خبریں

نوٹ بندی کے بعد بھی جعلی نوٹوں کا مسئلہ برقرار، پانچ سالوں میں 245 کروڑ روپے کے جعلی نوٹ برآمد

مرکزی حکومت نے 2016 میں 1000 اور 500 روپے کے نوٹوں کو چلن سے باہر کر دیا تھا۔ اس فیصلے کا ایک اہم مقصد جعلی نوٹوں کے مسئلے کو ختم کرنا تھا۔ این سی آر بی کی رپورٹ کے مطابق، ملک میں  2016 سے 2021 کے درمیان 245.33 کروڑ روپے کے جعلی نوٹ ضبط کیے گئے۔ 2020 میں سب سے زیادہ 92.17 کروڑ روپے کے جعلی نوٹ پکڑے گئے تھے۔

 (علامتی  تصویر: پی ٹی آئی)

(علامتی  تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: 2016 میں مرکز کی طرف سے نوٹ بندی کے بعد بھی ملک میں جعلی ہندوستانی کرنسی کا مسئلہ بنا ہوا ہے۔

حکومت نے2016 میں 1000 اور 500 روپے کے نوٹوں کو چلن سے باہر کر دیا تھا۔ حکومت کے اس فیصلے کا ایک اہم مقصد جعلی نوٹوں کے مسئلے کو ختم کرنا تھا۔

نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کی رپورٹ کے مطابق،  ملک بھر میں 2016 سے لے کر اب تک قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں نے 245.33 کروڑ روپے کے جعلی نوٹ ضبط کیے ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق،  2020 میں سب سے زیادہ 92.17 کروڑ روپے کے جعلی نوٹ پکڑے گئے تھے، جبکہ 2016 میں سب سے کم 15.92 کروڑ روپے کے جعلی نوٹ ضبط کیے گئے۔

رپورٹ کے مطابق، سال 2021 میں 20.39 کروڑ روپے کے جعلی نوٹ پکڑے گئے، جبکہ 2019 میں 34.79 کروڑ روپے، 2018 میں 26.35 کروڑ روپے اور 2017 میں 55.71 کروڑ روپے کے جعلی نوٹ ضبط کیے گئے۔

ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کی مئی 2022 میں شائع ہونے والی سالانہ رپورٹ کے مطابق، مالی سال 2021-22 میں بینکوں کے ذریعے پتہ لگائے گئے 500 روپے کے جعلی نوٹوں کی تعداد پچھلے سال کے مقابلے میں دگنی سے زیادہ ہو کر 79669 ہو گئی۔

سال 2021-22 کے دوران 2000 روپے کے 13604 جعلی نوٹ پکڑے گئے، جو پچھلے مالی سال کے مقابلے 54.6 فیصد زیادہ تھے۔

سال 2020-21 میں گراوٹ کے بعد گزشتہ مالی سال میں بینکوں کے ذریعے پکڑے گئے جعلی نوٹوں کی کل تعداد 208625 سے بڑھ کر 230971 ہوگئی۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق،  20-2019 کے دوران جعلی نوٹوں کی تعداد 296695 تھی۔

آر بی آئی کی سال 2021-22 کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پچھلے سال کے مقابلے 10 روپے،  20 روپے، 200 روپے کے جعلی نوٹوں میں بالترتیب 16.4 فیصد، 16.5 فیصد، 11.7 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح 500 روپے (نئے نوٹ) اور 2000 روپے کے جعلی نوٹوں میں بالترتیب 101.9 فیصد اور 54.6 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا۔

قابل ذکر ہے کہ 50 روپے اور 100 روپے کے جعلی نوٹوں کی تعداد میں بالترتیب 28.7 فیصد اور 16.7 فیصد کی کمی آئی ہے۔

آر بی آئی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2021-22 کے دوران بینکنگ سیکٹر میں پائے جانے والے کل جعلی نوٹوں میں سے 6.9 فیصد ریزرو بینک میں اور 93.1 فیصد دیگر بینکوں میں پائے گئے۔

غورطلب ہے کہ 2016 میں اس وقت کے رائج 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کی نوٹ بندی  کا ایک اہم مقصد جعلی نوٹوں کی گردش کو روکنا تھا۔

واضح ہو کہ 8 نومبر 2016 کو وزیر اعظم نریندر مودی نے کالے دھن کو روکنے، جعلی کرنسی اور دہشت گرد تنظیموں کی فنڈنگ وغیرہ پر روک لگانے کے مقصد سے 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کو چلن سے ہٹانے کا اعلان کیا تھا۔

غور طلب  ہے کہ سپریم کورٹ نے سوموار (02 جنوری 2023) کو مودی حکومت کے 2016 میں لیے گئے نوٹ بندی کے فیصلے کے خلاف کئی عرضیوں کی سماعت کرتے ہوئے حکومت کے فیصلے کو برقرار رکھا اور کہا کہ نوٹ بندی کا مقصد کالا بازاری ، ٹیرر فنڈنگ کو ختم کرنا تھا۔ وغیرہ۔ یہ بات اہم نہیں ہے کہ ان  مقاصد کو حاصل کیا گیایا نہیں۔

اس بنچ میں جسٹس بی آر گوئی، جسٹس بی وی ناگ رتن، جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس وی راما سبرامنیم شامل ہیں۔ تین ججوں کو چھوڑ کر جسٹس بی وی ناگ رتن نے ریزرو بینک آف انڈیا ایکٹ کی دفعہ 26 (2) کے تحت مرکزی حکومت کے اختیارات کے نکتہ پر اختلافی فیصلہ سنایا تھا۔

 (خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)