فکر و نظر

بی جے پی اور ہندوتوا بریگیڈ کے لیے مغل نئے ولن ہیں

لفظ مغل کو ہندوستانی مسلمانوں کی نشاندہی کے لیے ‘پراکسی’  بنا دیا گیا ہے۔ پچھلے آٹھ سالوں کے دوران، اس کمیونٹی کو اقتصادی، سماجی حتیٰ کہ جسمانی طور پر – نشانہ بنانا نہ صرف جنونی اور مشتعل ہجوم ،  بلکہ سرکاروں  کی بھی اولین ترجیحات میں شامل  ہوگیاہے۔

1707-12 کے درمیان بنائی گئی ایک پینٹنگ جس میں مغل حکمرانوں کو دکھایا گیا ہے۔ (بہ شکریہ: CC BY-SA 3.0 igo)

1707-12 کے درمیان بنائی گئی ایک پینٹنگ جس میں مغل حکمرانوں کو دکھایا گیا ہے۔ (بہ شکریہ: CC BY-SA 3.0 igo)

ہندوتوا کے شدت پسند اورمتعصب ذہنوں میں مغلوں کے لیے ایک خاص جگہ ہے۔ خود وزیر اعظم نریندر مودی نے کئی بار 1200 سال کی غلامی کا ذکر کیا ہے۔

سال 2014 میں ان کی حکومت بننے کے بعد دہلی سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رکن پارلیامنٹ نے اورنگ زیب روڈ کا نام بدل کر عبدالکلام آزاد روڈ کرنے، یعنی ایک ظالم مسلمان کے نام کو ایک محب وطن مسلمان کے نام سےبدلنے —  کا مطالبہ کیا اور مقامی میونسپل کارپوریشن نے ان  کی خواہش کے احترام میں ذرا بھی تاخیر نہیں کی۔

تاہم، اس کے بعد مغلوں کو ٹھنڈے بستے میں ڈال  دیا گیا، پھر پارٹی اور اس کی مجازی فوج نے براہ راست ہندوستانی مسلمانوں کو اپنے نشانے پر لینا شروع کیا۔

لفظ مغل ہندوستانی مسلمانوں کی نشاندہی کرنے والا  پراکسی بن گیا۔ پچھلے آٹھ سالوں کے دوران، اس کمیونٹی کو اقتصادی، سماجی حتیٰ کہ جسمانی طور پر –نشانہ بنانا نہ صرف جنونی اور مشتعل ہجوم  ، بلکہ سرکاروں  کی بھی اولین ترجیحات میں شامل ہوگیاہے۔

اب ایک بار پھر مغل مرکزی اسٹیج پر آگئے ہیں۔

قانون کی ڈگری رکھنے والے مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس نے دعویٰ کیا ہے کہ 1992 میں بابری مسجد کے انہدام میں وہ بھی شامل  تھے۔

عام طور پر سیاستدان زیادہ سرمایہ کاری یا اپنی اقتصادی یا سماجی بہبود کے  منصوبوں کو حصولیابی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ یہ شاید پہلا موقع ہے کہ ایک سابق وزیر اعلیٰ فخریہ ایک ایسے غیر قانونی فعل میں ملوث ہونے کے بارے میں بات کر رہے ہیں جس نے ہندوستان کے سیکولر تانے بانے کو تار تار کیا۔

فڈنویس کے بیان نے ان کے اور شیوسینا کے درمیان زبانی  جنگ کی صورتحال پیدا کردی ہے۔ غور طلب  ہے کہ شیو سینا بھی مسجد کے انہدام میں اپنے شامل ہونے پر فخر محسوس کرتی ہے۔ ادھو ٹھاکرے نے اعلان کیا کہ اگرفربہ اندام (تھل تھل) فڈنویس واقعی مسجد کے گنبد پر چڑھے ہوں گے، تو مسجد خود بخودگر گئی ہوگی!

دریں اثنا، بی جے پی کے ایک رہنما نے ریاستی حکومت سے مغل دور کے گاؤں کے نام کو تبدیل کرنے کو کہا ہے۔ ان کو  ظاہری طور پر اس حقیقت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے کہ ان میں سے کئی اکثر ان لوگوں کے نام پر رکھے گئے تھے،جنہیں زمین کی گرانٹ دی گئی تھی۔

اتر پردیش میں بی جے پی کے ایک مقامی عہدیدار نے عدالت سےدرخواست کی کہ تاج محل کے سیل بند کمروں کو کھولا جائے جسے شاہ جہاں نے اپنی بیوی ممتاز محل کی محبت کی یادگار کے طور پر بنایا تھا تاکہ ان کمروں میں ہندو مورتیوں کو  تلاش کیا جاسکے۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے اس درخواست کو مسترد کر دیا۔

کسی سے پیچھے نہیں رہنے کی دوڑ میں کئی فرضی  ناولوں کے مصنف امیش ترپاٹھی نے یہ دعویٰ کیا کہ،مغل باہری تھے اور وہ ہندوستانی نہیں، بلکہ چینی کی طرح دکھتے تھے۔ اس احمقانہ بیان کو کئی بنیادوں پر چیلنج کیا جا سکتا ہے۔

سب سے پہلی بات ، ‘ہندوستانی شکل’ جیسی  کسی شے کا کوئی وجود نہیں ہے – یہی ہندوستان کے تنوع کا حسن ہے۔

وہ صرف شمال مشرق کے لوگوں کے خلاف تعصب کو ہوا دے رہے ہیں، جنہیں ویسے ہی اپنے دوسرے ہندوستانی شہریوں کے ہاتھوں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ دوسری بات، ہمایوں کے بعد تمام مغل ہندوستان میں پیدا ہوئے اور اکبر کی کم از کم ایک راجپوت بیوی تھی، جس کا بیٹا جہانگیر تھا۔

وہ پوری طرح سےہندوستان میں گھل مل گئے تھے، اور اگر اسلام کی تبلیغ پر ان کا بہت زیادہ زور ہوتا تو ہندوستانیوں کی ایک کہیں بڑی تعداد مسلمان ہوتی۔

اور سب سے بڑھ کر، اگر ترپاٹھی کی ناقص منطق کے مطابق دوسرے ممالک میں رہ رہے والے لاکھوں ہندوستانی نژاد لوگوں کو ہندوستان واپس جانے کے لیے کہا جا سکتا ہے۔ ان میں سے بہت سے، مثلاً آئرلینڈ میں لیو وراڈکر اور برطانیہ میں رشی سنک اعلیٰ سیاسی عہدوں پر فائز ہیں، اور ستیہ نڈیلا اور سندر پچئی بڑی ٹیک کمپنیوں کو چلارہے ہیں۔

ترپاٹھی  مؤرخ نہیں ہیں، لیکن وہ بھی جانتے ہوں گے کہ مغل پورے طور پر ہندوستانی ہو گئے تھے —اس وقت کے حساب سے ایسا ہونے کا جو بھی مطلب رہا ہو —  اور ثقافت، فن تعمیر اور معاشرے میں ان کی خدمات نے ہمیں مالا مال کیا ہے۔

وہ لندن میں انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنز کے زیر اہتمام چلائے جا رہے نہرو سینٹر کے سربراہ ہیں۔ یہ ایک سرکاری نوکری ہے۔ یہ حقیقت کہ این ڈی ٹی وی جیسےنمایاں نیوز چینل، جس کو اپنی صحافت پر فخر ہے، نے ان کو ایک پلیٹ فارم دیا اور ان کے نظریاتی جھکاؤ سے اچھی طرح واقف ہونے کے باوجود ان کی باتوں پر کوئی جوابی دعویٰ نہیں کیا، یہ ہماری عوامی گفتگو کے گرتے ہوئے معیار کے بارے میں بہت کچھ بتاتا ہے۔

ہر طرف سے مغلوں پر حملہ آور آوازیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ یہ ایک بار پھرفرقہ وارانہ درجہ حرارت کو بڑھانے کی سوچی سمجھی حکمت عملی ہے۔

ایک سیاست دان، بی جے پی کی مقامی اکائی کا ایک عہدیدار، اور انگریزی میں لکھنے والا ایک رائٹرساتھ مل کر کئی  طبقوں تک پہنچ سکتے ہیں اور ہمیں ٹیلی ویژن چینلوں کو نہیں بھولنا چاہیے، جو نفرت کے پیغامات کو دور دور تک پھیلاتے ہیں۔ یہ سب محض اتفاق نہیں ہو سکتا۔

یقیناً گجرات میں آنے والے انتخابات اس کی ایک وجہ ہو سکتے ہیں۔ اس ریاست کے مسلمانوں کو  پہلے ہی حاشیے  پر ڈال دیا گیا ہے اور وہاں کے ہندو نریندر مودی اور بی جے پی کے بڑے پیروکار ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ محمود غزنی نے جدید گجرات کے ساحل پر واقع سومناتھ مندر کو تباہ کیا اور وہاں سے بہت ساری املاک لوٹ کر لے گیا۔ یہ کہانی، اس کی تاریخی حقیقت خواہ کچھ بھی ہو، نہ صرف ریاست بلکہ دیگر جگہوں کے لوگوں کے ذہنوں میں بھی نقش ہے۔

جیسا کہ سب جانتے ہیں، محمود مغل نہیں تھا اور اس کا حملہ گیارہویں صدی میں، یعنی بابر کے ہندوستانی سرزمین پر قدم رکھنے سے بہت پہلے ہوا تھا۔ لیکن جب مقصد مسلمانوں کو برا ثابت کرنا ہو تو چند صدیاں کیا معنی رکھتی ہیں؟

موجودہ دور میں  لفظ ‘مغل’ جدید مسلمانوں کو نیچا دکھانے اور ان پر حملہ کرنے کے لیے مستعمل ایک ہمہ گیر اصطلاح بن گیا ہے ۔ جیسے ‘بریانی’ اور دوسرے واضح طور پر بھدے لفظوں کی طرح۔ وہی ہیں جو ان بادشاہوں کے مبینہ گناہوں اور جرائم کی قیمت ادا کرتے ہیں، جن کے ساتھ ان کا کوئی تعلق بھی نہیں ہے۔

اس علامتی استعمال کو نہ صرف ہندوتوا بریگیڈ بلکہ دوسرے لوگ بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ اور بی جے پی کو امید ہے کہ دوسرے ہندو بھی تعلقات کے اس تار کو جوڑ لیں  گے اور اس طرح انہیں انتخابات میں کافی  فائدہ ہوگا۔

مسلم دشمنی کا مسلسل شور میڈیا، وہاٹس ایپ پر حتیٰ کہ  دوستوں کے درمیان ہونے والی رسمی  بات چیت میں بھی لوگوں تک پہنچ رہا ہے یہ اور کچھ نہیں، توکم از کم ایک منطقی سوچ رکھنے والے کے ذہن میں بھی شکوک و شبہات کے بیج بونے کام کرتا ہے، جو دھیرے دھیرے ان باتوں پر یقین کرنے لگتا ہے کہ ان میں سے بعض الزامات میں کچھ نہ کچھ سچائی ضرور ہوگی۔

لوگوں کی بیٹھکوں میں پوچھا جانے والا ایک بے حد عام سوال ہے، ‘آزاد خیال اور دانشور مسلمان اپنی برادری کی بنیاد پرستی کی مذمت کیوں نہیں کرتے؟کتنے بھی ثبوت پیش کیے جائیں، ان نئے لوگوں کےشکوک و شبہات کا ازالہ نہیں کیا جا سکتا۔

اور ان سب کا لینا دیناصرف الیکشن سے نہیں ہے۔ یہ ایک وسیع تر ہندو راشٹر کے منصوبے کا حصہ ہے۔ مسلمان اور ان کی ثقافت بی جے پی اور اس کے نظریاتی مورچے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے لیے ایک لعنت ہے۔

تمام عظمت ‘ہندو ثقافت’ میں ہے، اس کا مطلب کچھ بھی ہو۔ ہندوتوا کے مبلغین کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ مغلوں اور ان کی  توسیع پسندی میں  مسلمانوں کو گھس پیٹھیا اور باہری کے طور پر دیکھاجائے، جنہوں نے ہندو تہذیب میں خلل ڈالنے کا کام کیا ہے۔

ان کے لیے ضروری ہے کہ پوری کمیونٹی پر  بدعتی کاٹھپہ لگا دیا جائے۔ تاریخ اس نظریہ کے حق میں گواہی نہیں دیتی – لیکن تاریخ ہندوتوا ذہن کا مضبوط پہلو نہیں ہے۔ وہ صرف جعلی اکاؤنٹس کی متوازی کائنات میں ہی سیر کرتا ہے۔

مسلمانوں اور اسلام اور اس کے ایک سرے کے طور پر مغلوں کو  ولن کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور یہی ان کے لیے حتمی سچائی ہے۔ بی جے پی نے مغلوں کی شکل میں ایک ایسا خزانہ دریافت کیا ہے، جس سے متھ، اساطیر اور اختلاف رائے  کے دم پر  آنے والی دہائیوں تک فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)