خبریں

پیرا ملٹری بھرتی امتحانات: امتحان پاس کرنے کے باوجود ہزاروں امیدوار کو نہیں ملی نوکری

سال 2015 اور  2018  میں لگاتار دو بھرتی سائیکل میں، مرکزی حکومت نے کوئی وجہ  بتائے بغیر ہزاروں سیٹ خالی چھوڑ دی ہیں۔ دریں اثنا، ہزاروں اہل امیدوار بے روزگاری کا بوجھ لیے گھوم رہے ہیں۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

امیتا سلام کا یونیفارم کے بغیر گھر واپس لوٹنا مشکل تھا۔ دراصل چھتیس گڑھ کے بستر ضلع کے ایک گاؤں میں ان کے پڑوسیوں کا خیال تھا کہ وہ شادی کی نیت سے کسی لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔ امیتا بتاتی ہیں، میرے خاندان نے طعنے برداشت کیے ہیں، میں اپنی اس نوکری  کے بغیر واپس نہیں جا سکتی تھی جس کے لیے میں  نے امتحان پاس کیا ہے۔

غورطلب ہے کہ امیتااس  یونیفارم سے اس وقت محروم رہ گئیں جب مرکزی حکومت نے نیم فوجی دستوں کے لیےمشتہر اسامیوں سے ہزاروں سیٹیں بھرتی کے عمل کے اختتام پرختم کر دیں۔

قابل ذکر ہے کہ امیتا نے امتحان پاس کر لیا تھا، اپنے  دستاویزوں کی   تصدیق کر والی تھی۔  یہ بھی  ثابت  کردیا  تھا کہ  وہ جسمانی طور پر مضبوط اور طبی لحاظ سے فٹ ہیں۔لہذاان کو اس  نوکری کے لیے اہل قرار دیا گیا تھا۔ امیتا ایک طرح سے اس  نوکری کو پانے کےبا لکل قریب تھیں، جس کے لیے وہ برسوں سے تیاری کر رہی تھیں۔

لیکن اقتصادی طور  پر پسماندہ طبقوں کے ہزاروں نوجوان مردوں اور عورتوں کی مانندامیتا  کو اس وقت شدید جھٹکا لگا، جب مرکزی حکومت نے  اسٹاف سلیکشن کمیشن  (ایس ایس سی) کی  کل  60210 سیٹوں  میں سے  نیم فوجی دستوں کےجنرل ڈیوٹی کانسٹبل– جسے سرکاری طور پر  سینڑل آرمڈ پولیس کے نام سے جانا جاتا ہےجس کے تحت  بی ایس ایف، سی آرپی ایف، سی آئی ایس ایف، آئی ٹی بی پی، ایس ایس بی، آسام رائفل اور این ایس جی–این آئی اے اور ایس ایس ایف آتے ہیں ،جس کے لیے حکومت نے 2018 میں اشتہار دیاتھااس کے 4295 سیٹوں کو خالی چھوڑ دینے  کا فیصلہ کیا۔

بتادیں کہ امیتا اور دیگر امیدواروں نے اس نا انصافی کے خلاف 17 ماہ تک دہلی اور دیگر جگہوں پر احتجاجی مظاہرہ کیا، اور  حکومت کو نیم فوجی دستوں میں خالی نشستوں کو پُر کرنے کے لیے راضی کرنے کی کوشش کی۔

رپورٹرز کلیکٹو نے اس بات کی تحقیق کی ہے کہ آخر کیوں نیم فوجی دستوں کی سیٹیں خالی جارہی ہیں، جبکہ ان نشستوں پر کام کرنے  کی خواہش رکھنے والوں کی ایک لمبی قطار ہے۔ اس کے ساتھ ہی حکومت کے پیچیدہ بھرتی کے عمل کے گرد چھائی دھند کو دور کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔

ماضی کی بھرتیوں کی تفتیش سے پتہ چلتا ہے کہ مودی حکومت، جو 10 ملین نوکریوں کے وعدہ کے  ساتھ اقتدار میں آئی تھی،کے دور حکومت میں بھرتی کے عمل کے دوران مشتہر پوسٹوں میں  کٹوتی کرنے  کا ٹرینڈ سا نظر آتا ہے، جسے کئی ہائی کورٹس نے غلط قرار دیا ہے۔

مزید برآں، مرکزی حکومت ریاستی سطح اور دیگر کوٹوں پر مبنی ایک پیچیدہ ریزرویشن پالیسی کا استعمال کرتی ہے جس نے بھرتی کے اس پورےعمل کو غیر شفاف اور پُر فریب بنا دیاہے۔چنانچہ  اس عمل نے گزشتہ کئی برسوں میں ہزاروں امیدواروں کو ایک ایسے وقت میں سرکاری نوکری  حاصل کرنے کے مواقع سے محروم کر دیا ہے، جب بے  روزگاری اپنی انتہا پر ہے۔

پیچیدہ عمل

حکومت کو نیم فوجی دستوں میں بھرتی کےاپنےان  طور  طریقوں کے لیے سوالوں  کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے سال درسال ہزاروں لوگوں کی نوکری ختم ہو گئی۔

ایک امیدوار، ایک رکن پارلیامنٹ اور ایک ہائی کورٹ نے مرکزی حکومت سے یہ سوال  پوچھا کہ بھرتی کے عمل میں ان  4000 اسامیوں کو پُرکیوں نہیں کیا گیا،  جو 2018 میں شروع ہوا  اور  2021 تک چلا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سرکار نے ان تینوں کو یکسر الگ اور متضاد جواب دیے ہیں۔

وزیر اعظم کے دفتر نے ایک امیدوار کےآر ٹی آئی کے جواب میں  بتایا کہ ان کوعہدوں کو پُر کرنے کے لیے اہل امیدوار نہیں ملے۔یہ نہایت ہی کھوکھلا جواب  ہے، کیونکہ ان 60210 عہدوں کے لیے  109552 امیدواروں کو امتحان کے تمام مراحل سے گزرنے کے بعد سرکار نے ہی اہل قرار دیا  تھا۔

اگرچہ محض اہلیت نوکری کی گارنٹی نہیں ہے، لیکن پی ایم او نے سیٹیں خالی رکھنے کی کوئی منطقی وجہ نہیں بتائی۔

اسی سوال کے ایک دوسرے جواب میں وزیر مملکت برائے امور داخلہ نتیا نند رائے نے رکن پارلیامنٹ جسبیر گل کو بتایا  کہ یہ آسامیاں کیری فارورڈز ہوکر آئی تھیں- یہ مشتہر پوسٹوں کے برابر تقرریاں  نہ کرنے کے سلسلے میں بہلاوا  دینے والا جواب تھا- اور دعویٰ کیا کہ اگلی بھرتی کےعمل میں ان آسامیوں کو پُر کیا جائے گا۔ لیکن پھر بھی اس بات  جواب نہیں دیا گیا کہ آخر کیوں ان عہدوں کوپُر نہیں  کیا گیا تھا۔

امیدواروں نے 2018 کی بھرتی کے خلاف عدالتوں سے رجوع کیا اوراس سلسلے میں ایک مقدمہ دہلی ہائی کورٹ میں بھی دائر کیا گیا۔مرکزی حکومت  نے گزشتہ سال جون میں اپنا جوابی حلف نامہ داخل کیا تھا۔اس کی تفصیلات بہت کچھ کہتی ہیں۔

 غیرمؤثر اور ناقص کوٹہ سسٹم نے نیم فوجی دستوں کی بھرتی میں رکاوٹ پیدا کیا ہواہے۔ اس بات کا انکشاف حکومت کے  حلف نامہ   اورمختصرسے  حکومتی ضابطے سے ہوتا ہے۔

مرکزی حکومت کی دیگر ملازمتوں کے برعکس، نیم فوجی دستوں میں تقرریاں ریاستی کوٹے کی بنیاد پر ہوتی ہیں، جو کل آبادی کی بنیاد پر مختص کی جاتی ہیں۔ لہٰذا، خواہ کسی خاص ریاست کے نوجوانوں میں نیم فوجی دستوں میں نوکری  کے  لیے زیادہ چاہت ہو، اس ریاست سے نوکری پانے والوں  کی تعداد ایک حد سے تجاوز نہیں کر سکتی۔ کسی بھی دوسری ریاست میں جہاں کے نوجوان اس طرح کی ملازمتوں کی طرف اتنی کشش نہیں رکھتے ، اس ریاست کے لیے کوٹہ خالی رہ  جاتا ہے۔ ایسا سال در سال ہوتا رہتا ہے۔

یہ عمل پیچیدہ مارکنگ اور اسسمنٹ  سسٹم  کی وجہ سے اور مشکل ہوجا تا ہے، جو ایک ریاست کے اندر بھی  ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں مختلف ہو سکتا ہے۔

 امیدواروں کو پہلے تحریری امتحان دینا ہو تا ہے۔اس کے بعد کامیاب امیدواروں کو دستاویز کی تصدیق کے لیے بلایا جاتا ہے، اس کے بعد جسمانی ٹیسٹ، اور آخر میں، ڈراوناطبی امتحان، جہاں امیدوار اپنے جسم میں اب تک کی نامعلوم خامیوں کے ساتھ آمنے سامنے ہوتے ہیں۔ ان سب کو کلیئر کرنے والوں کو اہل قرار دیا جاتا ہے اور پھر  وہ کٹ آف نمبر کا انتظار کرتے ہیں،  جس سے یہ پتہ چلتا  ہے کہ  آخر کار  اہل قرار دیے گئے امیدواروں میں سے کن کا نام فائنل میرٹ لسٹ میں آپائے گا۔

اس کےبعد آتا ہے ایک نیا موڑ۔

کسی بھی سرکاری بحالی میں الگ الگ  کٹ آف ہوتے ہیں اور اس میں ذات کی بنیاد پر بھرتی ہوتی ہے۔ تا ہم، کانسٹبل کے لیے ایس ایس سی جی ڈی بھرتی، جس میں  ملک کے دیہی علاقوں کے سماجی اور اقتصادی طور پر پسماندہ طلبہ بڑی تعداد میں امیدوار ہوتے ہیں، پیچیدہ معیارات کی  کئی  پرتیں ہیں ، جو اکثر درخواست دہندگان کو الجھا دیتی ہیں۔

 سب سے پہلے، ہر ریاست کو آبادی کی بنیاد پر کل نشستوں کا ایک مخصوص حصہ الاٹ کیا جاتا ہے۔ اور ہر ریاست کے اندر، ضلع کے لحاظ سےسیٹ ایلوکیشن ہوتی ہے، جس میں امیدواروں کو اس ضلع کی نوعیت میں تقسیم کیا جاتا ہے جہاں سے وہ آتے ہیں، یعنی سرحدی، جنرل اور نکسل اضلاع۔ مزید، ان اضلاع کے اندر، ان کا کٹ آف ان کی ذات کے مطابق مختلف ہوتا ہے۔

 مثال کے طور پر، دلت برادری سے تعلق رکھنے والے دو امیدوار اگر مختلف اضلاع سے آتے ہیں تو ان کا کٹ آف  مارک مختلف ہوگا، مان لیجیےایک نکسل ضلع  ہے ور ایک سرحدی ضلع  ہے۔ یہاں تک کہ اگر نکسل ضلع میں نشستیں خالی  رہ جاتی  ہیں، تو سرحدی ضلع سے  اہل امیدوار کا انتخاب نہیں کیا جائے گا۔ اگر کسی ریاست کے پاس خاطرخواہ  اہل امیدوار نہیں ہیں، تو خالی نشستیں دوسری ریاستوں کے ویٹ لسٹ کی فہرست میں شامل اہل امیدواروں کے پاس نہیں جاتی ہیں۔

 منی دیو چترویدی، جو بی ایس ایف کے سب انسپکٹر کے طور پر ریٹائر ہوئے ہیں، اس سلسلے میں بتاتے ہیں؛ یہ پورا نظام غیر ضروری طور پر بھرتی کو پیچیدہ  اور اس عمل کو  مشکل بنانا ہے۔ نیم فوجی دستوں کےلیے، واحد توجہ جسمانی جانچ پر ہونی چاہیے، جیسا کہ ہمارے زمانے میں ہوا کرتا تھا۔ اب پورے عمل کو بہت طویل بنا دیا گیا ہے۔

‘جی–ڈی کی بھرتی کا بنیادی مقصد  ہیومن فورس ہے۔ اگر آپ کو پنجاب سے اہل  امیدوار نہیں ملتے ہیں تو چھتیس گڑھ کے جوانوں کو لینے میں کیا مضائقہ ہونا چاہیے؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ سابق فوجیوں کا کوٹہ خالی ہے تو ایسے بچوں کو ملازمت پر رکھنا کیوں ممکن نہیں جو اس کے لیے  اہل ہیں؟ مجھے ان خالی آاسامیوں کو  نہ بھرنے کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔’

 دی کلیکٹو  نے امیدواروں سے بات کی ۔  انہوں نے کہا کہ ،’انہیں اندازہ نہیں تھا کہ بھرتی کا عمل اتنا پیچیدہ ہے۔’

 ایک امیدوار راگھو شرما بتاتے ہیں؛ہم صرف ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے تمام مراحل  کلیئر کیے ہیں، اور آسامیاں زیر التواء ہیں۔ ہم نہیں سمجھ پا رہے ہیں کہ ہماری بھرتی کی راہ میں کیا رکاوٹ  در پیش ہے۔

پوشیدہ اعداد و شمار

سینکڑوں امیدواروں کی طرح،امیتا  کی عمر اب امتحان میں بیٹھنے کے لیے نہیں بچی ہے  ۔  دوسرے امیدواروں  کی طرح ، ان کو  اس بات کا علم نہیں تھا کہ اہل قرار دیے جانے کے باوجود بھی خالی سیٹیں ان کے حصے میں  نہیں آئیں گی۔ ملک بھر میں اہل  امیدواروں کے انتظار میں کھڑے ہونے کے باوجود نشستیں خالی چھوڑنے کی غیر منطقی دلیل   بھی  ان کی سمجھ سے باہر تھی۔

 انہوں نے احتجاج کو جاری رکھنے کے لیے اپنی پوری  طاقت جھونک دی ۔ انہیں یہ  پتہ تھا  کہ   سرکاری نوکری حاصل کرنے  کے لیے  یہ ان کی آخری  کوشش ہے۔ گزشتہ سال فروری میں تقریباً 1200 امیدواروں نے دہلی کی سڑکوں  پر مارچ کیا،  اور ناگپور میں 72 دنوں کی بھوک ہڑتال کی۔ اور آخر کار ناگپور سے دہلی تک 1000 کیلومیٹر لمبااحتجاجی مارچ شروع  کیا۔

 حکومت نے مظاہرین کو پسپا کرنے کے لیے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ بی جے پی مقتدرہ ریاستوں کی پولیس اور عہدیداروں نے  ان کے مارچ کو روک دیا۔ مدھیہ پردیش کے ساگر ضلع کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے دھمکی دی کہ اگر وہ  واپس نہیں گئے  تو انہیں جیل بھیج دیا جائے گا۔ اتر پردیش میں پولیس نے انہیں صبح 5 بجے آگرہ کے ایک گرودوارے میں روک لیا۔

انہیں 30 کے گروپوں میں تقسیم کیا، اور پھر   انہیں مختلف جگہوں پر (دور دور جگہوں پر )  چھوڑ دیا۔ ہریانہ میں بھی انہیں حراست میں لیا گیا۔ پولیس نے ان کے والدین کو فون کر کے دھمکی دی اور کہا کہ وہ ‘اپنے بچو ں کو  اس احتجاج کو ختم کرنے کو کہیں ورنہ  مصائب کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں’۔ان ریاستوں کی پولیس بھی تصدیق کی آڑ میں ان کے گھروں پر آ دھمکی۔

یہ احتجاج ملک میں نوکری کے متلاشی افراد کو درپیش مشکل  وقت  کی واضح علامت ہے، جہاں سرکاری نوکری  ہمیشہ بڑی تعداد میں امیدواروں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں ۔  یہ بات  ایسے وقت میں زیادہ   اہم ہے جب ملک کی معیشت  بہت بری حالت میں ہے۔ مودی 2014 میں دس ملین نوکری  کے وعدہ ساتھ اقتدار میں آئے   تھے۔

  لیکن سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی کے اعداد و شمار کے مطابق، قومی بے روزگاری کی شرح 2020 میں 23.5 فیصد تک پہنچ گئی اور اس کے بعد سے لگاتار 7 فیصد سے اوپر رہی۔ سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی (سی ایم آئی ای) کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ دسمبر 2022 میں ہندوستان کی بے روزگاری کی شرح بڑھ کر 8.30 فیصد ہو گئی، جو پچھلے مہینے میں 8.00 فیصد تھی ،  اور جو 16 مہینوں میں سب سے زیادہ ہے ۔

 امیدواروں نے دی کلیکٹو کو بتایا کہ انہیں لگا کہ حکومت بھرتیوں میں کٹوتی کرکے  پیسہ بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ بھرتی کے حساب وکتاب کو سمجھنے کے لیے میرٹ لسٹ پرگہرا ئی  سےنظر ڈالنے پر ایک اور جگہ کا انکشاف ہوا جہاں بھرتیوں میں کٹوتی کی گئی ہے، اور جس کی وجہ سے امیدواروں کے ڈر کو بھی سمجھا جا سکتا ہے۔

 بھرتی کے نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ 10  فیصد سیٹیں سابق فوجیوں کے لیے مختص ہوں گی۔ اگر وہ خالی رہیں تو سیٹیں باقی کیٹیگری میں تقسیم کر دی جائیں گی۔ اس شرط کی خلاف ورزی صرف 2018 میں نہیں ہوئی بلکہ 2015 کے بھرتی سائیکل میں بھی ہوئی۔ اس زمرے میں زیادہ تر نشستیں پُرنہیں کی گئیں، اور نہ ہی دیگر زمروں میں تقسیم کی گئیں،  ایسا سرکاری اعداد و شمار کے تجزیے سے  پتہ چلتا ہے۔

یہ دو آر ٹی آئی میں مرکز کی طرف سے بتائے گئے اعدادو شمار کے تضاد کو ظاہر  کرتا ہے: یہ صرف 4000 سیٹیں ہی نہیں ہیں جو خالی رہ گئیں بلکہ یہ تعداد تقریبا 9000 تک ہے، جس میں سابق فوجیوں کے زمرے والی خالی سیٹیں بھی شامل ہیں۔

ایس ایس سی کا رول

بھرتی کا پورا عمل اسٹاف سلیکشن کمیشن کے ذریعے کیا جاتا ہے، جو کہ وزارتوں اور محکموں کے لیے حکومت کی بھرتی ایجنسی ہے۔

 درخواستیں طلب کرنے کے بعد ابتدائی طور پر مشتہر کی گئی اسامیوں سے کم اسامیوں کو پُر کرنا اور اس عمل کو  آخری تاریخ کے آگے لے جانا، اب ایک طرح کا   ٹرینڈ بن گیا ہے۔ 2015 میں ایس ایس سی نے  64066 آسامیوں کے لیے درخواستیں طلب کیں، لیکن بعد میں 5376 سیٹیں خالی رہ گئیں۔ 2015،  2018  اور2021 میں   نیم  فوجی دستوں کے لیے  چلایا گیا  بھرتی  کا عمل بہت سست روی کا شکار رہا۔

کمیشن نے ایسے امیدواروں کو بھرتی کرکے امیدواروں کے انتخاب میں بھی  گر بڑی  کی جنہوں نے کٹ آف  کلئیر  نہیں کیا تھا۔  کمیشن نے   بھرتی کے عمل کو  مکمل کرنے کے لیے  ضابطہ کے تحت مقرر کردہ 6 مہینے کی مدت  کو بھی لگاتار  نظر انداز کیا۔

ایس ایس سی محکمہ پرسنل اینڈ ٹریننگ کے 2016 کے حکم کا پابند ہے ،جو بھرتی کرنے والی ایجنسیوں سے پورے بھرتی کے عمل کو درخواست طلب کرنے والے اشتہار کے چھ ماہ کے اندر مکمل کرنے کو کہتا ہے۔

سال 2015 میں، ایس ایس سی  نے اشتہار کی تاریخ سے فائنل لسٹ شائع کرنے  میں دو سال  سے زیادہ کا وقفہ لگا دیا۔2018 میں، اس نے  فائنل میرٹ لسٹ شائع کرنے میں ڈھائی سال سے زیادہ کا عرصہ  لگایا۔

 اگر حکم کی تعمیل کی گئی ہو تی تو 2018  میں شروع کی گئی  نیم فوجی دستوں   کی بھرتی   جنوری 2019 تک مکمل ہو جاتی۔

 ایس ایس سی کے سکریٹری نے 2018 کی بھرتی مہم میں تاخیر کے لیے وبا کو ذمہ دار ٹھہرایا جس میں 2021 تک توسیع ہوئی۔ تاہم، ہندوستان نے اپنا پہلا کووڈ کیس 27 جنوری 2020 کو دیکھا، اور ملک میں  مارچ 2020 تک کوئی لاک ڈاؤن نہیں تھا۔ 2021 کی بھرتی کا عمل ابھی تک جاری ہے۔

امیدواروں نے  انتخاب کے عمل میں بھی سنگین تضادات پائے گئےہیں۔ رپورٹرز کلیکٹو نے مختلف ریاستوں کے کچھ نتائج تک رسائی حاصل کی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نتائج بے ترتیب تھے۔ ہم نے آسام میں ایک ہی ضلع اور ذات سے تعلق رکھنے والے دو امیدواروں کے نتائج کا موازنہ کیا اور پتہ چلا کہ ایک امیدوار جس نے کٹ آف سے کم اسکور کیا  اس کا نام میرٹ لسٹ میں آگیا، لیکن دوسرا امیدوار جس نے پہلے والے سے زیاہ نمبر حاصل کیا تھا، لیکن کٹ آف سے کم، اس کا نام میرٹ لسٹ میں نہیں آیا۔

حیران کن بات یہ ہے کہ ان دونوں نے نکسل ضلع زمرے کے تحت درخواست بھری تھی لیکن ایس ایس سی نے ان کے ضلع کے لیے کٹ آف جاری نہیں کیا۔ چونکہ نہ تو امیدوار اور نہ ہی ہم جانتے ہیں کہ ان کے انتخاب میں کون سا کٹ آف لگایا گیا تھا، اس لیے ہم نے فرض کیا کہ یہ ریاست کا کٹ آف ہے۔

 جبل پور کے ایک امیدوار پرکاش نے کہا، ہم ہر کسی کے نتائج تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے کیونکہ یہ خفیہ  رکھا جاتا ہے اور جب تک کوئی حتمی فہرست میں جگہ بنانے والا اپنا نتیجہ آپ کے ساتھ شیئر نہیں کرتا، آپ واقعی کسی کی پہچان نہیں کر سکتے۔

  دوسری ریاستوں کے نتائج کے نمونوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ انتخاب میں گڑبڑی  صرف آسام تک محدود نہیں تھی۔ مغربی بنگال اور راجستھان کے امیدوار ، جو ان  پر لاگو   ریزرو   یا غیر ریزرو   زمرے میں کٹ آف بار کو پاس کرنے میں ناکام رہے تھے ، انہیں  بھی جوائننگ لیٹر موصول ہوئے ہیں۔

حکومت مختلف ریاستوں، اضلاع اور زمروں کے لیے پیچیدہ کٹ آف میٹرکس  جاری نہیں کرتی ہے۔ اس لیے یہ معلوم کرنا ممکن نہیں کہ اس قسم کی خامیاں کتنی منظم اور وسیع ہیں۔

 سکریٹری کے دفتر تک رسا ئی حاصل  کرنے کی بہت کوشش کی گئی ، جہاں  رپورٹر کو  ڈپٹی سکریٹری سے رابطہ کرنے کو کہا گیا۔ لیکن ڈپٹی سکریٹری نے  بتایا کہ یہ نچلے درجے کے افسران کا کام ہے۔ اس کے بعد ہم جوائنٹ سکریٹریز تک پہنچے لیکن کسی نے جواب نہیں دیا۔ رپورٹرز کلیکٹو آخر کار ایس ایس سی کے انڈر سکریٹری ایچ ایل پرساد تک رسا ئی  حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔یہ پوچھے جانے پر کہ ایس ایس سی نے مشتہر کی گئی آسامیوں کے لیے بھرتی کا عمل کیوں نہیں مکمل کیا، انہوں نے کہا، یہ سب جھوٹے الزامات ہیں۔ ہم نے ان آسامیوں کو مکمل کر لیا ہے جن کے لیے ہمارے پاس موزوں  امیدوار تھے۔

جب ان امیدواروں کے بارے میں مزید سوال کیے گئے جنہیں ریاست نے اہل قرار دیا تھا،  توپرساد نے فون رکھ دیا ۔

عدالتوں سے امید

پچھلے سال اگست میں اس رپورٹر نے امیتا سے فون پر دوبارہ رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن فون بند تھا۔ ایک اور امیدوار جس نے امیتا کے ساتھ احتجاج کیا تھا، مجھے بتایا کہ پولیس نے ان کا فون ضبط کر لیا ہے۔پھر  اسی نے ان سے رابطہ کروایا۔

 امیتا اب اپنے گھر واپس آچکی ہیں۔  30 دنوں کی بھوک ہڑتال کی وجہ سے وہ  کمزور پڑ گئی ہے۔ اسپتال میں قیام اور ٹائیفائیڈ کی وجہ سے بھوک سے نڈھال، اور 1000 کلومیٹر پیدل مارچ اور متعدد پولیس حراستوں سے ذہنی طور پر وہ پریشان ہیں۔ لیکن ان کواب بھی یقین ہے کہ اگر حکومت نے کانسٹبل کی خالی آسامیوں کو پُر کیا ہوتا تو وہ اہلیت لسٹ سے میرٹ لسٹ میں ضرور آجاتیں، کیونکہ ان کے نمبر کٹ آف کے بالکل قریب تھے۔

سال2015 میں اسی امتحا ن  میں فیل ہونے کے بعد، وہ  اپنے خوابوں کی سرکاری نوکری کے  با لکل  قریب پہنچی تھیں۔ لیکن امیتا کے لیے تیسری بار کا کوئی چانس نہیں ہے۔

 جب امیتا نے امتحان کے لیے کوالیفائی کیا تو اس کے خاندان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی، اور امیتانے سوچا  تھاکہ یہ ان کی تمام جدوجہد کا ثمرہ ہے۔ امیتا نے روتے ہوئے کہا،مجھے کبھی اندازہ نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے، اور حکومت ہمارے ساتھ اتنا ظالمانہ سلوک کرےگی۔

  جو چیز ان امیدواروں کو امید کی کرن دیتی ہے وہ ہے عدالتیں اور ان کے فیصلے۔ امیدواروں نے 2015 میں نیم فوجی بھرتی کے لیے مشتہر کی گئی کل پوسٹوں میں سے 5376 آسامیوں کو خالی چھوڑنے کے مرکز کے فیصلے کے خلاف اتراکھنڈ اور بہار کی ہائی کورٹس سے رجوع کیا تھا۔ تینوں عدالتوں نے ایک جیسے فیصلے سنائے تھے۔

اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے اپنے حکم میں کہاتھا،درخواست گزاروں (درخواست دہندگان) نے امتحان کے تمام مراحل مکمل کر لیے ہیں۔ ابھی بھی 5376 آسامیاں خالی ہیں اور  رسپانڈنٹ ( ایس ایس سی) انہیں  نہ لینے کی  کوئی بھی معقول وجہ  بتانے میں ناکامیاب  رہا ہے۔ عدالت نے مرکز کو حکم دیا کہ وہ باقی آسامیوں کو اکتوبر 2022 تک پُر کرے۔

 دہلی ہائی کورٹ نے بھی 21 دسمبر 2022 کو سنائے گئے اپنے فیصلے میں، 2018 کی بھرتی میں زیر التواء آسامیوں کے خلاف امیدواروں کی جانب سے دائر کیے گئے اپنے فیصلے میں حکومت سے کہا ہے کہ ‘امیدواروں کے جوائن نہ  کرنے کی وجہ سے  خالی آسامیوں کو بھی پُر کیا جائے، بشمول ان بچی ہوئی سیٹوں کے  جو  سال  2016 اور 2018 کے امتحانات  کے لیے مختص تھیں،  جو  سشترا سیما بل  اور سینٹرل آرمڈ پولیس فورسز کے ذریعے منعقد کیے گئے تھے؛میرٹ، زمرہ اور ڈومیسائل کے لحاظ سے۔ کورٹ نے  مرکزی حکومت کو یہ بھی ہدایت دی کہ وہ فیصلے کی تاریخ سے 4 ہفتوں کے اندر امیدواروں کی تقرری کو یقینی بنا ئے۔ تاہم، طلباء کے بیان کے مطابق خالی آسامیاں ابھی بھی  پُرنہیں کی گئی ہیں۔

امیتا کہتی ہیں،میں جو کرنا چاہتی تھی اس کے بارے میں اپنے خاندان کو قائل کرنا ہمیشہ ایک چیلنج تھا۔ جب میں چھوٹی تھی، میرے والد انتقال  کرگئے۔ میرے خاندان کو سماج کی طرف سے بہت دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے ہمیشہ میری ماں  پر میری شادی کے لیے دباؤ ڈالا ۔

وہ مزید کہتی ہیں،میں گھر نہیں جانا چاہتی تھی کیونکہ میں جانتی تھی کہ اگر میں گھر گئی، تو یہ میرے خوابوں کا خاتمہ ہوگا۔

رشی راج آنند دہلی میں مقیم فری لانس صحافی ہیں۔

انگریزی سے ترجمہ  ندرت اسلام۔