فکر و نظر

عوام، حکومت، ٹیکس اور فلاحی ریاست

ٹیکس نظام میں اصلاحات سے بھی زیادہ اہم چیز سیاسی نظام میں بد عنوانی کا خاتمہ کرنا ہے۔

علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس

علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس

کسی بھی ملک کے نظام کو چلانے کے لیے یا حکومت کی طرف سے نظم و نسق، ملک کی سرحدوں کی حفاظت و تعمیر و ترقی کے لیے فنڈز مہیا کروانے کے لیے ٹیکس یا محصول اکٹھا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ عوام اپنا پیسہ حکومت کو اس لیے دیتے ہیں کہ وہ ان کی حفاظت کرے اور اسی کے ساتھ ان کے لیے تعمیر و ترقی کے کام بھی کرے۔

جنوبی ایشیاء یا دیگر ترقی پذیر ممالک میں عوام ٹیکس کو اس لیے بوجھ سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں ان سے حاصل شدہ رقوم،کورپٹ سیاستدان اور افسر شاہی اپنے پیٹ کے ایندھن کو بھرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

 دوسری طرف براہ راست ٹیکس کی شرحیں بھی اس قدر ہیں کہ یہ ایک غنڈہ ٹیکس لگتی ہیں، اور عوام حتی الامکان اس کو دینے سے گریز کرتے ہیں۔ کبھی کبھی تو سو روپے کا ٹیکس بچانے کے لیے چارٹرڈ اکاؤٹنٹ کو پانچ سو روپے کا فیس بھی ادا کرتے ہیں۔

ہندوستان کے ایک سابق وزیر آنجہانی وسنت ساٹھے نے 90ء کی دہائی میں ٹیکس ودآؤٹ ٹیرس آنسوؤں کے بغیر ٹیکس  کے نام سے ایک کتاب تصنیف کرکے ٹیکس کے موجودہ نظام کوچیلنج کرکے اس کو سہل و عوام دوست بنانے کی اپیل کی تھی۔

مجھے یاد ہے کہ سو صفحات پر مشتمل اس کتاب کو ایک بار اٹل بہاری واجپائی کے دور حکومت میں سابق وزیر اعظم چندر شیکھر نے پارلیامان میں پیش کرکے اس پر زور دار بحث کروائی تھی۔ جس کے اختتام پر وزیر اعظم واجپائی نے یقین دلایا تھا کہ ان کے اقتصادی مشیر ضرور اس کتاب کا مطالعہ کرکے ٹیکس نظام میں بہتری لانے کی گنجائش پر غور و خوض کریں گے۔

مگر اس یقین دہانی کے دو دہائی بعد بھی شاید ہی کسی نے ٹیکس نظام کو سہل اور عوام دوست بنانے کی سمت میں قدم بڑھانے کی زحمت کی ہو۔ اب تو اس کا استعمال حکومت میں شامل افراد مخالفین سے حساب بے باک کرنے اور ان کو کٹہرے میں لانے کے لیے کیا جاتا ہے۔

Tax Without Tears image

اگر ہندوستان اور پاکستان کے ٹیکس نظام کا جائزہ لیا جائے، تو معلوم ہوگا کہ ہندوستان کی 130کروڑ کی آبادی میں بس 1.5کروڑ افرا د ہی انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ جن میں بس تین لاکھ افراد سالانہ 50لاکھ یا اس سے زائد آمدن کے گوشوارہ جمع کراتے ہیں۔

پیشہ وار افراد یعنی وکلا، ڈاکٹرز، چارٹرڈ اکاؤٹنٹ وغیرہ کے زمرے میں بس 2200افراد ہی ایک کروڑ سے زائد آمدن کے رٹرن فائل کرتے ہیں۔ اگر بس سپریم کورٹ کے آس پاس ہی کھڑی عالیشان گاڑیوں اور ان کے مالکان کا تجزیہ کیا جائے، تو کئی ہزار کروڑ پتی تو وہیں بیٹھے بٹھائے ملیں گے۔ یہی حال پاکستان کا بھی ہے، جہاں 22کروڑ کی آبادی میں بس ایک فی صد افراد ہی ٹیکس کی ادائیگی کرتے ہیں۔

چند سال قبل ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر، جو خیر سے ماہر اقتصادیات بھی ہیں، نے بتایا کہ ہر سال رمضان المبارک کے دوران  ان کے گھر کے پاس میوہ کی دکان کا مالک ان کے پاس اپنی سالانہ آمدن کا گوشوارہ لےکر زکوٰۃ کا حساب لگانے کے لیے آتا ہے۔

ایک بار انہوں نے اس فروٹ بیوپاری سے پوچھا کہ کیا  وہ چارٹرڈ اکاؤٹنٹ کے پاس اسی طرح انکم ٹیکس کا حساب لگا کر اس کو جمع کرواتا ہے؟ تو اس کا ٹکا سا جواب تھا کہ وہ اپنی حق حلال کی کمائی کو سیاستدانوں اور بیوروکریٹوں کے پیٹ کا دوزخ بننے دینے کا روادار نہیں ہے۔

حکومت اور عوام کے درمیان اعتماد کی کمی کے علاوہ ٹیکس کا پیچیدہ نظام اور اس کی زیادہ شرح کی وجہ سے بھی کئی افراد اس کو دینے سے کتراتے ہیں۔

وسنت ساٹھے کے مطابق اس کا سیدھا حل شرح کم کرنا، ان کو عوام کی جیب کے مطابق ڈھالنا اور ٹیکس بیس کو وسیع کرنا ہے۔ آخر صرف تنخواہ دار طبقہ ہی کیوں اس کی زد میں آئے۔ ساٹھے کا فارمولہ ہے کہ کسی بھی شخص یا کسی فیملی کی آمد ن کا حساب اس کی یوٹیلٹی بلز کی مدد سے لگایا جانا چاہیے یا وہ کس قدر انرجی استعمال کرتے ہیں۔ بجلی، فون، گیس وغیر ہ کے بلز تو حکومت کے پاس ڈاکیومنٹ ہوتے ہیں، اس لیے اس فیملی کی سالانہ آمدن کا حساب بھی لگایا جاسکتا ہے۔

اگر کوئی شخص سالانہ ایک لاکھ روپے کی بجلی کا بل ادا کرتا ہے، یا سالانہ 25 ہزار سے زیادہ کا فون کا بل ادا کرتا ہے، تو یہ مان لینا چاہیے کہ اس کی سالانہ آمدن دس لاکھ روپے ہوگی اور اس میں سے 2یا 5فیصد کی درسے اس سے سالانہ دس یا بیس ہزار روپے وصول کیے جاسکتے ہیں۔جو قسطوں میں بھی لیے جاسکتے ہیں۔

شہروں اور دیہاتوں کی نسبت سے شرح میں رد و بدل کیا جاسکتا ہے۔ صرف اسی فارمولہ سے ہی حکومت کو ٹیکس کے زمرے میں کئی ٹریلین روپے کی آمدن ہوسکتی ہے اور اس سے ٹیکس وصول کرنے والی مشینری پر ہونے والے ہوشربا اخراجات کو بھی کم کیا جاسکتا ہے۔

مگر ٹیکس کی آ مدن حاصل کرنے سے زیادہ حکومت کے پاس چیلنج یہ ہے کہ اس کو کس طرح عوام کی خواہشات کے مطابق خرچ کرے۔ اس سلسلے میں اس نظام میں مرکزیت میں کمی لانا اور شفافیت لانا ضروری ہے۔

اگر کسی کالونی یا محلہ میں سو گھروں سے مجموعی طور پر دس یا بیس لاکھ روپے وصول ہوجاتے ہیں، تو اس میں سے نصف یعنی دس لاکھ وہیں اسی کالونی یا محلے کے منتخب نمائندے یا ہاؤسنگ کالونی کے ذمہ داروں کے سپرد کرکے ان کو خرچ کرنے کی آزادی دی جائے۔

بقیہ نصف ضلعی یا تحصیل یا بلاک انتظامیہ کے سپرد کیے جائیں۔  چونکہ ان کے پاس تمام کالونیوں اور ہاؤسنگ سوسائٹی کے وصول شدہ نصف ٹیکس آئیں گے، وہ اس رقم کا نصف حصہ صوبائی حکومت کو بھیج دیں گے اور بقیہ نصف اپنے علاقے میں خرچ کریں گے۔

اس طرح صوبائی حکومتیں، نصف رقوم مرکزی حکومت کو بھیج دیں گے اور نصف صوبہ میں تعمیر و ترقی و تنخواہوں پر خرچ کریں گے۔ ٹیکسوں کے نظام میں مرکزیت جتنی کم ہوگی، اتنی اس میں شفافیت آئےگی اور عوام براہ راست اس کے استعمال کا مشاہدہ کرسکیں گے۔

 ساٹھے کے مطابق ٹیکس ریٹ پانچ فیصد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے اور کارپوریٹ کے لیے بھی زیادہ سے زیادہ 25فیصد ہونی چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ عوام کو ٹیکس نیٹ میں لاکر ان کوادراک کروانا بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے وسائل اور حق حلال کی کمائی کا ایک حصہ حکومت کو دےکر کسی بھی وقت  اس کا حساب بھی مانگ سکتے ہیں۔

اگر صوبائی حکومتوں کو اس آمدن کا 50فیصد اور پھر مرکز کی طرف سے ان کو کارپوریٹ ٹیکس میں بھی حصہ ملے، تو ان پر لازم ہے کہ وہ اشیاء خوردنی اور پٹرولیم اور گیس پر بالواسطہ ٹیکس کم کریں تاکہ یہ اشیا ء عوام کو ارزاں نرخوں پر دستیاب ہوں۔ اس کے علاوہ اگر اس رقم کو سوشل سیکورٹی کے لیے استعمال کیا جائے، تو بھی عوام ہنسی خوشی اس کو دینے کے روادار ہوں گے۔

ڈنمارک، ترکی یا دیگر فلاحی مملکتوں کی طرح اپنے باشندوں کو گریجویشن تک مفت تعلیم اور طالب علموں کو دن میں ایک بار کھاناکھلانا اور پھر 60سال کی عمر کے بعد مفت روٹی، صحت اور سفر کی سہولیت ہونے کی وجہ سے 23سال سے 60سال کی عمر تک عوام خود ہی ٹیکس بھرتے ہیں۔

ترکی میں تو ٹیکس مفت صحت کی سہولیت کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ترکی کی قومی نیوز ایجنسی  انادولو ایجنسی کے لندن بیورو میں کام کرنے والے ایک ترک ایڈیٹر کا انقرہ میں دل کا دورہ پڑ گیا۔ وہ بس اسی بات پر خوش تھے کہ دورہ انقرہ میں پڑا، وگرنہ لندن میں علاج کے لیے ان کو اپنی پوری بچت سے ہاتھ دھونا پڑتا اور قرض بھی لینا پڑتا۔ سرجری اور اسپتال میں قیام کرنے کے دوران ان کو ایک پیسہ بھی اپنی جیب سے ادا نہیں کرنا پڑا۔

اسی طرح چند سال قبل ڈنمارک کے دورہ کے دوران کوپن ہیگن یونیورسٹی سے درس و تدریس کی ڈیوٹی سے ریٹائرڈ ہوچکے ایک پاکستان نژاد پروفیسر نے مجھے بتایا کہ تیس سال قبل جب ان کو ڈنمارک یونیورسٹی میں نوکری ملی، تو تنخواہ ملنے کے دن وہ خاصے افسردہ اور ذہنی دباؤ کے شکار ہوجاتے تھے، کیونکہ ہر ماہ تنخواہ سے تقریباً25تا30فیصد ٹیکس کی مد میں کٹ جاتا تھا۔

اسی دوران آفس میں ہی ایک دن وہ ہارٹ اٹیک کا شکار ہوگئے۔ فوراً ایمبولنس بلائی گئی اور ایک صاف و ستھرے اسپتال میں ان کو بھرتی کیا گیا۔ڈھائی ماہ اسپتال میں رہنے کے باوجود ان سے ایک پیسہ بھی وصول نہیں کیا گیا۔ جب کہ پاکستان میں کوئی بھی اسپتال چا ر یا پانچ لاکھ سے کم کا بل چارج نہیں کرتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس دن وہ سوچنے لگے کہ ان کے بچے ایک سرکاری اسکول میں مفت میں زیر تعلیم ہیں۔ ریٹائرمنٹ اور ضعیف العمری میں وہ سوشل سکیورٹی کے حق دار ہوں گے تو ٹیکس ادائیگی پر افسردہ ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ جب یہ معلوم ہے کہ اس کا مصرف ان کی بہبودی پر ہی کیا جائےگا۔

ٹیکس نظام میں اصلاحات سے بھی زیادہ اہم چیز سیاسی نظام میں بد عنوانی کا خاتمہ کرنا ہے۔  یورپی ممالک، اسرائیل، ترکی میں اراکین پارلیامان یا وزیروں کو سرکاری خرچ پر عالیشان بنگلہ رہنے کے لیے نہیں ملتے ہیں، بلکہ وہ عام کالونیوں میں کرایہ کے فلیٹوں میں رہتے ہیں۔ سیاست دانوں کی سادہ زندگی بھی عوام کو ٹیکس دینے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور فلاحی ریاست کے قیام میں ایک اہم رول ادا کرتی ہے۔