خبریں

پیگاسس ٹارگیٹ کی فہرست میں تھے بی جے پی کے وزیر اشونی ویشنو اور پرہلاد پٹیل

پیگاسس پروجیکٹ: سرولانس کی فہرست میں وشو ہندو پریشدرہنما پروین تو گڑیا،مرکزی وزیراسمرتی ایرانی کےسابق  اوایس ڈی اور راجستھان کی سابق وزیر اعلیٰ  وسندھرا راجے کے پرسنل سکریٹری  کا نمبر بھی ملا ہے۔

(بائیں)وزیر اعظم  نریندر مودی کے ساتھ اشونی ویشنو اور پرہلاد پٹیل۔ (فوٹوبہ شکریہ: پی آئی بی)

(بائیں)وزیر اعظم  نریندر مودی کے ساتھ اشونی ویشنو اور پرہلاد پٹیل۔ (فوٹوبہ شکریہ: پی آئی بی)

نئی دہلی:وزیراعظم نریندرمودی کے ذریعےکابینہ کے حالیہ پھیر بدل میں کمیونی کیشن، الکٹرانکس اینڈ انفارمیشن ٹکنالوجی اور ریلوے کے وزیر بنائے گئے اشونی ویشنواوروزارت جل شکتی کے وزیرمملکت بنائے گئے پرہلاد سنگھ پٹیل کےفون نمبر ان 300 مصدقہ ہندوستانی فون نمبروں کی فہرست میں شامل ہیں،جنہیں2017-19 کے بیچ اسرائیل کے این ایس او گروپ کے ایک کلائنٹ کے ذریعے ممکنہ  نشانوں کی فہرست میں رکھا گیا تھا۔ یہ بات دی  وائر کی تفتیش  میں سامنے آئی ہے۔

اس فہرست میں راجستھان کی سابق وزیر اعلیٰ  وسندھرا راجے سندھیا کے پرسنل سکریٹری اور اسمرتی ایرانی کے مودی سرکار میں بطورمرکزی وزیر پہلےسال ان کے آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی(اوایس ڈی)کےطور پر کام کرنے والے سنجے کچرو بھی شامل ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی سے جڑے ایک دیگرجونیئروزیر اور وشو ہندو پریشد(وی ایچ پی)کے رہنما اور مودی کے پرانے مخالف پروین تو گڑیا کا نام بھی اس ڈیٹابیس میں شامل ہے۔

مدھیہ پردیش کے دموہ سے رکن پارلیامان پٹیل کو کابینہ وزیر گجیندر سنگھ شیکھاوت کے ماتحت وزارت جل شکتی  میں سیاحت اور ثقافتی وزارت سےمنتقل کیا گیا ہے، جہاں وہ  آزادانہ ذمہ داری سنبھال رہے تھے۔

اڑیسہ کیڈر کے انڈین ایڈمنسٹریشن سروس کےسابق افسراور راجیہ سبھا ایم پی  ویشنو کو تین بےحد اہم وزارت سونپے گئے اور ان کی تقرری کی  کافی تشہیر کی گئی۔

ایسا معلوم پڑتا ہےکہ 2017 میں انہیں جاسوسی کے لیے نشانہ بنایا گیا، جب انہوں نے بی جے پی کا دامن نہیں تھاما تھا۔ ایک دوسرا نمبرجو شاید ان کی بیوی  کے نام پر درج ہے، بھی چنے گئے نمبروں میں شامل ہے۔

ان ریکارڈوں کو پیرس واقع غیرمنافع بخش میڈیاادارےفاربڈین اسٹوریز اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حاصل کیا ہے اور دی وائر سمیت دنیا بھر کے 16دیگر نیوزاداروں کےساتھ اسے ایک چھ مہینے سے زیادہ وقت سے چل رہی مشترکہ تفتیش  اور رپورٹنگ پروجیکٹ کے حصہ کے طور پر ساجھا کیا۔

ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے میڈیااداروں نے اپنی فہرست کے لوگوں کی پہچان کی تصدیق  کی ہے، جس کے بعد اس فہرست سے لیے گئے کئی فون پر فارنسک ٹیسٹ کیے گئے۔اس عمل کو انجام دینے والے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکیورٹی لیب نے کم از کم37 فون میں پیگاسس اسپائی ویئر ہونے کی تصدیق کی ہے، جن میں سے 10ہندوستان میں ہیں۔

پچھلے ہفتے ویشنو کی وزارت نے پیگاسس پروجیکٹ کے میڈیا کنسورٹیم کو جواب دیتے ہوئے کسی بھی شخص کی جاسوسی سے انکار کیا۔ ویشنو کو لیک ڈیٹابیس میں ان کے نام کے ہونے کے بارے میں بھی جانکاری دی گئی تھی، لیکن انہوں نے اب تک اس پر کوئی تبصرہ  یاردعمل نہیں دیاہے۔

لیک ڈیٹابیس کےنمبروں سے جڑے فون کی فارنسک جانچ کیے بغیر یہ بات پختہ طریقے سے بتا پانا ممکن نہیں ہے کہ ویشنو یا پٹیل کے فون میں پیگاسس کو کامیابی کے ساتھ ڈالا گیا تھا یا نہیں۔ لیکن لیک ڈیٹا سے ایسا لگتا ہے کہ پٹیل میں کسی کی خاص دلچسپی تھی۔

لیک فہرست میں صرف وہ فون نمبر نہیں ہیں، جو ان کے اور بیوی کے ہیں، بلکہ ان کے کم از کم 15 نزدیکی لوگوں کے نمبر بھی اس میں شامل ہیں، جن میں ان کے پرسنل سکریٹری ، دموہ میں ان کے سیاسی اور آفس کے معاون  اور یہاں تک کہ ان کے باورچی اور مالی کے نمبر بھی جاسوسی کے ممکنہ ہدف کے طور پر چنے گئے تھے۔

حالانکہ دی وائر نے احتیاط کے طور پر نے ان دونوں وزیروں سے ان کے فون کی فارنسک جانچ کی گزارش  کرتے ہوئے رابطہ  نہیں کیا ہے، کیونکہ وہ  دونوں اس وقت مرکزی وزیر ہیں، لیکن وائر یہ تصدیق کر سکتا ہے کہ ریکارڈ میں شامل کم از کم 18 نمبر پہلے یا تو ان کے یا ان کے قریبی لوگوں  کے نام پر درج تھے، یا اب بھی ان کےکے ذریعے استعمال میں لائے جا رہے ہیں۔

لیک ریکارڈ میں ویشنو اور ان کی بیوی  کا نام 2017 کے اواخر میں دکھائی دیتا ہے۔

پرہلاد پٹیل میں خاص دلچسپی

بی جے پی میں پٹیل کا کریئر نشیب وفراز سے پُررہا ہے۔ او بی سی لودھ کمیونٹی کے رہنما پٹیل نے اپناسیاسی  کریئرآر ایس ایس  سے شروع کیا تھا۔ بی جے پی کی سابق  وزیر اعلیٰ اوما بھارتی کے سایے میں ان کا سیاسی  ستارہ چمکا۔

وزیر اعلیٰ کے طور پر ان کی چھوٹی سی مدت کار میں جب اومابھارتی کو پارٹی اور سنگھ پریوار کے اندر سےمخالفت کا سامنا کرنا پڑا، وہ ان کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑے رہے۔ انہوں نے 1999-2004 کے بیچ اٹل بہاری سرکار میں جونیئر کوئلہ وزیر کے طور پر بھی کام کیا۔

سال 2004 میں جب اوما بھارتی نے بی جے پی کے خلاف بغاوت کی، تب پٹیل بھی ان کا ساتھ دینےوالوں میں تھے۔ 2009 میں وہ پھر بھگوا پارٹی میں واپس لوٹ آئے۔تب سے انہوں نے پارٹی کی مرکزی قیادت کے ساتھ بہتررشتہ  بنانے کی کوشش کی ہے۔ حال کے سالوں میں انہوں نے سنگھ پریوار کو پسند آنے والے موضوعات کو بے باکی سے اٹھایا ہے۔

انہوں نے وقت وقت  پر گئو کشی پرپابندی  لگانے کی مانگ کی ہے؛ دہلی کے وزیر اعلیٰ  کے ساتھ ان کا سرد جنگ بھی چلا، جن پر انہوں نے‘ہندوستان  کے ترنگے کی توہین  کرنے’کا الزام  لگایا؛ اور اس کے ساتھ ہی سابق ثقافتی وزیر کے طور پر انہوں نے 12000 سالوں  سےہندوستانی ثقافت  کے ماخذاورترقی کا مطالعہ کرنے کے لیے ایک کمیٹی  کا بھی قیام  کیا۔ ان کی وزارت کو آر ایس ایس کے ایم ایس گولولکر کی سالگرہ  پر ٹوئٹ جاری کرنے کے لیے بھی شدید نکتہ چینی  کا سامنا کرنا پڑا۔

مدھیہ پردیش میں وہ بی جے پی کے اندر شیوراج چوہان کے سب سے بڑے مخالفین میں شمار کیے جاتے ہیں اور انہوں نےرہنما کے طور پر اپنی آزاد پہچان گڑھنے کی کوشش کی ہے۔اس لیے جب ان سے وزیر مملکت کی ذمہ داری چھینی  گئی تب کئی لوگوں کو کافی حیرانی ہوئی۔

جاسوسی کے لیے چنے گئے ان کے قریبی لوگوں  میں ان کے پرسنل سکریٹری آلوک موہن نایک، راج کمار سنگھ اور آدتیہ جاچک، ان کے میڈیا صلاح کار نتن ترپاٹھی، دموہ علاقے میں ان کے کئی قریبی معاون، ان کے باورچی، ان کے مالی اور دموہ کے بمہوری گاؤں کے سرپنچ دیویدین کا نام بھی شامل ہے، جس کی موت پر پٹیل نے ٹوئٹر پر تعزیت کا اظہار کیا تھا۔

دی وائر نے پٹیل کو ان کے اور ان کےقریبی لوگوں  کے فون کی ممکنہ ہیکنگ کی اطلاع  دیتے ہوئے ایک تفصیلی ای میل بھیجا اور ان سے ان کا ردعمل پوچھا۔ ان کا جواب آنے پر اس رپورٹ کو اپ ڈیٹ کیا جائےگا۔

پٹیل کے معاملے میں ان کا اور ان کے قریبی لوگوں  کا فون نمبر جاسوسی کے ممکنہ نشانے کے طور پر 2019 کےوسط  میں چنا گیا تھا۔ اس سے کچھ دن پہلے ہی ان کے بیٹے پربل پٹیل اور ان کے بھتیجے، نرسنگھ پور کے ایم ایل اے ظالم سنگھ پٹیل کے بیٹے مونو پٹیل کو قتل کی کوشش کےالزامات میں گرفتار کیا گیا تھا۔

مرکزی وزیر نے تب کہا تھا، ‘میں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ یہ( گرفتاری)افسوس ناک ہے۔ قانون اپنا کام کرےگی۔ میں اس کے بارے میں اس سے زیادہ تبصرہ نہیں کرنا چاہتا ہوں۔’

ان کے بیٹے اور بھتیجے پر ایک بحث کے بعد نرسنگھ پور کے گوٹےگاؤں  میں ایک گروپ  پر حملے کی سربراہی  کرنے کا الزام تھا۔ اس واقعہ میں چار لوگ شدید طور پر  زخمی ہو گئے۔ جبکہ پربل پٹیل(26)کو 19جون، 2019 کو گرفتار کر لیا گیا تھا، ان کا بھتیجہ فرار تھا۔

پربل کی گرفتاری کے بعد وزیر کے بھائی ظالم سنگھ پٹیل نے صوبے کی اس وقت  کی کانگریس کی قیادت  والی سرکار پر سیاسی بدلے کا الزام لگایا تھا اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ جھڑپ کے دوران پربل اور مونو میں سے کوئی بھی جائے وقوع پر موجود نہیں تھے۔ لگ بھگ دو مہینے تک جیل میں رہنے کے بعد مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے پربل پٹیل کو 21 اگست، 2019 کو ضمانت دے دی۔

اس حقیقت کے مد نظر کہ پٹیل مئی2019 میں کابینہ  میں شامل کیے گئے تھے، ان کے بیٹے کی گرفتاری میں مودی سرکار کے لیے شرمندگی کی ممکنہ وجہ  بننے کی صلاحیت تھی۔ حالانکہ یہ واضح نہیں ہے کہ کیا ان کے اتنے ممکنہ قریبی لوگوں کے جاسوسی کے نشانے کے طور پر چنے جانے کی وجہ یہ تھی۔

آئی آئی ٹی ڈگری والے وہارٹن گریجویٹ

حالیہ کابینہ پھیر بدل میں جو نام سب سے زیادہ چرچہ میں رہا، وہ تھا 1994 بیچ کے سابق آئی اے ایس افسر اشونی ویشنو کا۔ آئی آئی ٹی اور وہارٹن بزنس اسکول کے گریجویٹ اور کارپوریٹ ورلڈ کا اچھاخاصہ تجربہ رکھنےوالے والے ویشنو کی تقرری کو بی جے پی کے ذریعے تکنیکی مہارت  والے لوگوں کوکابینہ  میں شامل کرنے کے ایک اہم قدم کے طور پر پیش کیا گیا۔

اس سے پہلے انہوں نے واجپائی کے وقت میں وزیر اعظم دفترمیں ڈپٹی سیکریٹری کے طور پر کام کیا تھا۔

سال 2019 میں راجیہ سبھا میں ان کی تقرری نے اپوزیشن پارٹیوں بی جے پی اور بیجو جنتا دل کو ایک ساتھ لانے کا کام کیا تھا۔ جبکہ بیجو جنتادل آسانی سے تینوں خالی سیٹیں جیتنے کی حالت میں تھی، لیکن کہا جاتا ہے کہ وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ  امت شاہ کے ذریعے وزیر اعلیٰ نوین پٹنایک کو آخری لمحےمیں کیے گئے فون کال کے بعد بیجو جنتادل  نے اپنی سیٹ چھوڑ دی۔

نتیجے کے طورپربی جے پی اپنے ٹکٹ پر ویشنو کو بلامقابلہ منتخب کرانے میں کامیاب ہو گئی۔ کہا جاتا ہے کہ مودی اور شاہ دونوں ہی ویشنو کو واجپائی کے دفتر میں ان کے دنوں سے ہی جانتے تھے اور انہوں نے ویشنو کا انتخاب  بڑے رول کے لیے کر رکھا تھا۔

اس لیےاوپری طورپر لیک ریکارڈوں میں ان کے نام کے ہونے پر حیرانی ہو سکتی ہے۔ لیک ڈیٹا کے مطابق، ان کے دو اور ان کی بیوی کے ذریعے استعمال میں لائے جا رہے ایک فون نمبر کو 2017 کے وسط میں ممکنہ نشانے کے طور پر چنا گیا تھا۔

یہ وہ وقت ہے جب ویشنو دو کمپنیاں چلا رہے تھے۔ 2010 میں آئی اے ایس کے طور پر استعفیٰ دینے کے بعد انہوں نے بزنس اسکول میں پڑھائی کی اور کارپوریٹ سیکٹر جی ای اگییر سی مینس میں اپنی خدمات دیں۔ اس کے بعد انہوں نے دنیش کمار متل کے ساتھ مل کر بنائی گئی کمپنیوں تھری ٹی آٹو لاجسٹکس پرائیویٹ لمٹیڈ اور وی گی آٹو کمپونینٹس پرائیویٹ لمٹیڈ کی قیادت  کی۔

تھری ٹی مودی کی آبائی ریاست  گجرات سے چلائی جا رہی تھی، جبکہ وی جی کی فیکٹری اکائی فریدآباد، ہریانہ میں ہے۔

سال 2017 میں حالانکہ انہوں نے تھری ٹی آٹو لاجسٹکس کے ڈائریکٹر کے عہدےسے خود کو آزاد کر لیا، جہاں وہ ابھی بھی ایک شیئرہولڈر ہیں۔ ان کی بیوی آج بھی اس کی ڈائریکٹر ہیں۔ 2017 کے وائبرینٹ گجرات کانفرنس  میں ان کی کمپنی نے ہلول اور پنچ محل ضلعوں میں سرمایہ کاری  کا فیصلہ کیا۔

اسی سال 50 سالہ وزیرکو تمل نژاداڑیسہ کے کاروباری بی پربھاکرن کی سربراہی  والے تروینی پپیلیٹس میں نامزد کیا گیا۔ کمپنی کے بورڈ میں ان کی نامزدگی نے تنازعات کو جنم دیا تھا، کیونکہ2014 میں بی ایم شاہ کمیشن  نے پربھاکرن کو اڑیسہ کے بڑے کان کنی  گھوٹالے کے کلیدی فائدہ اٹھانے والے کے طور پر نامزد کیا تھا۔

منسٹری آف کارپوریٹ افیئرس کے ریکارڈوں کے مطابق وہ نو کمپنیوں میں بطور ڈائریکٹر نامزد ہیں۔

دی  وائر نے انہیں جاسوسی کے ممکنہ نشانہ ہونے کی جانکاری دیتے ہوئے ایک ای میل بھیجا ہے اور ان سے ردعمل  دینے کے لیے کہا ہے۔ اگر ان کا جواب آتا ہے، تو اسے رپورٹ میں شامل کیا جائےگا۔

ایرانی کے ذریعےکی گئی متنازعہ تقرری پر نظر؟

دو مرکزی وزیروں کے علاوہ سنجے کچرو، ان کےوالد اور ان کے نابالغ بیٹے کا نام بھی لیک ڈیٹا میں شامل ہے۔ ایک کارپوریٹ ایگزیکٹوکچرو کو اس وقت کی انسانی وسائل کی وزیراسمرتی ایرانی کے ذریعے 2014 میں اپنے آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی(اوایس ڈی) کے طور پر چنا گیا گیا تھا۔ لیکن ان کی کبھی باقاعدہ تقرری نہیں ہو سکی۔

ان کے نمبر 2018 کے ایک بڑے حصہ میں لیک رکارڈوں میں دکھائی دیتے ہیں۔

سنجے کچرو۔

سنجے کچرو۔

ایرانی کی وزارت میں کچرو کی عبوری تقرری  کی جانچ پی یم اوکے ذریعےسوشل میڈیا پرتقرریوں میں ان کےمتنازعہ رول  کے سامنے آنے کے بعد کی گئی تھی۔مبینہ طور پر دوسری وزارتوں کے اوایس ڈی کی طرح ان کی تقرری کی منظوری اپائنٹمنٹ کمیٹی آف کیبنیٹ(اےسی سی) کے ذریعے نہیں کیا گیا تھا۔ نتیجے کے طور پرانہیں وزارت میں کبھی کرسی نہیں مل سکی۔

اس وقت کی اکانومک ٹائمس کی ایک رپورٹ کے مطابق کچرو کی تقرری ‘انٹلی جنس بیورو کے ذریعے ان کے خلاف ایک بے حد منفی رپورٹ دیےجانے کے بعد’تنازعہ میں گھر گئی۔ بی جے پی کے ذرائع نے تب میڈیا کو کہا تھا کہ 2016 میں ایرانی کو نسبتاً کم اہمیت  کے کپڑاوزارت میں بھیجنے کی ایک وجہ بغیر مشورہ کیے یک طرفہ فیصلہ لینے کی ان کی فطرت تھی۔

کچھ ذرائع کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ کچرو کی تقرری نے آر ایس ایس کو بھی خفا کر دیا تھا۔ اسے اس بات سے ناراضگی تھی کہ ‘سنگھ کے وقف کارکنوں کی جگہ ‘اقتدارکے دلالوں’کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کچرو کو آج بھی ایرانی منڈلی کا الازمی حصہ  مانا جاتا ہے۔

سنگھ پر بھی نظر؟

ریکارڈوں میں سنگھ پریوار سے تعلق  رکھنےوالے کئی لوگوں کے فون نمبر بھی ہیں۔ ان میں وزیر اعظم نریندر مودی کے وشو ہندو پریشد کے پروین تو گڑیا کا نام بھی شامل ہے، جن کا نمبر ممکنہ طور پرپورے 2018 کے دوران نگرانی کے لیے نشانے پر رکھا گیا۔

راجستھان کی سابق وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے سندھیا کے پرسنل سکریٹری پردیپ اوستھی کا فون نمبر بھی 2018 کے شروعاتی مہینوں کے زیادہ تر حصوں میں، یعنی 2018 کے اسمبلی انتخابات سے مہینوں پہلے، سرولانس کے ممکنہ امیدوارکے طور پر نشان زد کیا گیا تھا۔

پروین توگڑیا۔ (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک)

پروین توگڑیا۔ (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک)

یہ بات سب کو پتہ ہے کہ سندھیا اور بی جے پی کی مرکزی قیادت میں بنتی نہیں ہے۔ 2018 کے اسمبلی انتخابات سے پہلے مرکزی قیادت کے ساتھ ان کا من مٹاؤ اجاگر ہو گیا تھا۔

بی جے پی کی ریاستی اکائی بٹی ہوئی تھی، سندھیا سرکار کے خلاف اینٹی انکیمبینسی کافی زیادہ تھی اور مرکزی قیادت اس بات کو لےکر تذبذب میں تھی کہ ہمیشہ باغی رہنے کو تیار سندھیا کو وزیر اعلیٰ کے چہرے کے طور پر پیش کیا جائے یا نہیں۔

آخرکار انہیں پارٹی کے وزیر اعلیٰ کے چہرے کے طور پر پیش کیا، لیکن سیاسی  مبصرین نے اس بات کو نشان زد کیا ہے کہ انہیں انتخابی تشہیرمیں اس  وقت کے بی جے پی صدرامت شاہ کی طرف سے زیادہ مدد نہیں ملی۔