۔)