خبریں

مسلم مخالف نعرے بازی: مقدمہ درج کرانے پہنچے نوجوان نے دہلی پولیس پر ہراسانی کا الزام لگایا

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالبعلم ارباب علی نے الزام لگایا ہے کہ دہلی کےجنتر منتر پر مسلم مخالف نعرے بازی کے سلسلے میں بی جے پی رہنما اشونی اپادھیائے اور ہندوتوا کارکن اتم اپادھیائے کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کرنے پر انہیں حراست میں لیا گیا اور دھمکایا گیا۔ الزام ہے کہ اشونی اپادھیائے کی قیادت میں گزشتہ آٹھ اگست کو جنتر منتر پر ایک پروگرام کے دوران اشتعال انگیز اور مسلم مخالف نعرے بازی کی گئی تھی۔

ارباب علی

ارباب علی

نئی دہلی: جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ایک طالبعلم نے الزام لگایا ہے کہ انہیں بی جے پی رہنما اشونی اپادھیائے اور ہندوتووادی کارکن اتم اپادھیائے کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کرنے کے لیےحراست میں لیا گیا، دھمکایا گیا اور ٹرول کیا گیا۔

بتا دیں کہ بی جے پی رہنما اشونی اپادھیائے اور ہندوتوا کارکن اتم اپادھیائے(پروگرم سے متعلق  وائرل ویڈیو میں مسلم مخالف نعرہ لگا رہے شخص)نےگزشتہ آٹھ اگست کو راجدھانی دہلی کےجنتر منترپراشتعال انگیز اورمسلم مخالف نعرے لگائےجانے والے پروگرام  کو منعقد کیا اور اس میں شامل ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق، لیفٹ تنظیم آل انڈیا سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن(اے آئی ایس اے)کے کارکن ارباب علی نے شخصی طور پر اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ ایف آئی آر درج کرانے کا فیصلہ کیا تھا۔

ابرار نے کہا،‘ہم 10 اگست کو صبح 11:40بجے جامعہ نگر پولیس اسٹیشن گئے۔ ہماری شکایت دیکھنے کے بعد اسے پڑھنے والے پولیس اہلکار نے کہا، ہیٹ اسپیچ ہی تو دیا ہے، مار تو نہیں دیا نہ؟’

وہ کہتے ہیں،‘اس کے بعد وہ مجھے ایس ایچ او کے پاس لے گیا۔ ایس ایچ او نے ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے مجھے اپنا ماسک ہٹانے کے لیے کہا تاکہ وہ میری ایک تصویر لے سکیں۔ میں نے منع کر دیا تو بھی انہوں نے  میری مرضی کے خلاف  میری ایک فوٹو کھینچی۔ پھر انہوں نے مجھےانسپکٹر خالد حسین کےدفتر میں بھیجا اور کہا کہ میرے خلاف شکایتوں والی فائلیں باہر لائیں۔’

ابرار نے کہا، ‘اس کے بعد ہم نے سنسد مارگ تھانے میں ایف آئی آر درج کرانے کا فیصلہ کیا، لیکن جامعہ نگر پولیس نے ہمیں واپس بلایا اور کہا کہ وہ ہماری ایف آئی آر درج کریں گے۔ جب ہم واپس آئے تو انہوں نے ہمیں ایس ایچ او کے آفس میں بٹھایا اور ہمارے فون نمبر، پتہ اور باپ کے نام کے ساتھ ہمارے کورس کے بارے میں پوچھا گیا۔’

ابرار نےمزید کہا، ‘جب ہم نے پوچھا کہ انہیں یہ جانکاریاں کیوں چاہیے؟ تب ایس ایچ او نے کہا، یہ معاملہ بڑا ہے، صحیح سے کرنا ہوگا جس سے اور تمہارے جیسے لوگ نہ آئیں۔ ہمیں آدھے گھنٹے انتظار کرواکر انہوں نے الگ الگ پولیس اسٹیشنوں میں کال کیا۔’

وہ کہتے ہیں،‘اس کے بعد مجھے شاہین باغ پولیس اسٹیشن اور دوسرے نمبروں سے کال آنے لگے۔ انہوں نے میرے ارادوں کے بارے میں پوچھ تاچھ کی اور میں سینٹرل دہلی جانے کامنصوبہ کیوں بنا رہا تھا۔ انہوں نے مجھے اور ڈرانے کی کوشش کی۔ بعد میں ہم نے ایس ایچ او سے پوچھا کہ ہماری ایف آئی آر کیوں درج نہیں کی گئی، تب جاکر ہمیں ایک کانسٹبل کے توسط سے یہ پتہ چلا کہ ہمیں حراست میں لیا گیا ہے۔ جب ہم نے اس کی مخالفت کی تو انہوں نے جبراً تھانے کا دروازہ بند کر لیا۔ ہم پر نظر رکھنے کے لیے تین چار پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا۔’

ابرار نے کہا،‘تب جاکر ہم نے سوشل میڈیا کے توسط سے اپنے وکیل اور دوسرے لوگوں تک پہنچنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد بھیم آرمی کے ایک درجن کارکن اوکھلا اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالبعلم ہمیں رہا کرانے تھانے پہنچ گئے۔’

ابرار نے آگے بتایا کہ شام تقریباً پانچ بجے جامعہ نگر کے ایس ایچ او نے ایک نامی وکیل کو بلاکر کہا کہ ہم نے ان کے ساتھ بدسلوکی کی ہے۔ تھانے کے اندر چھہ گھنٹے کی دھمکی اور ہراسانی کے بعد ہمیں باہر نکالا گیا، لیکن ہماری ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔

انہوں نے کہا،‘دہلی پولیس نے آخرکار ان کے خلاف جو ایف آئی آر درج کی، اس میں بی جے پی رہنما اشونی اپادھیائے کو ضمانت دے دی گئی ہے۔’انہوں نے کہا کہ، تھانے کے اندر چھ گھنٹے کی دھمکی اور ہراسانی کے بعد ہمیں چھوڑ دیا گیا، لیکن ہماری ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔

بتا دیں کہ گزشتہ آٹھ اگست کو دہلی کے جنتر منتر پر ‘بھارت جوڑو آندولن’کے زیر اہتمام  منعقد پروگرام  کے دوران یکساں سول کوڈ  کو لاگو کرنے کی حمایت میں ریلی ہوئی تھی۔الزام ہے کہ اس دوران اشتعال انگیز اور مسلم مخالف نعرےبازی کی گئی تھی۔ سوشل میڈیا پر وائرل پروگرام کے ایک مبینہ  ویڈیو میں براہ راست  مسلمانوں کو قتل کرنے  کی اپیل کی گئی تھی۔

اس پروگرام میں بی جے پی رہنما گجیندر چوہان بھی موجود تھے اور اشونی اپادھیائے کو منچ پر دیکھا گیا تھا۔ جنتر منتر پر اس پروگرام کا اہتمام مبینہ طور پر پولیس کی منظوری کے بغیر ہوا تھا۔بی جے پی رہنما اور سپریم کورٹ کے وکیل اشونی اپادھیائے نے گزشتہ نو اگست کو دعویٰ کیا تھا کہ موقع پر نعرےبازی ان کے پروگرام ختم  ہونے کے بعد ہوئی تھی۔

انہوں نے بتایا تھا کہ انہیں کی جانکاری نہیں ہے کہ ویڈیو میں دکھائی دے رہےشخص کون ہیں اور کہا تھا کہ وہ جنتر منتر پر منعقد پروگرام  کے آرگنائزر نہیں ہیں۔

حالانکہ‘بھارت جوڑو آندولن’ کی ترجمان شپرہ شریواستو نے بتایا کہ مظاہرہ  اشونی اپادھیائے کی سربراہی  میں ہوا تھا۔ حالانکہ انہوں نے مسلم مخالف نعرے لگانے والوں سے کسی طرح  کےتعلقات  سے انکار کیا ہے۔ اپادھیائے نے بھی مسلم مخالف نعرےبازی کے واقعہ میں شامل ہونے سے انکار کیا۔

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں