خبریں

دنیا بھر کے سرکردہ دانشوروں نے سپریم کورٹ سے اپنے حالیہ فیصلوں پر نظر ثانی کرنے کو کہا

ان سرکردہ  دانشوروں نے 2002  کے گجرات فسادات کیس میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندرمودی سمیت 64 لوگوں کو خصوصی تفتیشی ٹیم کی طرف سے دی گئی کلین چٹ کو چیلنج کرنے والی کانگریس کے مرحوم رکن پارلیامنٹ احسان جعفری کی اہلیہ ذکیہ جعفری کی عرضی  پر سپریم کورٹ کے فیصلے اور اس کے تبصروں کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے۔

سپریم کورٹ/ فوٹو: پی ٹی آئی

سپریم کورٹ/ فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: دنیا بھر کے سرکردہ دانشوروں نے اپنے ایک بیان کہا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے بعض  حالیہ فیصلوں سے سخت مایوس ہیں، ان فیصلوں کے بارے میں  ان کا خیال ہے کہ ان  کا ہندوستان میں شہری آزادی اور انسانی حقوق کے مستقبل سے  براہ راست تعلق ہے۔

اس بیان پردستخط کرنے والوں نے 2002 کے گجرات فسادات کیس میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندرمودی  سمیت 64 لوگوں کو خصوصی تفتیشی ٹیم کی طرف سے دی گئی کلین چٹ کو چیلنج کرنے والی کانگریس کے مرحوم رکن پارلیامنٹ احسان جعفری کی اہلیہ ذکیہ جعفری کی عرضی  پر سپریم کورٹ کے فیصلے اور اس کے تبصروں کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے۔

بیان پر دستخط کرنے والوں میں برطانیہ کے ہاؤس آف لارڈز کے رکن بھیکھو پاریکھ، میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی اور امریکا کی ایریزونا یونیورسٹی کے پروفیسر نوم چومسکی، جرمنی کے میکس پلینک انسٹی ٹیوٹ میں پروفیسر ارجن اپادورائی جیسے 11 سرکردہ لوگوں کے نام شامل ہیں۔

فیصلے پر تین اہم سوال اٹھائےگئے ہیں:

بیان میں لکھا گیا، پہلا سوال، چونکہ درخواست گزار نے گودھرا کے واقعے بعد کے فسادات کے لیے گجرات حکومت کو کلین چٹ دینے والی ایس آئی ٹی رپورٹ کے نتائج کو چیلنج کیاتھا اور سپریم کورٹ سے آزادانہ تحقیقات کا حکم دینے کی گزارش  کی تھی ، اس لیے کورٹ کی جانب سے اسی متنازعہ ایس آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پر ان کی اپیل کو مسترد کر دیناہمیں غیر منصفانہ لگتا  ہے۔

بیان میں فیصلے کے ان پہلوؤں کے بارے میں بھی بات کی گئی جن پر سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مدن بی لوکور سمیت دیگر ماہرین نے روشنی ڈالی تھی۔

بیان میں کہا گیا ہے ،دوسرا سوال، ان کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے عدالت نے ایگزیکٹو کو معاملے کی شریک درخواست گزار تیستا سیتلواڑ کے ساتھ–ساتھ گواہ آر بی سری کمار کی گرفتاری کی ترغیب دی، اور ان دونوں کو ضمانت دینے سے بھی انکار کر دیا گیا۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ،

آخر میں ہمیں یہی محسوس ہوتا ہے کہ گجرات کے ناراض حکام کے ساتھ–ساتھ دوسرے افراد  کی مشترکہ کوشش تھی کہ اس طرح کاانکشافات کرکے سنسنی پیدا کی جائے، جو ان کی  اپنی جانکاری میں جھوٹ پر مبنی  تھے۔ درحقیقت، قانون کواس طرح سے غلط استعمال کرنے میں ملوث تمام افراد کو کٹہرے میں کھڑا کرکے قانون کے مطابق کارروائی کرنی چاہیے۔

سرکردہ دانشوروں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ تبصرہ  عوام کو کسی بھی معاملے میں عدالت سے رجوع کرنے کی حوصلہ شکنی کرے گی۔

بیان میں تیسری بات یہ کہی گئی ہے کہ عدالت نے جن کے خلاف یہ ریمارکس دیے ہیں، انہیں سماعت کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔ یہ عدالتی نظام  میں ایک اچھی  مثال  پیش نہیں کرتا۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے اس طر ح کا  رویہ کمیاب ہے۔

دانشوروں کا کہنا ہے کہ ‘ایمرجنسی  کے مختصر دور کے علاوہ، ہندوستانی سپریم کورٹ نے عام طور پر ملک کے جمہوری وعدوں کے تحفظ میں ایک باوقارکردار ادا کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم ذکیہ جعفری والے فیصلے سے مایوس ہیں۔

دانشوروں نے سپریم کورٹ سے اپیل کی ہے کہ وہ اس معاملے ،’سیتلواڑ اور سری کمار کی فوری گرفتاری’ کے فیصلے کے نتائج پر از خود نوٹس لے۔

انہوں نے عدالت عظمیٰ سے فیصلے میں موجود قابل اعتراض ریمارکس کو ہٹانے اور ان مشاہدات کی بنیاد پر گرفتار کیے گئے افراد کے خلاف مقدمات کو ردکرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ سیتلواڑ، سری کمار اور بھٹ کے خلاف ایف آئی آر سپریم کورٹ کی جانب سے 24 جون کو گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ نریندر مودی اور دیگر کو 2002 کے فسادات کے معاملے  میں ایس آئی ٹی کی طرف سے دی گئی کلین چٹ کو چیلنج کرنے والی ذکیہ جعفری کی عرضی کو خارج کیےجانے کے بعد 25 جون  کودرج کی گئی تھی۔

ایف آئی آر میں تینوں پر جھوٹے ثبوت گھڑکر قانون کو غلط طریقے سےاستعمال کرنے کی سازش کرنے کا الزام لگایا گیا ہے، تاکہ متعدد افراد کوایسے  جرم میں پھنسایا جا سکے جس کے لیے انہیں سزائے موت ہو۔

سیتلواڑ کی این جی او نے ذکیہ جعفری کی قانونی لڑائی کے دوران حمایت کی تھی۔ جعفری کے شوہر احسان جعفری احمد آباد گلبرگ سوسائٹی میں قتل عام میں  کے دوران مارے گئے تھے۔

وزیر اعظم نریندر مودی اور دیگر کے خلاف سپریم کورٹ میں دائرعرضی  میں سیتلواڑ اور ان کی این جی او ذکیہ جعفری کے ساتھ شریک عرضی  گزار تھیں۔

سیتلواڑ، سری کمار اور بھٹ کے خلاف درج ایف آئی آر میں آئی پی سی کی دفعہ 468 (دھوکہ دہی کے ارادے سے جعلسازی)، 471 (جعلی دستاویز یا الکٹرانک ریکارڈ کے طور پر استعمال کرنا)، 120بی (مجرمانہ سازش)، 194 (سنگین جرم کاقصور ثابت کرنے کے ارادےسے جھوٹے ثبوت دینا یا گڑھنا) 211 (زخمی کرنے کے ارادے سے کسی جرم کا جھوٹا الزام) اور 218 (کسی سرکاری ملازم کو جھوٹا ریکارڈ دینا یا کسی جرم کی سزا سے فرد یا جائیداد کو ضبط ہونے سے بچانا) کا ذکرہے۔

گجرات پولیس کے انسداد دہشت گردی دستہ (اے ٹی ایس) نے 25  جون کو سیتلواڑ کوان کی ممبئی واقع رہائش گاہ سے حراست میں لیا تھا، جس کے بعد سیتلواڑ نے پولیس پر ان کے ساتھ بدسلوکی اور چوٹ پہنچانے کا الزام لگایا تھا۔

اس کے بعد سیتلواڑ کو احمد آباد لایا گیا اور 25 جون کو شہر کی کرائم برانچ کے حوالے کر دیا گیا۔

حراست میں لیے جانے کے بعد تیستا سیتلواڑ کو  26 جون  کو اور سری کمار کو 25 جون کو گرفتار کیا گیا تھا۔ وہیں، بناس کانٹھا ضلع کی پالن پور جیل میں بند سابق آئی پی ایس افسر اور اس معاملے کے تیسرے ملزم سنجیو بھٹ کو ٹرانسفر وارنٹ کے ذریعے احمد آباد لایا جائے گا۔

بھٹ حراستی قتل کے مقدمے میں پالن پور جیل میں عمر قید کی سزاکاٹ رہے ہیں۔ ایک اور کیس میں ان پر ایک وکیل کو پھنسانے کے لیے ممنوعہ مواد رکھوانے کا بھی الزام ہے۔

ان تینوں پر گجرات فسادات کی تحقیقات کرنے والی ایس آئی ٹی کو گمراہ کرنے کی سازش کرنے کا الزام ہے، جو گجرات فسادات اور وزیر اعلیٰ کے طور پر نریندر مودی کے کردار کی تحقیقات کر رہی تھی، اگران کا کوئی رول ہے۔

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔