فکر و نظر

نریندر مودی کی آٹھ سالہ حکومت کا نچوڑ – پھوٹ ڈالو اور راج کرو

‘ایک بھارت-شریشٹھ بھارت’ اور ‘سب کا ساتھ-سب کا وکاس’ جیسا نعرہ دینے والے وزیر اعظم نریندر مودی اپنی حکومت میں اس پر عمل پیرا نظر نہیں آتے۔

نریندر مودی۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نریندر مودی۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

بعض  لوگوں کو ان میں جدید نیرو نظر آتا ہے، جبکہ بعض ان کو  بھگوان رام کا کلیگی اوتار مان کر پھولے نہیں سماتے۔

مرکزی حکومت کے سربراہ کے طور پر نریندر مودی آزادی کے بعد سے اب تک سب سے زیادہ پھوٹ ڈالنے والے وزیر اعظم ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کو لگاتار دو بار پارلیامانی انتخابات میں زبردست کامیابی سے ہمکنار کرانے والے مودی نہ صرف ہندوستان کے اندر بلکہ باہر بھی ‘نیو انڈیا‘ کی شناخت  ہیں۔

ان کے مداح وزیر اعظم کی لارجر دین لائف والی شخصیت کو روایت شکن سیاستداں  کے طور پر دیکھتے ہیں، جس کی موجودہ وقت میں ترقی پذیر ہندوستان کو شدید ضرورت ہے۔

ان کے ناقدین–جن میں اکثر ہندوستان کے جمہوریت پسندوں کا غیر مطمئن طبقہ اور ہندوستانی اقلیت شامل ہیں؛ وہ محسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی کرسی کا استعمال صرف ایک خاص طرح  کی تفرقہ انگیز سیاست کو مستحکم کرنے کے لیے کیا ہے، جس کا نتیجہ مستقبل میں ملک کی تقسیم  کی صورت میں ظاہر ہوسکتا ہے۔

ایسے میں جبکہ حکومت آٹھ سالوں  کا جشن منا رہی ہے،  بی جے پی اپنی حصولیابیوں کے شمار میں مشغول ہے۔

یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ حکومت یا تو پہلے ہی تمام وعدے پورے کر چکی ہے یا 2024 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلےان کو پورا  کر دے گی۔ ان میں سے کئی  پورے کیے گئے وعدے خصوصی طور پر امتیازی ہیں۔

آرٹیکل 370 کی منسوخی، شہریت ترمیمی قانون کا نفاذ، تین طلاق کو جرم قرار دینا،حتیٰ کہ ایودھیا میں رام مندر کے لیے مہم–جہاں بی جے پی کے حامیوں نے 1992 میں 16ویں صدی کی مسجد کو منہدم کر دیا–یہ سب اس ہندو قوم پرست سیاست کے ایجنڈے کا حصہ ہے، جو آزادی کے پہلے سے ہندوستان کی سیاست پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

مودی کے وعدوں کا ‘دوسرا حصہ’، جس کا تعلق ہندوستان کو اقتصادی طور پر سپر پاور اور کرپشن سے پاک ملک بنانے کے ان کے دعوے سے جڑا ہے، ابھی تک پورانہیں کیا گیا ہے۔ لیکن بی جے پی اسے بہ آسانی فراموش کرکے ہندوستان  کی سب سے طاقتور سیاسی قوت کے طور پر اپنے آٹھ سالوں  کا جشن منا رہی ہے۔

دوسری طرف اپوزیشن پارٹیاں معیشت، انتظامیہ اور سماجی ہم آہنگی کے محاذ پر اس حکومت کی ناکامی کو بے نقاب کر رہی ہیں۔ وہ ان ناقابل تردید اور سخت حقائق کو سامنے لارہی ہیں کہ کس طرح مودی حکومت کے آٹھ سالوں کے دوران بے روزگاری کی شرح، غربت کی سطح، آمدنی میں عدم مساوات، ضروری اشیاء کی قیمتیں یا کارپوریٹ گھرانوں  اور جمہوری اداروں کی تباہی غیر معمولی بلندی پر پہنچ گئی ہے۔

لیکن ایسا لگتا ہے کہ مودی کے ہندو قوم پرست منصوبے نے عوامی تاثرات میں ان  سب کو اپنے اندر دبا دیا ہے۔

پچھلے دو انتخابات سے ووٹروں کی اکثریت نے جس طرح سے بی جے پی کی حمایت کے لیے اپنے سامنے کھڑے معاشی مفادات کو نظر اندازکر دیا  ہے، وہ  مودی کی قیادت کے بارے میں بہت کچھ بتاتا ہے۔

لیکن یہ سوال پوچھنا ضروری ہے  کہ آخر مودی کی حکومت  ان سے پہلے کی حکومتوں سے کس طرح مختلف ہے۔ وہ کیا چیز ہے جو لوگوں کو ایک ایسی پارٹی کی طرف راغب کرتی ہے جو کھلے عام سماجی طور پر پھوٹ ڈالنے اور  اکثریتی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے؟

اگر ہم گزشتہ آٹھ سالوں کی بات کریں تو مودی حکومت کے تین وسیع پہلو سامنے آتے ہیں، جو ہندوستان  نے پچھلی حکومتوں کے دوران کبھی نہیں دیکھے تھے۔

 پہلا، مودی کی قیادت میں بی جے پی نے ہندوستان کے لوگوں کو اجتماعی فراموشی کی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے۔ یہ دن رات اپنی کامیابیوں کا شمار کرواتی  رہتی ہے۔ ‘مفت’ ٹیکہ کاری کی مہم سے لے کر ریلوے اسٹیشنوں پر ایسکلیٹرز کی تنصیب تک، بی جے پی انتظامیہ کے تمام پہلوؤں کو ایک بے مثال قدم کے طور پر پیش کرتی ہے۔

پچھلے آٹھ سالوں میں بی جے پی کی طرف سے اٹھائے گئے ہر قدم کو موجودہ وزیر اعظم کے  کارنامہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ انہیں کچھ اس طرح سے دکھایا گیا ہے کہ سابق وزیر اعظم یا دیگر سیاسی جماعتیں ایسا کر سکنے کی بات تو چھوڑیے،ایسا کچھ کرنے کا سوچ پانے میں بھی اہل نہیں تھیں۔

مودی کی قیادت میں جتنا زور اپنی کامیابیوں کو گنوانے پر ہےاتنا ہی زور اس بات پر ہے کہ لوگ ہندوستان اور اس کے لیڈروں کی ماضی کی کامیابیوں کو بھول جائیں- جس کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ مودی کا ہر قدم ملک کے لیے پہلا قدم ہے۔

اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ بی جے پی کو آج کارپوریٹ گھرانوں سے جس قدر تعریف اور حمایت حاصل ہے ، ویسی حمایت کسی اور پارٹی کو کبھی نصیب نہیں ہوئی۔ بہت بڑے فنڈ پر بیٹھی بی جے پی کے پاس  اپنے اعلیٰ درجے کے تعلقات عامہ کے عملے کے ذریعے اپنے ہر فیصلے کو عہد ساز فیصلے کے طور پر مشتہر کرنے اورقبول کروانے کی طاقت ہے۔

بی جے پی کی سیاست ایک کے بعد ایک بڑے کارپوریٹ ایونٹ میں بدل گئی ہے۔ وزیر اعظم کی لارجر دین لائف والی شخصیت ان تقریبات کی جانب  زیادہ سے زیادہ لوگوں کی توجہ مبذول کرانے کے لیے ضروری اورصحیح تڑکا لگانے کا کام کرتی ہے۔

ہندوستان کو فراموشی کے ایک دور میں دھکیلنے کے عمل کو ہندوستان کی تاریخ کو مٹانے اور اس کو بی جے پی کے سیاسی مفادات کو پورا کرنے والی ماضی کے واقعات کی فرضی  کہانیوں سے بدلنے کی منصوبہ بند کوشش کی شدید حمایت حاصل ہے۔

ہندوستان کی پیچیدہ، لیکن مربوط تاریخ کو دبانے کا یہ کام صرف اسکولوں اور کالجوں میں تاریخ کی نصابی کتابوں کو دوبارہ لکھنے – جس ماڈل کو اٹل بہاری کی قیادت والی بی جے پی حکومت  میں  ترجیح حاصل تھی– کے ذریعے ہی نہیں کیا جارہا ، بلکہ موجودہ وقت میں اسے بیک وقت نصابی کتابوں کے دوبارہ لکھنے، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فرضی پیغامات پھیلانے اور بی جے پی اور اس سے منسلک تنظیموں کے رہنماؤں کی مدد سے جھوٹ کے پرچارکےمیل جول سےکیا جا رہا ہے۔

ہندوستان کے لوگوں کو تاریخ کی سمجھ دیے بغیر ماضی کے دردناک واقعات کی یاد دلا کر بی جے پی نے اپنے فائدے کے لیے تاریخ کے (غلط)  استعمال کے فن میں مہارت حاصل کر لی ہے۔ دھن کبیر بی جے پی یقینی طور پر اس طرح کی مہم میں ٹکنالوجی کے بے مثال اور مؤثر استعمال کا کریڈٹ لے سکتی ہے۔

دوسری بات،ہندوستان  نے اس سے پہلے کبھی بھی مخالف قوتوں اور ناقدین کے خلاف ایسی منظم مہم نہیں دیکھی ہے۔

مودی کی حکومت کو احتجاج کو جرم  بنانے کے لیے یاد کیا جائے گا اوراس معاملے میں  کوئی بھی حکومت اس کے آس پاس نہیں ٹھہرتی۔ احتجاج کرنے والے طلباء، سیاست دانوں، اقلیتوں کے خلاف سیڈیشن اوریو اے پی اے جیسے جابرانہ قوانین کے استعمال میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔

اس طرح کی سیاسی کارروائیوں کی شروعات یونیورسٹیوں سےہوئی، جہاں احتجاج کرنے والے طلباء پر سیڈیشن کا الزام لگایا گیا اور یہ اپنی  انتہا پراس وقت پہنچا جب جانچ  ایجنسیوں نے مختلف معاملات میں اپوزیشن لیڈروں کے خلاف کارروائیاں  شروع کیں۔

آٹھ سالوں میں ہندوستان کا پریس فریڈم انڈیکس تاریخی طور پر سب سے نچلی سطح پر آ گیا اورکئی  صحافی  تعزیرات ہند کے تحت سنگین الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔

ان سالوں میں ہم نے جانچ ایجنسیوں کو بی جے پی لیڈروں کے گناہوں کو دھوتے ہوئے دیکھا ہے۔ معاملہ چاہے ہیٹ اسپیچ کا ہو یا فسادات کو بھڑکانے کا،لنچنگ اور قتل معاملوں میں ان کے مبینہ رول یا اعلیٰ سطح پر بدعنوانی کا، بی جے پی لیڈروں پر کسی بھی قسم کی آنچ نہیں آئی یا ان پر کسی طرح کی جانچ کا شکنجہ نہیں کسا گیا۔

یہ سب  اتنا واضح ہے کہ کئی اپوزیشن لیڈرجانچ ایجنسیوں کے چنگل سے بچنے کے لیے بی جے پی میں شامل ہو چکے ہیں۔ جہاں تک تفتیشی ایجنسیوں کا سوال  ہے تو لگتا ہے کہ انہوں نے اپنی خود مختاری پوری طرح سے گروی رکھ دی ہے۔

یو پی اے کے دور حکومت میں اسی بی جے پی نے ہندوستان کی اعلیٰ تفتیشی ایجنسی – سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس کو ‘پنجرے میں بند طوطا’ کہا تھا۔ لیکن ان ایجنسیوں نے مودی حکومت میں پنجرے سے باہر نکلنے کا شاید ہی کبھی کوئی ثبوت دیا ہے۔

درحقیقت ان میں سے زیادہ تر ایجنسیوں نے صرف واضح طور پر انتقامی جذبے کے تحت کام کرنے والی بی جے پی حکومت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے رجحان کا ہی مظاہرہ کیاہے۔

ایسے میں جبکہ مختلف حلقوں میں مودی سرکار کے خلاف تنقید کا لہجہ دن بہ دن بلند ہوتا جارہا ہے وہیں جمہوریت کے دو بڑے ستون میڈیا اور عدلیہ نے اداروں پر مودی حکومت کی مکمل بالادستی قائم کرنے میں مدد کی ہے۔

اگر مودی حکومت واقعی کسی نئی شروعات کی مستحق ہے تو یہ بگ میڈیا کا اس کے سامنے مکمل ہتھیار ڈالنا ہے۔ مودی حکومت  میں ہندوستانی میڈیا جس طر ح سے سرکارکے مفادات کو آگے بڑھانے کے ایک نکاتی ایجنڈے پر کام کر رہا ہے ایسا کبھی مشاہدے میں نہیں آیا۔ اکثر اوقات میڈیا کو سماجی تقسیم اور اکثریت پسندی کو فروغ دینے کے لیے یکساں طور پر مورد الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے۔

اس دوران عدلیہ نے عام لوگوں میں کسی قسم کا اعتماد بحال کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ چند اہم فیصلوں کو چھوڑ کر پوری عدلیہ نے زیادہ تر مقدمات میں حکومت کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔چاہے بابری مسجد-رام جنم بھومی معاملے کا فیصلہ ہو یا حالیہ گیان واپی مسجد کے معاملےمیں اس کا رویہ۔ ہندوستان کی تاریخ  حکومت کے غیر جمہوری احکامات کے خلاف ججوں کے فیصلہ  دینے کی رہی ہے۔

اس کی بہترین مثال کانگریس کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کی طرف سے لگائی گئی ایمرجنسی کے دوران ہیبیس کارپس کیس میں جسٹس ایچ آر کھنہ کا اختلافی فیصلہ تھا۔ لیکن موجودہ دور میں ہندوستانی عدلیہ کی اعلیٰ سطح پر ایسی روایت ڈرامائی طور پر بدل گئی ہے۔

اور آخر میں، سب سے اہم طریقے سےمودی حکومت نے آئینی قوم پرستی، جس کی پیروی دنیا کی بیشتر حکومتیں کرتی ہیں، کو اپنے روپ رنگ کے ثقافتی قوم پرستی سے بدلنے کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے کام کیا ہے۔ مودی کی سیاست صرف ترقیاتی کاموں، انتظامیہ اور فلاح و بہبود تک ہی محدود نہیں ہے –بلکہ اس میں ساتھ ہی ساتھ ہندوستان کی گمشدہ ‘عظمت’  کوپھر سے حاصل کرنے سے بھی جڑا ہوا ہے۔

بی جے پی نے ہمیشہ ہندوستان کو صرف اور صرف ایک ہندو راشٹر کے طور پر دیکھا ہے، جس کا سنہری دور مختلف ہندو حکمرانوں کے دور اقتدار میں تھا، لیکن جسے مسلم حملہ آوروں نے زمین بوس کر دیا۔ اس طرح کی تفہیم اس کے سیاسی رویے سے ظاہر ہوتی ہے، جس کا مقصد مسلمانوں کو مرکزی دھارے سے خارج کرنا ہے۔

مودی نے بغیر کسی احساس جرم  کے سنگھ پریوار کے اکثریتی ایجنڈے کو ایک نئی توانائی سے بھرنے کا کام کیا ہے۔ بی جے پی میں مسلمانوں کو کسی بھی قسم کی انتخابی نمائندگی نہ دینے کا فیصلہ کن قدم اٹھاتے ہوئے ہندوؤں کو متحد کرنے کا سیاسی فارمولہ ایجاد کیا گیا ہے۔ وہ اس براہ راست اور خام انتخابی سیاست کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

ثقافتی قوم پرستی کے منصوبے کا تعلق صرف انتخابات سے ہی نہیں ہے، بلکہ یہ بی جے پی کی ہر سطح پر چھایا ہوا ہے۔ کارکنوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ مستقل طور پر ہندومتھ کے بارے میں بات کریں،مسلمانوں کے قبضے سے ہندو عبادت گاہوں کو آزاد کرائیں، وقتاً فوقتاً مذہبی پروگراموں کا انعقاد کریں اور لوگوں کو کھل کر اپنی ہندو شناخت کو قبول کرنے کے لیے اصرار کریں۔

بھگوا پارٹی کی ثقافتی قوم پرستی کی مہم اتنی زوردار ہے کہ اس نے لگ بھگ پوری طرح سےہندوؤں کے درمیان تاریخی طور پر اہم ذات پات، سرپرستی اور کٹیگری کے سیاسی تضادات کو دبا دیا ہے، جس میں سماجی انصاف، نمائندگی یا فلاح و بہبود سے نکلنے والی سیاست کے لیےشاید ہی کوئی جگہ رہ گئی ہے۔

حزب اختلاف کی طاقتوں کا ایک بڑا طبقہ جس کی سیاست جمہوری  اقدار پر قائم تھی، ان کے لیے ہندوتوا کے اس طرح کے جارحانہ رخ کے سامنے ٹک پانا مشکل ثابت ہو رہا ہے۔

اس وقت مودی کی قیادت والی بی جے پی نے دیگر تمام سیاسی قوتوں پر اپنا تسلط قائم کر لیا ہے۔ اور اگر اپوزیشن بی جے پی کی برانڈ والی ثقافتی قوم پرستی کے برعکس کوئی  متبادل اور قابل قبول ثقافتی جواب  لے کر نہیں آتی ہے تو آنے والے وقتوں میں بھی بی جے پی کا یہ تسلط  اسی طرح برقرار رہے گا۔

مودی اور ان کی حکومت کو  صرف ان عوامل کے امتزاج کا استعمال کرکے بی جے پی کو تبدیل کرنے کے لیےنہیں، بلکہ ہندوستانیوں کے ایک بڑے طبقے کو اقتدار کی سیاست میں اپنی جگہ کا دعویٰ کرنے کے لیے اکسانے کے لیے بھی یاد کیا جائے گا۔

(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)