خبریں

نوٹ بندی پر سپریم کورٹ کا فیصلہ: اختلاف کرنے والی جج نے کہا – آر بی آئی نے آزادانہ طور پر غور و فکر نہیں کیا

نوٹ بندی پر اکثریت سے الگ اپنے فیصلے میں جسٹس بی وی ناگ رتنا نے مودی حکومت کے اس قدم پر کئی سوال اٹھائے۔ ان کا کہنا ہے کہ نوٹیفکیشن جاری کرنے کے بجائے پارلیامنٹ  میں بحث ہونی چاہیے تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آر بی آئی نے اس بارے میں آزادانہ طور پر غوروفکرنہیں کیا اور پوری قواعد 24 گھنٹے میں  پوری کی گئی۔

جسٹس بی وی ناگ رتنا اور سپریم کورٹ۔ (تصویر: سپریم کورٹ کی ویب سائٹ/پی ٹی آئی)

جسٹس بی وی ناگ رتنا اور سپریم کورٹ۔ (تصویر: سپریم کورٹ کی ویب سائٹ/پی ٹی آئی)

نئی دہلی: 2016 میں مودی حکومت کے نوٹ بندی کے فیصلے کے خلاف کئی عرضیوں کی سماعت کرنے والی سپریم کورٹ کی بنچ نے سوموار کو اسےصحیح ٹھہرایا اور کہا کہ نوٹ بندی کا مقصد کالا بازاری ، ٹیرر فنڈنگ وغیرہ کو ختم کرنا تھا، یہ بات اہم نہیں ہے کہ ان مقاصد کو حاصل کیا گیا یا نہیں۔

جسٹس ایس اے نذیر کی سربراہی والی بنچ میں جسٹس بی آر گوئی، بی وی ناگ رتنا، اے ایس بوپنا اور وی راما سبرامنیم شامل تھے۔ 4:1 کی اکثریت والے فیصلے میں جسٹس ناگ رتنا نے ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) ایکٹ کی دفعہ 26(2) کے تحت مرکزی حکومت کے اختیارات کے نکتہ پر اختلافی فیصلہ سنایا۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، ان کے فیصلے کی بنیادی دلیل یہ تھی کہ سرکار کی نوٹ بندی کی پہل میں ‘مختلف (معاشی) برائیوں’ کے بارے میں خدشات کا اظہار کرتے ہوئے  ‘دور اندیشی’ کا مظاہرہ کیا  گیا تھا اوریہ  ‘نیک ارادوں ‘ کے ساتھ کیا گیا تھا، لیکن جس طرح سے یہ کیا گیا، اس نے قانون کی خلاف ورزی کی اور یہ بات بھی سامنےآئی  کہ کس طرح مرکزی بینک نے اس فیصلے پر آزادانہ طور پر اپنے ذہن کا استعمال نہیں کیا۔ چونکہ یہ مرکز کی طرف سے اٹھایا گیا قدم تھا، اس لیے حکومت کو نوٹ بندی کو نافذ کرنے کے لیےریزرو بینک آف انڈیا سے اس کی سفارش کرنے اور جس طرح سے اس نے نوٹیفکیشن جاری کی ، اس  کے بجائے پارلیامنٹ میں ایک آرڈیننس یا قانون لانا چاہیے تھا۔

یہ جسٹس ناگ رتنا کے اختلافی فیصلے کی مرکزی دلیل ہے، جو دراصل یہ بتاتی ہے کہ کس طرح حکومت کے اقدامات آر بی آئی کی ادارہ جاتی اہمیت کو کم کرتی  ہیں۔

نوٹ بندی کو برقرار رکھنے والے اکثریتی نظریہ سے اختلاف کرتے ہوئے جسٹس ناگ رتنا نے کہا کہ یہ ‘قانون کی خلاف ورزی تھی’۔

انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی  کہ اسے کس طرح  پالیسی کے تقاضوں کی بنیاد پرکیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا، مرکزی حکومت کی طرف سے نوٹ بندی کی پہل کا مقصد ملک کی معیشت کو تباہ کرنے والی برائیوں کو ختم کرنا تھا،جن میں  کالادھن کی جمع خوری ،جعلی نوٹوں کی گردش وغیرہ شامل تھے۔ اس طرح کی چیزیں دہشت گردی کی فنڈنگ، ایک متوازی معیشت کا ظہور، منی لانڈرنگ سمیت حوالہ لین دین جیسےبڑے  مسائل کو  جنم دیتی   ہیں۔ معیشت اور معاشرے کو صاف ستھرا بنانے اور اس طرح کی برائیوں سے انہیں بچانے کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے۔ کسی بھی بیان  میں ایسا نہیں کہا گیا  ہے کہ یہ کارروائی  قوم کی بہتری کے لیے نیک  ارادوں اور عظیم مقاصد کے علاوہ کسی اور چیز سے متاثر تھی۔

اس کے بعدجسٹس ناگ رتنا نے اس بات پر زور دیا کہ مرکز اور آر بی آئی کی جانب سے پیش کردہ ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ کرنسی نوٹوں کو واپس لینے کی مرکز کی تجویز پر ‘بینک کی طرف سے آزادانہ طور پر اپنی سمجھ کا استعمال نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا، ‘…ریکارڈسے پتہ چلتا ہے کہ ایسے  الفاظ یا فقروں کا استعمال مثلاً’مرکزی حکومت کی طرف سے مطلوب’ ، ‘حکومت کی موجودہ  500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کے لیگل ٹینڈر کوواپس لینے کی سفارس’، ‘سفارش’ ملی وغیرہ بہت کچھ بتاتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بینک نے آزادانہ طور پر اپنا دماغ نہیں لگایا اور نہ ہی بینک کے پاس اتنے سنگین مسئلے پر اپنا دماغ لگانے کا وقت تھا…’

یہ نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہ آر بی آئی نے اپنے  ذہن کااستعمال نہیں کیا تھا، جسٹس ناگ رتنا نے مزید کہا کہ وہ ایسا ‘اس حقیقت کے پیش نظر کہہ رہی ہیں کہ نوٹ بندی کی پوری قواعد 24 گھنٹوں میں کی گئی تھی۔

انہوں نے آر بی آئی ایکٹ کی دفعہ 26(2) کی تشریح پر بھی اکثریت سے اختلاف کیا۔ ایکٹ کے اس حصے میں کہا گیا ہے: (ریزرو بینک کے) سینٹرل بورڈ کی سفارش پرمرکزی حکومت  گزٹ آف انڈیا میں نوٹیفکیشن کے ذریعے، یہ اعلان کر سکتی ہے کہ نوٹیفکیشن میں بتائی گئی تاریخ سے، کسی بھی بینک نوٹوں کی کوئی بھی سیریز بینک کے ایسے دفتر یا ایجنسی کو چھوڑ کر اور نوٹیفکیشن میں بیان کردہ حد تک مالیت قانونی ٹینڈر نہیں رہے گا ۔’

اکثریت کا خیال تھا کہ دفعہ 26(2) کے الفاظ ‘کوئی بھی ‘ کو ‘سبھی’ کے طور پر پڑھا جانا چاہیے نہ کہ ‘کچھ’ کے طور پر۔ تاہم، جسٹس ناگ رتنا  نے اس سے اختلاف کیا، ‘… دفعہ 26(2) میں نظر آنے والے کسی بھی لفظ کی تشریح سبھی کے طور نہیں کیا جا سکتی ہے کیونکہ اس طرح کی تشریح بے راہ روی کا شکار  ہونے کے ساتھ ہی بینک کے سینٹرل بورڈ کو وسیع صوابدید فراہم کرے گی۔’

انہوں 124 صفحات کےاپنے  فیصلے میں نے کہا، مذکورہ بالا نتائج کے پیش نظرمیرا ماننا ہے کہ ایکٹ کی وفعہ 26 (2) کے تحت 8 نومبر 2016 کو جاری کردہ نوٹیفکیشن غیر قانونی ہے۔ان حالات میں 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کو چلن سے باہرکرنا غلط ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ‘مرکزی حکومت کی تجویز… جس کے سنگین اقتصادی اثرات ہوتے ،کو بینک کے سامنے اس طرح کی اسکیم کی فزیبلٹی کے بارے میں ماہرین  کی رائے حاصل کرنے کے لیےرکھا جانا چاہیے۔ بینک ایک ماہر ادارہ کے طور پر ایسی تجویز پر مشورہ دے سکتا ہے اور بعض مواقع پر اس سے اتفاق بھی کر سکتا ہے۔ تاہم، مرکزی حکومت کی طرف سے پیش کی گئی تجویز پرکے لیے  اس طرح کی منظوری بھی  ایکٹ کی دفعہ 26(2) کے تحت بینک کے مرکزی بورڈ کی اصل سفارش کے مترادف نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‘ایک بینک کے مرکزی بورڈ کی رائے سینٹرل بورڈ کی طرف سے ایک بامعنی بحث کے بعد آزادانہ اور واضح  رائے ہونی چاہیے، جسے ہندوستانی معیشت اور ہندوستان کے شہریوں پرمرتب ہونے  اثرات کے لحاظ سے مناسب اہمیت دی جانی چاہیے۔ اگرچہ یہ مرکزی حکومت پر پابند نہیں ہو سکتا۔’

جسٹس ناگ رتنا نے عرضی گزار کے ان دلائل کا نوٹس لیا کہ ‘منسوخ کرنسی کی قیمت کا تقریباً 98 فیصد بینک نوٹوں سے بدل دیا گیا جو اب بھی قانونی ٹینڈر ہیں’ اور یہ کہ 2000 روپے کے بینک نوٹوں کی ایک نئی سیریز جاری کی گئی تھی، اس کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ ‘ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قدم بذات  خود اتنا مؤثر ثابت نہیں ہو سکتا تھاجتنا کہ توقع کی جا رہی تھی’ لیکن یہ بھی  کہا کہ کسی قانون کی تاثیر اس کے درست ہونے کی بنیاد نہیں ہو سکتی۔

جسٹس ناگ رتنا نے کہا، ‘میرے خیال میں مرکزی حکومت کے اختیارات کا استعمال ایگزیکٹو کے ذریعے نوٹیفکیشن جاری کیے جانے کے بجائے ایک قانون ذریعےکیا جانا چاہیے۔ یہ ضروری ہے کہ ملک کے لوگوں  کی نمائندگی کرنے والی پارلیامنٹ میں اس موضوع پر بحث ہو اور اس کے بعد اس  کو منظوری دی جائے۔

انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ان کے اس فیصلے کو ‘غیر قانونی’ کہنا صرف ایکٹ کی متعلقہ دفعات کے خالصتاً قانونی تجزیہ کو لے کرتھا نہ کہ نوٹ بندی کے مقاصد کو لے کر۔

واضح ہو کہ بنچ کا فیصلہ 58 عرضیوں پر آیا ہے، جس میں ایک عرضی مرکزی درخواست گزار وویک نارائن شرما نے دائر کی تھی جس میں نوٹ بندی کی قواعد  کو چیلنج کیا گیا تھا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ 8 نومبر 2016 کو جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کو غیرمنطقی  نہیں کہا جا سکتا اور فیصلہ سازی کے عمل کی بنیاد پر اسے رد نہیں کیا جا سکتا۔ فیصلے کا اس کے  مقاصد کے ساتھ ایک منطقی رشتہ  تھا، جیسے کہ  کالے دھن کا خاتمہ وغیرہ، اور یہ بات اہم  نہیں ہے وہ  مقاصد حاصل ہوئے یا نہیں۔

عدالت عظمیٰ نے کہا کہ چلن سے باہر کیے گئے  نوٹوں کو تبدیل کرنے کے لیے 52 دنوں  کا وقت دیا گیا تھا اور اب اس میں کوئی توسیع نہیں کی جا سکتی۔

واضح ہو کہ مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ داخل کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ نوٹ بندی کا فیصلہ آر بی آئی کے ساتھ مشورے کے بعد ‘سوچ سمجھ کر’لیا گیا  فیصلہ تھا۔

تاہم دی وائر نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ 8 نومبر کو وزیر اعظم کی طرف سے فیصلے کا اعلان کرنے سے چند گھنٹے قبل آر بی آئی کے سینٹرل بورڈ آف ڈائریکٹر کی میٹنگ کے منٹس کچھ اور ہی کہانی سناتے ہیں۔

عدالت عظمیٰ کی بنچ نے یہ بھی کہا کہ ‘فیصلہ سازی کے عمل’ کا حوالہ دیتے ہوئے فیصلے کورد نہیں کیا جا سکتا۔

غورطلب ہے کہ 7 دسمبر کو سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت اور آر بی آئی کو فیصلے سے متعلق ریکارڈ پیش کرنے کو کہا تھا۔

عدالت نے اٹارنی جنرل آف انڈیا آر کے وینکٹ رمنی، آر بی آئی کے وکیل اور درخواست گزار کے وکیل سمیت سینئر ایڈوکیٹ پی چدمبرم اور شیام دیوان کی  دلیلیں سنیں۔

بتادیں کہ 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کو بند کرنے  کو انتہائی ناقص قرار دیتے ہوئے چدمبرم نے دلیل دی تھی  کہ حکومت قانونی ٹینڈر سے متعلق کسی بھی تجویز کو اپنے دم پر شروع نہیں کر سکتی،اس کوصرف آر بی آئی کے سینٹرل بورڈ کی سفارش پر شروع کیا جا سکتا ہے۔

اس سے قبل سماعت کے دوران حکومت کی جانب سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ نوٹ بندی کی وجہ سے عوام کو درپیش مشکلات کو مرکز کے فیصلے کی غلطی نہیں سمجھا جا سکتا۔

غورطلب  ہے کہ 16 دسمبر 2016 کو اس وقت کے چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر کی سربراہی والی بنچ نے مرکزی حکومت کے فیصلے کی قانونی حیثیت اور دیگر متعلقہ معاملات کو فیصلے کے لیے پانچ ججوں کی بڑی بنچ کے پاس بھیج دیا تھا۔

حکومت کے فیصلے کی مخالفت کرنے والے درخواست گزار کہتے رہے ہیں کہ اس میں آئینی اہمیت کے مسائل شامل ہیں۔ انہوں نے دلیل دی ہے کہ یہ سوال ابھی بھی کافی حد تک  زندہ ہے کہ کیا حکومت ایک خاص زمرے کی پوری کرنسی کو ختم کرنے کے لیے ریزرو بینک آف انڈیا ایکٹ 1934 کو لاگو کر سکتی ہے اور اگر اس کاجواب نہیں  دیا جاتاہے تو حکومت مستقبل میں اس کا اعادہ کر سکتی ہے۔

نوٹ بندی کو اس بنیاد پر خارج نہیں کیا جا سکتا کہ اس سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا: عدالت

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا تھا کہ مرکزی حکومت کی طرف سے جاری نوٹ بندی کے نوٹیفکیشن کو اس بنیاد پر خارج نہیں کیا جا سکتا کہ اس سے لوگوں کو پریشانی ہوئی ہے۔

مرکز کے نوٹ بندی کے فیصلے کو 4:1 کی اکثریت سے برقرار رکھنے والی بنچ نے کہا کہ ذاتی مفادات کے بجائے وسیع تر عوامی مفاد پر توجہ دی جانی چاہیے۔

بنچ نے اکثریتی فیصلے میں کہا، ‘اس دلیل میں کوئی دم نہیں ہے کہ متعلقہ  نوٹیفکیشن کو اس بنیاد پر خارج کیا جا سکتا ہے کہ اس سے افراد/شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ذاتی مفادات کے بجائے وسیع تر عوامی مفاد پر توجہ دی جانی چاہیے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ متعلقہ  نوٹیفکیشن کے غیر قانونی ہونے کا فیصلہ کرتے ہوئے، اسے اس بنیاد کی جانچ کرنی ہوگی کہ جن مقاصد کے لیے اس کوجاری کیا گیا تھا، ان کا تعلق لیے گئے  فیصلے سے ہے یا نہیں۔

اس نےکہا، اگر متعلقہ نوٹیفکیشن کا تعلق مقاصد کے حصول سے تھا، تو محض اس لیے کہ کچھ شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے، نوٹیفکیشن کوخراب کہنے کا کوئی جواز نہیں ہوگا۔

عدالت عظمیٰ نے کہاکہ 8 نومبر 2016 کے نوٹیفکیشن کے ذریعے مرکز کی جانب سےکی گئی کارروائی کو 2016 کے آرڈیننس کے تسلیم کیا گیا ہے اور اسے 2017 کے ایکٹ میں لایا گیا ہے۔ بنچ نے کہا کہ مرکزی حکومت پارلیامنٹ کے سامنے جوابدہ ہے اور پارلیامنٹ ملک کے شہریوں کی خواہشات  کی نمائندگی کرتی ہے۔ اسی لیے پارلیامنٹ نے کارروائی پر اپنی مہر ثبت کر دی ہے۔

درخواست گزاروں میں سے ایک کی طرف سے پیش ہوئے سینئر ایڈوکیٹ شیام دیوان نے نوٹیفکیشن کو اس بنیاد پر چیلنج کیا  تھاکہ اس سے بہت سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)

(جسٹس بی وی ناگ رتنا کا فیصلہ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)