خبریں

چھتیس گڑھ پولیس نے نفرت انگیز پوسٹ کے لیے بی جے پی کے آٹھ عہدیداروں کو نوٹس جاری کیا

چھتیس گڑھ میں مقتدرہ  کانگریس نے کچھ دن پہلے بی جے پی کی ریاستی اکائی کے ارکان پر پارٹی کے سرکاری ہینڈل سمیت سوشل میڈیا کے ذریعے نفرت پھیلانے کا الزام لگاتے ہوئے پولیس سے شکایت کی تھی۔ پولیس نے بی جے پی کے ان عہدیداروں سے کہا ہے کہ وہ اس طرح کی پوسٹ سے متعلق حقائق پر مبنی بیانات پیش کریں۔

(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)

(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: چھتیس گڑھ پولیس نے جمعہ کو بتایا کہ بی جے پی کی ریاستی اکائی کے ترجمان سمیت آٹھ عہدیداروں کو سوشل میڈیا پر مبینہ طور پرنفرت انگیز مواد پوسٹ کرنے کے الزام میں نوٹس دیا گیا ہے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، پولیس نے کہا کہ بی جے پی کے آٹھ عہدیداروں سے کہا گیا ہے کہ وہ پولیس کے سامنے پیش ہوں اور ایسی پوسٹ سے متعلق حقائق پر مبنی بیانات پیش کریں۔

آٹھ پارٹی عہدیداروں میں خزانچی نندن جین، چھتیس گڑھ بی جے پی آئی ٹی سیل کے انچارج سنیل پلئی، ترجمان سنجے سریواستو، بی جے پی بزنس سیل کے صدر اور ترجمان کیدارناتھ گپتا، بی جے پی یوا مورچہ بورڈ کے صدر یوگی ساہو، یووا مورچہ کے ڈویژنل کوآرڈینیٹر کمل شرما، ڈی ڈی نگر یوتھ مورچہ کے صدر شوبھنکر اور پارٹی کارکن بٹو پانیگراہی شامل ہیں۔

نوٹس سے چار دن پہلے کانگریس پارٹی نے رائے پور پولیس سے شکایت کی تھی اور بی جے پی کے ارکان پر پارٹی کے سرکاری ہینڈل سمیت سوشل میڈیا کے ذریعے نفرت پھیلانے کا الزام لگایا تھا۔

پولیس کی طرف سے بھیجے گئے نوٹس میں سے ایک بیمترا ضلع کے بیرن پور گاؤں میں ہوئےفرقہ وارانہ تشدد سے متعلق ہے، جہاں ایک 23 سالہ نوجوان کی موت ہوگئی تھی۔ اس کےتین دن بعد گاؤں کے مضافات میں مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے باپ بیٹے کی لاشیں ملی تھیں۔

نوٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بی جے پی کے عہدیداروں نے وزیر اعلی بھوپیش بگھیل کے خلاف توہین آمیز تبصرہ کیا تھا۔

دی ہندو کے مطابق، مقتدرہ کانگریس کی ایک شکایت میں بھوپیش بگھیل کی سربراہی والی ریاستی حکومت اور اس کی حکمرانی کا حوالہ دیتے ہوئے ‘بھوپیش کا جہاد گڑھ’ اور ‘طالبانی حکومت’ جیسےالفاظ پر اعتراض کیا گیا تھا۔

رائے پور پولیس نے بی جے پی کے کارکنوں سے کہا ہے کہ وہ اپنے قریبی تھانوں میں حاضر ہوں اور اپنے آن لائن تبصروں کو ثابت کرنے کے لیے حقائق فراہم کریں۔

نوٹس میں کہا گیا ہے کہ ‘آپ کی پوسٹ سے عوامی امن وامان پر برا اثر پڑنے والا ہے، عام لوگوں کے ذہنوں میں انتشار اور ناراضگی پیدا ہو  رہی ہے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی خراب ہو  رہی ہے۔’