خبریں

پیگاسس فیصلہ ’تاریخی‘، یہ ’اندھیرے میں اجالے‘ کی طرح ہے: سینئر وکیل دشینت دوے

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل دشینت دوے نے کہا کہ یہ فیصلہ بذات خود اس بات کا ثبوت ہے کہ کورٹ نے پہلی نظر میں  سرکار کو قصوروار ٹھہرایا ہے۔ وہیں آرین خان معاملے میں انہوں نے کہا  کہ نچلی عدالت میں کچھ سنگین گڑبڑی  ہے، جس کی وجہ سے ہندوستان ایک‘پولیس اسٹیٹ’بننے کی جانب بڑھ رہا ہے۔

کرن تھاپر اور دشینت دوے۔ (فوٹو: دی وائر)

کرن تھاپر اور دشینت دوے۔ (فوٹو: دی وائر)

نئی دہلی:سینئر وکیل دشینت دوے نے پیگاسس معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اس کو‘تاریخی فیصلہ’قرار دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ عدالت کا یہ فیصلہ‘آج کے اندھیرے میں اجالے کی طرح’ کام کرےگا۔

دوے نے یہ بھی کہا کہ اس فیصلے نے پورے ملک کو چونکا کر رکھ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ ہی اپنے آپ میں اس بات کا ثبوت ہے کہ کورٹ نے پہلی نظر میں  سرکار کو قصوروار ٹھہرایا ہے۔

دی وائر کو دیے ایک انٹرویو میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر دشینت دوے نے کہا کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اس قیاس پرمبنی ہے کہ پیگاسس کا استعمال کیا گیا ہے، جس سے ہندوستانی شہریوں کے پرائیویسی  کا حق  متاثرہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت نے اس فیصلے میں‘قومی سلامتی اور پرائیویسی’کے سیاق  میں جس طرح کے تبصرے کیے ہیں، وہ واضح طور پردکھاتا ہے کہ کورٹ شہریوں کےحقوق کی خلاف ورزی سے فکرمند ہے۔

سینئر وکیل نے کہا،‘سپریم کورٹ واضح طور پرہندوستان کے شہریوں کے ساتھ کھڑا ہوا ہے۔اس نے سرکار کو بتایا ہے کہ اب بہت ہوا ہے۔ ہم یہاں رکھوالی(عوام  کے حقوق  کی)کے لیے بیٹھے ہیں۔’

سپریم کورٹ نے پیگاسس معاملے کی جانچ کے لیےبنی کمیٹی  کی سربراہی  عدالت کے سابق جج جسٹس آروی رویندرن کو سونپی ہے۔دوے نے کہا کہ وہ ایک شاندار جج ہیں اور اس معاملے میں ان سے بہتر کوئی اور متبادل  نہیں ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا،‘وہ (جسٹس رویندرن)بےحد ایماندار،انتہائی آزاد اور باصلاحیت جج رہے ہیں۔ ان میں جانچ کرنے کی بہت گہری سمجھ ہے۔’

عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ سابق آئی پی ایس افسر آلوک جوشی اور سندیپ اوبرائے(انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار اسٹینڈرڈائزیشن/انٹرنیشنل الیکٹرو ٹیکنیکل کمیشن کی جوائنٹ ٹیکنیکل کمیٹی میں ذیلی کمیٹی کے چیئرمین)جسٹس رویندرن کمیٹی کے کام کاج کی نگرانی کرنے میں مدد کریں گے۔

آلوک جوشی ملک کی ایک خفیہ ایجنسی نیشنل ٹیکنیکل ریسرچ آرگنائزیشن(این ٹی آراو) کے سربراہ بھی رہے ہیں اور انہیں اس پر مودی سرکار نے سال 2015 میں مقرر کیا تھا۔

دشینت دوے نے اس اندیشے کو خارج کیا کہ جوشی کی وجہ سے جانچ متاثر ہو سکتی ہے۔

جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا سپریم کورٹ اس بات کو لےکر پوری طرح مطمئن ہے کہ این ٹی آراو نے پیگاسس کا کبھی استعمال نہیں کیا ہے، کیونکہ اگرایسا نہیں ہے تو پھر جوشی کا انتخاب مفادات کے ٹکراؤ کی حالت پیداکر دےگا، اس پر دوے نے کہا کہ اگر ایسے حالات پیدا ہونے کے امکان ہوتے تو جوشی نے پہلے ہی سپریم کورٹ کو بتا دیا ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ کوئی بھی شخص عدالت کے کام کو جھوٹ بول کر قبول نہیں کر سکتا ہے، جب عدالت کسی کو مدعو کرتا ہے تو متعلقہ شخص کو ساری جانکاریاں مہیا کرانی پڑتی ہیں۔

سپریم کورٹ نے رویندرن کمیٹی کو جن سات نکات پر جانچ کرنے اور دیگر  سات نکات پر اہم سفارشیں کرنے کی ہدیت دی ہے، اس کو لےکر دشینت دوے نے کہا کہ یہ کافی  سے زیادہ  ہیں اور اس میں تمام خدشات کو دور کرنے کی امید ہے۔

وہیں دی وائر کو دیے ایک اور انٹرویو میں دوے نے آرین خان معاملے میں عدلیہ کے رویے کو لےکر گہری تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ نچلی عدالتیں قانون پر عمل نہیں کر رہی ہیں، جس کی وجہ سے ہندوستان ایک‘پولیس اسٹیٹ’ بننے کی جانب بڑھ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حال کےسالوں میں کورٹ کا یہ رویہ‘عام’ہو چلا ہے۔ مجسٹریٹ یا تو قانون سے واقف نہیں ہیں یا اسے لاگو کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

دوے کایہ بھی کہنا ہے کہ اکثر نچلی عدالت اور مجسٹریٹ، اس کے سامنے آنے والے ہائی پروفائل معاملوں سے خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔

کل ملاکر انہوں نے کہا، ‘نچلی عدالت میں کچھ سنگین  گڑبڑی  ہے۔ ہندوستان تیزی سے ایک پولیس اسٹیٹ بنتا جا رہا ہے۔’

دوے نے کہا کہ جس طرح کے کیس( ڈرگس معاملہ)میں آرین خان کو گرفتار کیا گیا تھا، انہیں مجسٹریٹ کورٹ کے ذریعے پہلے دن ہی ضمانت مل جانی چاہیے تھی، انہیں اتنے دن انتظار کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔

معلوم ہو کہ نچلی عدالت سے عرضی خارج ہونے کے بعد بامبے ہائی کورٹ نے گزشتہ جمعرات کو کروز ڈرگس معاملے میں آرین خان کو ضمانت دے دی۔

دوے نے کہا، ‘نچلی عدالت کا پورا رویہ قانون کی سمجھ کی مکمل محرومی  کو دکھاتا ہے۔’

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس معاملے میں نچلی عدالت کے فیصلے بامبے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ دونوں کے فیصلوں کی سمجھ کی کمی کو دکھاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نچلی عدالتوں کے جج ‘ڈر جا رہے’ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جج یا تو ان کے سامنے لائے گئے ہائی پروفائل معاملوں سے خوف زدہ ہو جاتے ہیں یا اس بات سے کہ اسسٹنٹ سالیسٹر جنرل جیسےسینئر لوگ حکومت کی طرف سے پیش ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہندوستان کو ایک جمہوری ملک مانا جاتا ہے، لیکن اسے ٹھیک سے کام کرنے کے لیےتمام اداروں  کو بھی کام کرنے دینے کی ضرورت ہے۔ قانون نافذ کرنے میں عدلیہ باربار غلطیاں کر رہی ہے۔

(اس انٹرویو کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں اور  یہاں کلک کریں۔)