امین سایانی: جن کی آواز نے نسل در نسل لاکھوں سامعین کو مسحور کیا
امین سایانی کی آواز سامعین پر جادو کرتی رہی۔ہندوستانیوں کی جانے کتنی نسلیں ہر بدھ کی شب 8 بجے نشر ہونے والے بناکا گیت مالا میں ان کی آواز کے ساتھ پروان چڑھی ہیں۔
امین سایانی کی آواز سامعین پر جادو کرتی رہی۔ہندوستانیوں کی جانے کتنی نسلیں ہر بدھ کی شب 8 بجے نشر ہونے والے بناکا گیت مالا میں ان کی آواز کے ساتھ پروان چڑھی ہیں۔
کرکٹ ورلڈ کپ میں گھریلو ٹیم کو ملنے والے فوائد کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے – حمایت کرنے والے 100000 سے زیادہ کرکٹ شائقین حوصلہ بڑھانے والے ہو سکتے ہیں، لیکن یہ ایک طرح کا دباؤ بھی ہے۔
اپوزیشن کی مختلف جماعتوں کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی حوصلہ افزا ہے۔ لیکن عام انتخابات جب بھی ہوں، ‘انڈیا’ اتحاد کو اس مشکل امتحان کے لیے تیار رہنا ہوگا۔
‘آدی پرش’ نہ صرف بیہودگی سے بنائی گئی فلم ہے، بلکہ اس نے ہر طرح کے لوگوں کو ناراض بھی کیا ہے۔
دی وائر کے ایک پوڈ کاسٹ پروگرام میں کانگریس لیڈر سلمان خورشید نے کہا کہ اگلا الیکشن بی جے پی کو شکست دینے کا ایک تاریخی موقع ہو سکتا ہے۔ ریاضی کے لحاظ سے یہ ممکن ہے، لیکن ہمیں بہتر تال میل کی بھی ضرورت ہے۔
فلم میں واضح طور پر فرضی بیانیہ اور اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں، اور بات پروپیگنڈہ سے کہیں آگے کی ہے ،اس کے باوجود ناظرین کے پاس اس کودیکھ کر اس کے بارے میں اپنی رائے قائم کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔
آڈیو:کینیڈا کے سابق وزیرصحت اجل دوسانجھ نے دی وائر کے ساتھ بات چیت میں ان حالات کے بارے میں بتایا جن کی وجہ سے وہ سیاست میں آئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں سکھ برادری میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کی طرف توجہ مبذول کرانے کے لیے تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔
آڈیو: اسکول کی نصابی کتابوں میں این سی ای آر ٹی کی طرف سے کی گئی تبدیلیوں کے بارے میں سینئر مؤرخ مردلا مکھرجی نے کہا کہ ہندوتوادی حکومت نے مختلف تعلیمی اداروں میں ایسے لوگوں کی تقرری کی ہے، جو اس کے نظریاتی ایجنڈے کو آگے بڑھا سکیں۔
آڈیو: وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو کی طرف سے لائے گئے متنازعہ عدالتی اصلاحات کے خلاف اسرائیل میں ہو رہے مظاہروں کو وہاں کےسرکردہ فلمساز ڈینی بین –موشے ڈاکیومنٹری کی شکل میں درج کر رہے ہیں ۔ ان کے ساتھ بات چیت۔
راہل گاندھی کی رکنیت ختم ہونے کے بعد سے بننے والے ماحول میں کانگریس اس نئی اور مثبت شبیہ کی مدد سے صرف اپنے آپ کو اور مضبوط کر سکتی ہے۔ ملک کی سب سے پرانی پارٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ دوسروں کے لیے جگہ بنائے اور کسی بھی اپوزیشن محاذ میں خود کو مرکزی رول دیے جانے کے مطالبے کو آڑے نہ آنے دے۔
آڈیو: ٹاٹا انرجی اینڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ میں ماحولیاتی سائنسدان ڈاکٹر انجو گوئل کا ماننا ہے کہ آلودگی کو تعلیم کی طرح سیاسی مسئلہ بنایا جا نا چاہیے، اس سے بہت فرق پڑے گا۔
دہلی پولیس کے سابق کمشنر نیرج کمار 2015 اور 2018 کے درمیان بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ ان انڈیا (بی سی سی آئی ) کے انسداد بدعنوانی یونٹ کے سربراہ تھے۔ اس دوران انہوں نے علاقائی کرکٹ مقابلوں میں بڑے پیمانے پر ہونے والی میچ فکسنگ کو بے نقاب کیا تھا۔
ہندوستانی تارکین وطن کی سیاست اب ہندوستانی صورت حال کا ہی عکس ہے۔ وہی پولرائزیشن، وہی سوشل میڈیا مہم، وہی سیاسی اور سرکاری سرپرستی اور وہی تشدد۔ اختلاف تو دور کی بات ، کسی دوسرےنظریے کو برداشت بھی نہیں کیا جا رہا ہے۔
ہندوستان کی آزادی کے 75 سال کا جشن منانے کے لیے جاری ‘آزادی کے امرت مہوتسو’ کے سرکاری ذرائع ابلاغ میں ملک کے موجودہ اور واحد ‘محبوب لیڈر’ کا ہی تذکرہ کیا جا رہا ہے اور ان ہی کی تصویریں نظر آ رہی ہیں۔
اس وقت سنگھ کے علمبرداروں اور رہنماؤں کے احمقانہ بیانات کو تضحیک آمیز قرار نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ کسی بھی دن یہ سرکاری پالیسی کی صورت اختیار کر سکتے ہیں۔
نوپور شرما اسی طرح کھیل رہی تھیں جس طرح انہیں سکھایا گیا تھا۔ ماضی میں انہیں یا بی جے پی کی جانب سے بولنے والے ان کے کسی بھی ساتھی کو کبھی مسلمانوں کے خلاف پرتشدد تبصروں کے لیے سرزنش نہیں کی گئی۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ پارٹی کے سرکردہ رہنماؤں کی نظر میں آنے کا اچھا طریقہ رہا ہے۔
ہندی فلمیں اپنی کامیابی کے لیے آبادی کے ہر حصے اور ہر مذہب کے ناظرین پر منحصر کرتی ہیں۔ لیکن اس بار یہاں ہمارے سامنےایک ایسی فلم آئی ہے، جس کو صرف (کٹر/شدت پسند) ہندو ناظرین ہی درکار ہیں۔
لفظ مغل کو ہندوستانی مسلمانوں کی نشاندہی کے لیے ‘پراکسی’ بنا دیا گیا ہے۔ پچھلے آٹھ سالوں کے دوران، اس کمیونٹی کو اقتصادی، سماجی حتیٰ کہ جسمانی طور پر – نشانہ بنانا نہ صرف جنونی اور مشتعل ہجوم ، بلکہ سرکاروں کی بھی اولین ترجیحات میں شامل ہوگیاہے۔
ملک میں یادگاروں کے سلسلے میں کیے جارہے دعووں کے درمیان راجسمند سے بی جے پی کی رکن پارلیامنٹ اور جے پور کے شاہی خاندان کی رکن دیا کماری نے تاج محل پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کیا ہے۔ معروف رائٹر اور بلاگر رعنا صفوی بتاتی ہیں کہ اس بات کے پختہ شواہد موجود ہیں کہ تاج کی زمین کے بدلے شاہی خاندان کو چار حویلیاں دی گئی تھیں۔
ہندوستانی فوج تنوع میں اتحاد کی روشن مثال ہے۔ یہ اتحاد ان طاقتوں کو پسند نہیں ہے جو نفرت اور تعصب کے داعی ہیں۔
امت شاہ جانتے ہیں کہ ہندی کو تمام ہندوستانیوں پر مسلط کرنے کا ان کا ارادہ کسی بھی طرح سےعملی نہیں ہے۔ لیکن اس سے ان کے پولرائزیشن کا ایجنڈہ تو پورا ہو ہی رہا ہے۔
مسلمانوں کے اوپر لعنت ملامت کرنا انتخابی جیت کا آزمودہ نسخہ ہے۔ اور ملک کے حالات دیکھ کر لگتا نہیں ہے کہ آنے والے وقت میں یہ ناکام بھی ہو گا۔
وویک رنجن اگنی ہوتری بی جے پی کے پسندیدہ فلمساز کے طور پرابھر رہے ہیں اور انہیں پارٹی کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔
کنگ لیئرتنقید کو بالکل برداشت نہیں کرتے تھے، مگر انہوں نے ایک درباری مسخرے کو کچھ بھی کہنے کی چھوٹ دے رکھی تھی۔ آج کے ہندوستان میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہمارے جمہوری طور پر منتخب لیکن اتنے ہی مطلق العنان رہنما اپنے اردگرد سچ بولنے والے کسی بھی مسخرے کے مقابلےخوشامدی اور چاپلوس لوگوں کو ترجیح دیتے ہیں۔
سرکاری جانچ ایجنسیوں کےچھاپے اورگرفتاریوں کے خوف کی وجہ سے اکثر لوگ خاموش رہنے کو ہی ترجیح دیں گے۔
کانگریس اب بھی قومی سیاست میں اہمیت رکھتی ہے، لیکن اسے وقت کےحساب سے خودکو نیا روپ دیتے ہوئےسیکولرازم پر توجہ دینی ہوگی۔
ٹریجک ہیرو کےکرداروں کےساتھ ہی ہلکی پھلکی کامیڈی کرنے کی صلاحیت کے لیےمعروف دلیپ کمار کو ان کے مداحوں اور ساتھ کام کرنے والوں کےبیچ بھی ہندی سنیما کا عظیم اداکار تسلیم کیا جاتا ہے۔
کئی سالوں سے مودی شاہ کی جوڑی نے انتخاب جیتنے کی مشین ہونے کی جو امیج بنائی تھی، وہ کئی شکست کی وجہ سے کمزور پڑ رہی تھی، مگر اس بار کی چوٹ بھرنے لائق نہیں ہے۔ وہ ایک ایسے صوبے میں لڑکھڑا کر گرے ہیں، جو کسی ہندی بولنے والےکی زبان سے یہ سننا پسند نہیں کرتا کہ وہ ان کے صوبے کو کیسے بدلنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔
سنگھ کے مقاصدکو حاصل کرنے کے لیے یوگی آدتیہ ناتھ ایک مثالی شخصیت ہیں۔وہ مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ دلتوں کو اپنی جگہ پتہ ہونی چاہیے۔
کنگنارناوت کے اشتعال انگیز بیانات پرشیوسینا کاردعمل ان کی غلط ترجیحات کو ظاہرکرتا ہے۔
ان کا اخبار دی بامبے کرانیکل جدو جہدآزادی کا زبردست حامی تھا؛ جس کا خمیازہ بھی اس کوبھگتنا پڑا۔
نظریاتی دنیا میں اعتبارحاصل کرنارائٹ ونگ کی تمنا رہی ہے، لیکن جب تک وہ اس بنیادی بات کو نہیں سمجھ لیتا کہ اعتبارحاصل کرنا پڑتا ہے، اس کو خریدا نہیں جا سکتا یہ کبھی بھی زیادہ دوری نہیں طے کر پائےگا۔
امُول مکھن کے مقبول اشتہارات کشمیر کےخصوصی درجے میں تبدیلی سے لےکر چینی مصنوعات کے بائیکاٹ تک کے مدعے پرحکومت کے رویے کے ساتھ حامی بھرتے نظر آتے ہیں۔
پچھلے چھ سالوں میں مودی حکومت کے کئی فیصلوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس کو عوام میں دہشت اور خوف و ہراس پھیلانا پسند ہے۔ نوٹ بندی میں لمبی قطاروں میں کھڑے ہوکر پرانے نوٹوں کو بدلنا ہو، شہریت ثابت کرنے کے لئے کاغذ اکٹھا کرنا ہو یا اچانک ہوئے لاک ڈاؤن میں انہونی کے ڈر سے ہجرت اورحکومت کے فیصلوں کی مار سماج میں اقتصادی طور پر کمزور طبقے پر ہی پڑی ہے۔
سماج میں مسلم مخالف تعصب تو پہلے سے ہی موجود تھا، آر ایس ایس کی نگرانی میں ان کے خلاف مسلسل چلائی گئی مہم کو اب لہلہانے کے لئے زرخیززمین مل گئی ہے۔
بی جے پی کا ایجنڈہ انتخاب کی جیت سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔
خصوصی انٹرویو: گزشتہ دنوں دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ بھاٹیا کے ساتھ بات چیت میں معروف فلم اداکار نصیرالدین شاہ نے سی اے اے-این آر سی-این پی آر کے خلاف جاری احتجاج اورمظاہرہ، فرقہ پرستی کے عروج اور دیگراہم مسائل پرانڈسٹری کے نامور ہستیوں کی خاموشی اوردوسرے کئی اہم موضوعات پر اظہار خیال کیا۔
اگر شہریت قانون دوسرے ملکوں کے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتا ہے، تو این آر سی ہندوستان کے موجودہ شہریوں کے تئیں عداوت ہے، جس کی وجہ سے یہ کہیں زیادہ خطرناک ہے۔
ایودھیا کے فیصلے کے بعد ‘امن ‘ اور معاملے کے آخرکار ‘ختم ‘ ہونے کی باتوں کے درمیان ان ہزاروں لوگوں کو بھلا دیا گیا ہے، جن کی زندگی بابری مسجد کےانہدام کے بعد برباد ہو گئی۔
مودی کے انتخاب جیتنے کے بعد یا پھر اس سے کچھ پہلے ہی میڈیا نے اپنا غیر جانبدارانہ رویہ طاق پر رکھنا شروع کر دیا تھا۔ ایسا تب ہے جب حکومت اور وزیر اعظم نے میڈیا کو پوری طرح سے نظرانداز کیا ہے۔ میڈیا اہلکاروں کی جتنی زیادہ توہین کی گئی ہے، وہ اتنا ہی زیادہ اپنی وفاداری دکھانے کے لئے بےتاب نظر آ رہے ہیں۔