خبریں

جمیعۃ نے انتظامیہ پر مذہب کی بنیاد پر مظاہرین کے ساتھ امتیازی سلوک کا الزام لگایا

جمعیۃ علماء ہند ارشد مدنی گروپ نے کہا کہ مظاہرہ کرنا ہر ہندوستانی شہری کا جمہوری حق ہے،لیکن موجودہ حکمرانوں کے پاس اس  کے  لیےدو پیرامیٹرز ہیں۔ مسلم اقلیت احتجاج کرے تو ناقابل معافی جرم، لیکن اگر اکثریتی طبقہ سڑکوں پر آکر پرتشدد کارروائیاں کرے تو انہیں منتشر کرنے کے لیے ایک ہلکا لاٹھی چارج بھی نہیں کیا جاتا۔

مولانا ارشد مدنی۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

مولانا ارشد مدنی۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: انتظامیہ پر مذہب کی بنیاد پر مظاہرین کے ساتھ امتیازی سلوک کا الزام لگاتے ہوئے، جمعیۃ علماء ہند (ارشد مدنی گروپ) نے سوموار (20 جون) کو کہا کہ اگر مسلمان احتجاج کرتے ہیں تو یہ ‘ناقابل معافی جرم’ ہے، جبکہ جو لوگ  مرکز کی ‘اگنی پتھ’ اسکیم کے خلاف پرتشدد احتجاج کر رہے ہیں،انہیں ہلکے میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔

جمیعۃ کے سربراہ مولانا ارشد مدنی نے تنظیم کی ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں کہا کہ مظاہرہ کرنا ہر ہندوستانی شہری کا جمہوری حق ہے لیکن موجودہ حکمرانوں کے پاس اس کے لیے دو پیرامیٹرز ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر مسلم اقلیت احتجاج کرے تو یہ ناقابل معافی جرم ہے لیکن اگر اکثریتی طبقہ کے لوگ احتجاج کرتے ہیں اور سڑکوں پر آکر پرتشدد کارروائیاں کرتے ہیں اور ٹرینوں اور اسٹیشنوں کو جلا دیتے ہیں تو انہیں منتشر کرنے کے لیے ہلکا لاٹھی چارج بھی نہیں کیا جاتا۔

انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کی جانب سے احتجاج کرنے والوں کے مابین مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک افسوسناک ہے۔

مدنی نے الزام لگایا کہ اگنی پتھ اسکیم کے خلاف پرتشدد مظاہرے اس کا ثبوت ہیں اور کہا کہ مظاہرین نے مختلف مقامات پر ٹرین کو آگ لگائی، سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا، پولیس پر پتھراؤ کیا۔

جمیعۃ کے سربراہ نے کہا، وہی پولیس جو مسلمانوں کے خلاف تمام حدیں پار کر جاتی  ہے، (اس پر) خاموش تماشائی بنی رہی۔ اس پرتشدد مظاہرے کے لیے جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے، ان کے خلاف ایسی ہلکی دفعات لگائی گئی ہیں کہ وہ تھانے سے ہی ضمانت حاصل کر سکتے ہیں۔

مولانا مدنی نے سوال کیا کہ اب اگر ملک میں پرامن احتجاج کرنا جرم ہے تو پرتشدد احتجاج کرنے والوں کے گھر ابھی تک کیوں نہیں گرائے گئے؟ وہ پیغمبر اسلام کے بارے میں بی جے پی کے دو سابق عہدیداروں کے تبصروں کے خلاف پرتشدد مظاہروں میں ملوث کچھ ملزمین کے مکانات کو توڑے جانے کا حوالہ دے رہے تھے۔

واضح ہو کہ اترپردیش  کے کانپورمیں 3 جون کو نوپور شرما کی طرف سے پیغمبر اسلام کے بارے میں کیے گئے تبصرے کے خلاف دکان بند کرنے پر دو فریقوں کے درمیان جھگڑے کے بعد تشدد پھوٹ پڑا تھا۔

اس کے بعد پولیس نے کانپور میں محمد اشتیاق کی ایک جائیداد کو مسمار کر دیا تھا۔ پولیس نے کہا تھا کہ اشتیاق کا تعلق ظفر حیات ہاشمی سے تھا جو 3 جون کو کانپور میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے کلیدی لزم تھے۔ متنازعہ جائیداد سوروپ نگر میں واقع تھی، جو کانپور میں پیش آئےتشدد کے مقام سے تین کلومیٹر دور ہے۔

پیغمبر اسلام کے بارے میں بی جے پی کے معطل لیڈر نوپور شرما اور نوین جندل کے بیان کے خلاف الہ آباد میں پیش آئےتشدد کے سلسلے میں اتر پردیش پولیس نے جاوید محمد عرف جاوید پمپ کو 10 دیگر افراد کے ساتھ ‘کلیدی سازش کار’ بتایا تھا۔

اتر پردیش کے شہر اٹالہ اور کریلی میں 10 جون کو پتھراؤ اور تشدد کے بعد فاطمہ کے والد اور ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے رہنما جاوید محمد کے الہ آباد کے کریلی واقع دو منزلہ مکان کو الہ آباد انتظامیہ نے غیر قانونی قرار دیتے ہوئے بلڈوز کر دیا تھا۔

 اس کے علاوہ 10 جون کو سہارنپور میں پیش آئےتشدد کے دو ملزمین کے گھروں کو پولیس نے 11 جون کو بلڈوزر سے مسمار کر دیا تھا۔

یہاں جمیعۃ کے ہیڈکوارٹر میں ایک میٹنگ کے دوران مدنی نے مفتی سید معصوم ثاقب کو اگلی مدت کے لیے تنظیم کا جنرل سکریٹری نامزد کیا۔

اجلاس میں متفقہ طور پر منظور کی گئی قراردادوں میں سے دو اہم قرار دادوں میں کہا گیا کہ جنہوں نے نبی کی شان میں گستاخی کی ہے ان کی معطلی کافی نہیں بلکہ انہیں فوراً گرفتار کر کے قانون کے مطابق سزا دی جانی چاہیے۔

دوسری اہم قرارداد میں کہا گیا ہے کہ مذہبی مقامات سے متعلق 1991 کے قانون میں ترمیم کی کسی بھی کوشش کے’انتہائی تباہ کن نتائج’  نکل سکتے ہیں۔

قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ترمیم یا ردوبدل کے بجائے اس قانون پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے جس کے مطابق تمام مذہبی مقامات کی مذہبی حیثیت وہی رہے گی جو 15 اگست 1947 کو تھی۔

مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ اگنی پتھ اسکیم کے خلاف ملک بھر میں نوجوانوں کا پرتشدد مظاہرہ حکومت کے لیے انتباہ ہے کہ اگر ملک کی ترقی کے بارے میں نہیں سوچا گیا، روزگار کے مواقع پیدا نہیں کیے گئے، پڑھے لکھے نوجوانوں کو نوکریاں نہیں دی گئیں  تو وہ دن دور نہیں جب ملک کے تمام نوجوان سڑکوں پر ہوں گے۔

معلوم ہو کہ اگنی پتھ اسکیم کے اعلان کے بعد بہار، اتر پردیش، مدھیہ پردیش، ہریانہ اور تلنگانہ سمیت کئی ریاستوں میں پرتشدد مظاہرے دیکھنے میں آئے۔ ملک کے کونے کونے سے توڑ پھوڑ، آتش زنی، فسادات، پولیس فائرنگ، لاٹھی چارج وغیرہ کی خبریں موصول ہوئیں۔

اس دوران 17 جون کو تلنگانہ کے سکندرآباد اسٹیشن پر مظاہرین کو ہٹانے کے لیے آر پی ایف کی فائرنگ میں ایک 24 سالہ نوجوان کی موت ہوگئی۔ تشدد کے دوران کسی کی موت کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ نوجوان کی شناخت 24 سالہ راکیش کے طور پر کی گئی ہے جو ورنگل ضلع کے دبیرپیٹ گاؤں کا رہنے والا ہے۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)