فکر و نظر

انتخابات جب بھی ہوں، ’انڈیا‘ اتحاد کو بعض بنیادی سوالوں کے لیے تیار رہنا چاہیے …

اپوزیشن کی مختلف جماعتوں کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی  حوصلہ افزا ہے۔ لیکن عام انتخابات جب بھی ہوں، ‘انڈیا’ اتحاد کو اس مشکل امتحان کے لیے تیار رہنا ہوگا۔

ممبئی میں 'انڈیا' اتحاد کے اجلاس میں مختلف اپوزیشن جماعتوں کے رہنما۔ (تصویر بہ شکریہ: INC.IN)

ممبئی میں ‘انڈیا’ اتحاد کے اجلاس میں مختلف اپوزیشن جماعتوں کے رہنما۔ (تصویر بہ شکریہ: INC.IN)

اپوزیشن جماعتوں کو یہ سمجھنے میں نو سال لگ گئے کہ اگر وہ ساتھ نہیں آئیں گے  تو انہیں متحد اور طاقتور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے لڑنے کے لیے الگ الگ لڑائی لڑنی پڑے گی۔ اور اب سب محسوس کرتے ہیں کہ ‘انڈیا’ اتحاد  کی صورت میں ان کا محاذ شاید غالب حکمران پارٹی بی جے پی سے مقابلہ کر سکتا ہے۔

حال ہی میں ممبئی میں ان کی پہلی بڑی کانفرنس سے ایسی غیرمعمولی تصویریں سامنے آئیں، جو حالیہ دنوں میں ہندوستان میں نہیں دیکھی گئی ہیں۔ایک ہی ہال میں، طویل مدتی حریفوں- سی پی آئی (ایم) اور ترنمول کانگریس، عام آدمی پارٹی (عآپ) اور کانگریس- وہیں، ترنمول کانگریس کی ممتا بنرجی شیوسینا کے ادھو ٹھاکرے کو راکھی باندھتی نظر آئیں اور علاقائی پارٹیاں کانگریس سے اپنی دشمنی کو  بھول کر اتحاد کا مظاہرہ کر تی ہوئیں۔

یہ بات یقینی ہے کہ اس میں سے بہت کچھ محض نمائش کے لیے ہے، لیکن تصورات  اور اثرات معنی رکھتے  ہیں، اور یقینی طور پر وزیر اعظم اور ان کی پارٹی کے اتحادی اس گروپ کو اس قدر سنجیدگی سے تو لیتے ہی  ہیں کہ وہ مسلسل ان کا مذاق اڑاتے ہوئےنظر آرہے ہیں۔

اپوزیشن کے مشترکہ محاذ کا مشاہدہ پہلے بھی کیا جا چکا ہے۔1977 میں ایمرجنسی ہٹائے جانے کے چند ہی ہفتوں کے اندر بنی جنتا پارٹی نے اندرا گاندھی کو شکست دی تھی۔ اس میں پرانی کانگریس، سوشلسٹ اور جن سنگھ کے لوگ شامل تھے۔ 1989 کا نیشنل فرنٹ، جس کی قیادت وی پی سنگھ کی جنتا دل اور تیلگو دیشم پارٹی نے کی تھی ، نے دو سالوں میں دو سرکاریں بنائیں۔ 1996 کے انتخابات کے بعد بنے 13 جماعتوں کے مشترکہ محاذ نے بھی دو سرکاریں  بنائیں۔ ان میں سے ہر ایک تجربہ اندرونی تضادات کی وجہ سے ناکام ہوا۔

یہاں بھی یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ  ‘انڈیا’ اتحاد ٹوٹے گا نہیں، اور نہ ہی کوئی اس بات کی ضمانت دے سکتا ہے کہ انتخابات سے پہلے بھی، اسمبلی انتخابات لڑنے یا 2024 کے سیٹوں کی تقسیم جیسے مسائل پر کوئی اندرونی اختلاف سامنے نہیں آئے گا۔ عام آدمی پارٹی تو پہلے سے ہی چھتیس گڑھ میں کانگریس حکومت کو نشانہ بناتے ہوئے بیان دے رہی ہے۔

نشستوں کی تقسیم اور مشترکہ امیدوار کھڑے کرنا اس سے بھی بڑا چیلنج ہوگا۔ کیا ممتا بنرجی مغربی بنگال میں سی پی آئی (ایم) کے امیدوار کے لیے کام کرنے پر راضی ہو جائیں گی؟ کیا کانگریس کارکن مہاراشٹر میں این سی پی امیدوار  کی حمایت کریں گے؟ جماعتیں اپنے کیڈر کو حریفوں کے لیے مہم چلانے کے لیے کیسے قائل کریں گی؟ کانگریس نے ہمیشہ شرد پوار کو شک کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ ان کے بھتیجے اجیت پوار کے شیو سینا-بی جے پی حکومت میں شامل ہونے سے شکوک و شبہات میں اور اضافہ  ہی ہوا ہے۔ حال ہی میں جب دونوں کی ملاقات ہوئی تھی تو کانگریس نے اس پر جواب مانگا تھا۔

بہار ایک اور چیلنج بننے والا ہے۔ تیجسوی یادو اور ان کے والد لالو پرساد یادو کانگریس کے تئیں اچھے جذبات رکھتے ہیں، لیکن کیا نتیش کمار میں بھی یہی احساس  رکھتے ہیں؟ اور ویسے بھی نتیش کمار کا  موقف کیا ہے؟ وہ ممبئی کے اجلاس میں موجود تھے، لیکن ان کے اپنے عزائم ہیں۔ اگر وہ کسی اور لیڈر کو ابھرتا ہوا دیکھیں گے توانہیں  خوشی نہیں ہو گی۔

یہ یکطرفہ یا بے بنیاد سوال نہیں ہیں۔ ان سے جلد ہی نمٹنا ہو گا۔

آج کی تاریخ میں سب سے زیادہ پوچھا جانے والا سوال یہ ہے کہ کیا ‘انڈیا’ اتحاد بی جے پی کو شکست دے سکے گا؟ اس کا کوئی ٹھوس جواب نہیں دے سکتا۔ بی جے پی بھی خاموش نہیں بیٹھے گی اور اس کے اپنے منصوبے ہوں گے۔

حال ہی میں جب ممبئی میں اپوزیشن کی میٹنگ چل رہی تھی، حکومت نے پارلیامنٹ کا خصوصی پانچ روزہ اجلاس بلانے کا اعلان کیا، لیکن اس کا ایجنڈہ کیا ہے، اس کے بارے میں صرف قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مرکزی حکومت نے ‘ون نیشن ، ون  الیکشن’ کے امکان پر بات چیت کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔ بی جے پی نے سیاسی ایجنڈہ سیٹ کر دیا ہے اور اپوزیشن پارٹیاں اس پر حملہ کرنے میں مصروف ہیں۔

جیسے جیسے انتخابات قریب آئیں گے، کیا بی جے پی اپنے حامیوں کو متحد کرنے اور اپنے ووٹ کو مضبوط کرنے کے لیے کوئی نیا حربہ اپنائے گی؟ اب تو پہلے سے ہی2019 کے پلوامہ حملے کے بارے میں سوال پوچھے جا رہے ہیں۔ اس حملے میں سی آر پی ایف کے 40 جوان  ہلاک ہوئے تھےاور جس کے نتیجے میں نام نہاد ‘سرجیکل اسٹرائیک’ ہوئی تھی، جس نے ووٹروں کو پرجوش کرتے ہوئے قوم پرستی کے  جذبات کو بھڑکایا تھا۔ اس بار ان کوجوش دلانے والےا قدام  کیا ہوں گے؟

’انڈیا‘ اتحاد تو ابھی وجود میں آیا ہے۔ اگر پارلیامنٹ کے خصوصی اجلاس میں انتخابات کا اعلان کر دیا  جائے تو کیا ہوگا – کیا اس کے لیے متحدہ محاذ کے طور پر الیکشن لڑنے کا کوئی طریقہ ہے؟ بی جے پی شاید کسی سرپرائز کی توقع کر رہی  ہے۔ دو ووٹر سروے کہتے ہیں کہ اگر ابھی انتخابات ہوتے ہیں تو بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتیں جیت جائیں گی۔ بلاشبہ، سروے اکثر غلط ہو جاتے ہیں – ٹی وی چینلوں  کے ذریعے کرائے گئے ایسے ہی ایک سروے  کے مطابق، بی جے پی کو کرناٹک  میں جیت حاصل کرنی تھی اور اس سے قبل مغربی بنگال میں بھی۔ اس کے باوجود، اس سے ‘انڈیا’ اتحاد کی تیاریوں کے بنیادی سوال کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔

مختلف جماعتوں کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی  حوصلہ افزا ہے، لیکن واضح طور پر انتخابات جب بھی ہوں، ‘انڈیا’ اتحاد کو اس مشکل کام کے لیے پوری طرح تیار رہنا ہوگا۔ درحقیقت قبل از وقت انتخابات شاید اس کے حق میں کام کرے کیونکہ اختلافات کو ابھرنے کا وقت نہیں ملے گا۔ ہو سکتا ہے یہ جیت نہ  سکیں – اور امکان ہے کہ وہ جیتیں گے بھی نہیں- لیکن یہ محاذ بی جے پی کو سخت مقابلہ دے سکتا ہے۔ اس بار بی جے پی کی راہ  اتنی آسان نہیں ہوگی۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)