خبریں

جموں و کشمیر: سید علی شاہ گیلانی کا انتقال

سید علی شاہ گیلانی طویل عرصے سےعلیل تھے۔حریت کانفرنس کے بانی رکن  رہے گیلانی نے سال 2000 کی شروعات میں تحریک حریت کا قیام کیا تھا، جس کو  انہوں نے جون 2020 میں چھوڑ دیا تھا۔

سید علی شاہ گیلانی۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

سید علی شاہ گیلانی۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: جموں وکشمیر میں تین دہائیوں سے زیادہ کےعرصے تک علیحدگی پسندتحریک کی قیادت  کرنے والے اور پاکستان کے حمایتی سید علی شاہ گیلانی کا بدھ کی شب ان کی رہائش پر انتقال  ہو گیا۔حکام  نے یہ جانکاری دی۔

علیحدگی پسندرہنما گیلانی پچھلی دودہائی سے گردے سےمتعلق  بیماری میں مبتلا تھے۔اس کے علاوہ وہ عمر سےمتعلق  کئی دوسری  بیماریوں سے جوجھ رہے تھے۔ گیلانی کے اہل خانہ  کے ایک رکن  نے بتایا کہ گیلانی کاانتقال  بدھ کی شب کو  ساڑھے 10 بجے ہوا۔

سابقہ ریاست میں سوپور سے تین باررکن اسمبلی  رہے گیلانی 2008 کے امرناتھ زمینی تنازعہ  اور 2010 میں سرینگر میں ایک نوجوان  کی موت کے بعد ہوئے احتجاجی مظاہروں  کا چہرہ بن گئے تھے۔

وہ حریت کانفرنس کےبانی رکن تھے،لیکن وہ اس سے الگ ہو گئے اور انہوں نے 2000 کی شروعات میں تحریک حریت کا قیام کیا تھا۔ آخرکار انہوں نے جون 2020 میں حریت کانفرنس سے بھی وداعی لے لی۔

کشمیر میں بڑے  پیمانےپر موبائل سروس بند کیے جانے کےساتھ ہی سخت سیکورٹی اور پابندیوں کے بیچ ان کو دفن کیا گیا۔ ان کے قریبی لوگوں  نے بتایا کہ گیلانی کو ان کی خواہش کے مطابق  ان کی رہائش کے پاس واقع  ایک مسجد میں دفن کیا گیا۔ حالانکہ ان کے بیٹے نعیم نے بتایا کہ وہ انہیں سری نگر میں عیدگاہ میں دفن کرنا چاہتے تھے۔

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے گیلانی کی وفات پرسوگواری کا اظہار کیا ہے۔خان نے بتایا کہ ان کے ملک  میں سرکاری سطح پر ایک دن کاسوگ منایا جائے گااور پاکستانی پرچم سرنگوں رہے گا۔

جموں کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ٹوئٹ کیا کہ وہ گیلانی کے انتقال  کی خبر سے غمزدہ  ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘ہم بھلے ہی اکثر چیزوں پرمتفق  نہیں تھے، لیکن میں ان کی مستقل مزاجی اور ان کے اصولوں پر قائم  رہنے کے لیے ان کا احترام  کرتی ہوں۔’

جموں وکشمیر میں تین دہائیوں سےزیادہ  تک علیحدگی پسندتحریک کی قیادت کرنے والے گیلانی کا جنم 29 ستمبر 1929 کو باندی پورہ ضلع کے ایک گاؤں میں ہوا تھا۔انہوں نے لاہور کے‘اورینٹل کالج’سے اپنی تعلیم مکمل کی۔

‘جماعت اسلامی’ کاحصہ بننے سے پہلے انہوں نے کچھ سال تک ایک استاذ کے طور پر نوکری کی۔ کشمیر میں علیحدگی پسندقیادت  کےایک مضبوط ستون  مانے جانے والے گیلانی سابقہ ریاست میں سوپور انتخابی حلقہ سے تین بار رکن اسمبلی  رہے۔

انہوں نے 1972،1977 اور 1987 میں اسمبلی انتخابات میں جیت حاصل کی ، حالانکہ 1990 میں کشمیر میں دہشت گردی  بڑھنے کے بعد انہوں نےانتخاب مخالف مہم  کی قیادت کی ۔

وہ حریت کانفرنس کے بانی ممبروں  میں سے ایک تھے، جو 26 پارٹیوں کا علیحدگی پسنداتحاد تھا۔ لیکن بعد میں ان اعتدال پسندوں  نے اس اتحاد سے ناطہ  توڑ لیا تھا، جنہوں نے کشمیر مسئلے کے حل کے لیےمرکز کے ساتھ بات چیت کی وکالت کی تھی۔

اس کے بعد 2003 میں انہوں نے تحریک حریت کا قیام کیا۔ حالانکہ2020 میں انہوں نے حریت سیاست کو پوری طرح الوداع کہنے کا فیصلہ کیا اور کہا کہ 2019 میں آرٹیکل 370 کے اکثراہتماموں کو ختم کرنے کے مرکز کے  فیصلے کے بعد دوسری سطح کی قیادت  کی کارکردگی  بہتر نہیں رہی۔

گیلانی کو 2002 سے ہی گردے سےمتعلق بیماری تھی اور اس کی وجہ سے ان کا ایک گردہ نکالا بھی گیا تھا۔ پچھلے 18 مہینے سے ان کی حالت لگاتار بگڑ رہی تھی۔ وہ 92 سال کے تھے۔ پسماندگان میں ان کے دو بیٹے اور چھ بیٹیاں ہیں۔انہوں نے 1968 میں اپنی پہلی بیوی  کی وفات کے بعد دوسری شادی  کی تھی۔

مین اسٹریم  کے رہنماؤں کے مخالف ہونے کے باوجود گیلانی کو ایک مہذب رہنما کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ سجاد لون نے بھی ان کی موت پر افسوس کا اظہار کیا ہے،جنہوں نے کبھی گیلانی پر ایسے اکسانے والے بیان دینے کا الزام  لگایا تھا،جس کی وجہ سے ان کے والد عبدالغنی لون کا قتل کیا گیا تھا۔

سجاد لون نے کہا،‘گیلانی صاحب کے اہل خانہ  سے میں تعزیت کا اظہار کرتا ہوں۔ وہ میرےمرحوم والد  کے محترم ساتھی  تھے۔ اللہ انہیں جنت نصیب کرے۔’

سال1981میں گیلانی کاپاسپورٹ ضبط کر لیا گیا تھا اور پھر اسے صرف ایک بار 2006 میں حج کے لیے انہیں لوٹایا گیا۔ ان کے خلاف انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ(ای ڈی)، پولیس اور محکمہ انکم ٹیکس میں کئی معاملے زیر التوا تھے۔

مارچ 2019 میں ای ڈی نے گیلانی پر فارن ایکسچینج ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مبینہ طور پر 10000 ڈالر رکھنے کے 17 سال پرانے ایک معاملے میں 14.40 لاکھ روپے کا جرمانہ لگایا تھا۔

بدھ کو کشمیر گھاٹی میں مسجدوں سے لاؤڈسپیکر پر ان کے انتقال کی اطلاع  دی گئی اور گیلانی کی حمایت میں نعرے لگائے گئے۔

پولیس نے بتایا کہ احتیاط کے طور پرکشمیر میں کرفیو جیسی پابندی  لگائی گئی  ہے۔گیلانی کی رہائش  کے آس پاس بھاری پولیس بندوبست دیکھا گیا اور وہاں جانے والے راستوں کو سیل کر دیا گیا۔ کسی کو بھی وہاں جانے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔انٹرنیٹ خدمات بھی بند ہونے کا امکان ہے۔

وہ جس علاقےسوپور سے تعلق رکھتے تھے، وہاں بھی سخت پابندیاں لگائی گئی ہیں۔نظم ونسق بنائے رکھنے کے لیےحساس مقامات پر بڑی تعداد میں فورسز کو تعینات کیا گیا ہے۔

این ڈی ٹی وی کے مطابق، گیلانی کی موت کے بعد کچھ حریت رہنماؤں کو حراست میں لیا گیا تھا، جس میں اننت ناگ کے مختار احمد بھی شامل تھے۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)