آڈیو: ٹاٹا انرجی اینڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ میں ماحولیاتی سائنسدان ڈاکٹر انجو گوئل کا ماننا ہے کہ آلودگی کو تعلیم کی طرح سیاسی مسئلہ بنایا جا نا چاہیے، اس سے بہت فرق پڑے گا۔
دہلی پولیس کے سابق کمشنر نیرج کمار 2015 اور 2018 کے درمیان بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ ان انڈیا (بی سی سی آئی ) کے انسداد بدعنوانی یونٹ کے سربراہ تھے۔ اس دوران انہوں نے علاقائی کرکٹ مقابلوں میں بڑے پیمانے پر ہونے والی میچ فکسنگ کو بے نقاب کیا تھا۔
ہندوستانی تارکین وطن کی سیاست اب ہندوستانی صورت حال کا ہی عکس ہے۔ وہی پولرائزیشن، وہی سوشل میڈیا مہم، وہی سیاسی اور سرکاری سرپرستی اور وہی تشدد۔ اختلاف تو دور کی بات ، کسی دوسرےنظریے کو برداشت بھی نہیں کیا جا رہا ہے۔
ہندوستان کی آزادی کے 75 سال کا جشن منانے کے لیے جاری ‘آزادی کے امرت مہوتسو’ کے سرکاری ذرائع ابلاغ میں ملک کے موجودہ اور واحد ‘محبوب لیڈر’ کا ہی تذکرہ کیا جا رہا ہے اور ان ہی کی تصویریں نظر آ رہی ہیں۔
اس وقت سنگھ کے علمبرداروں اور رہنماؤں کے احمقانہ بیانات کو تضحیک آمیز قرار نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ کسی بھی دن یہ سرکاری پالیسی کی صورت اختیار کر سکتے ہیں۔
نوپور شرما اسی طرح کھیل رہی تھیں جس طرح انہیں سکھایا گیا تھا۔ ماضی میں انہیں یا بی جے پی کی جانب سے بولنے والے ان کے کسی بھی ساتھی کو کبھی مسلمانوں کے خلاف پرتشدد تبصروں کے لیے سرزنش نہیں کی گئی۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ پارٹی کے سرکردہ رہنماؤں کی نظر میں آنے کا اچھا طریقہ رہا ہے۔
ہندی فلمیں اپنی کامیابی کے لیے آبادی کے ہر حصے اور ہر مذہب کے ناظرین پر منحصر کرتی ہیں۔ لیکن اس بار یہاں ہمارے سامنےایک ایسی فلم آئی ہے، جس کو صرف (کٹر/شدت پسند) ہندو ناظرین ہی درکار ہیں۔
لفظ مغل کو ہندوستانی مسلمانوں کی نشاندہی کے لیے ‘پراکسی’ بنا دیا گیا ہے۔ پچھلے آٹھ سالوں کے دوران، اس کمیونٹی کو اقتصادی، سماجی حتیٰ کہ جسمانی طور پر – نشانہ بنانا نہ صرف جنونی اور مشتعل ہجوم ، بلکہ سرکاروں کی بھی اولین ترجیحات میں شامل ہوگیاہے۔
ملک میں یادگاروں کے سلسلے میں کیے جارہے دعووں کے درمیان راجسمند سے بی جے پی کی رکن پارلیامنٹ اور جے پور کے شاہی خاندان کی رکن دیا کماری نے تاج محل پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کیا ہے۔ معروف رائٹر اور بلاگر رعنا صفوی بتاتی ہیں کہ اس بات کے پختہ شواہد موجود ہیں کہ تاج کی زمین کے بدلے شاہی خاندان کو چار حویلیاں دی گئی تھیں۔
ہندوستانی فوج تنوع میں اتحاد کی روشن مثال ہے۔ یہ اتحاد ان طاقتوں کو پسند نہیں ہے جو نفرت اور تعصب کے داعی ہیں۔
امت شاہ جانتے ہیں کہ ہندی کو تمام ہندوستانیوں پر مسلط کرنے کا ان کا ارادہ کسی بھی طرح سےعملی نہیں ہے۔ لیکن اس سے ان کے پولرائزیشن کا ایجنڈہ تو پورا ہو ہی رہا ہے۔
مسلمانوں کے اوپر لعنت ملامت کرنا انتخابی جیت کا آزمودہ نسخہ ہے۔ اور ملک کے حالات دیکھ کر لگتا نہیں ہے کہ آنے والے وقت میں یہ ناکام بھی ہو گا۔
وویک رنجن اگنی ہوتری بی جے پی کے پسندیدہ فلمساز کے طور پرابھر رہے ہیں اور انہیں پارٹی کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔
کنگ لیئرتنقید کو بالکل برداشت نہیں کرتے تھے، مگر انہوں نے ایک درباری مسخرے کو کچھ بھی کہنے کی چھوٹ دے رکھی تھی۔ آج کے ہندوستان میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہمارے جمہوری طور پر منتخب لیکن اتنے ہی مطلق العنان رہنما اپنے اردگرد سچ بولنے والے کسی بھی مسخرے کے مقابلےخوشامدی اور چاپلوس لوگوں کو ترجیح دیتے ہیں۔
سرکاری جانچ ایجنسیوں کےچھاپے اورگرفتاریوں کے خوف کی وجہ سے اکثر لوگ خاموش رہنے کو ہی ترجیح دیں گے۔
کانگریس اب بھی قومی سیاست میں اہمیت رکھتی ہے، لیکن اسے وقت کےحساب سے خودکو نیا روپ دیتے ہوئےسیکولرازم پر توجہ دینی ہوگی۔
ٹریجک ہیرو کےکرداروں کےساتھ ہی ہلکی پھلکی کامیڈی کرنے کی صلاحیت کے لیےمعروف دلیپ کمار کو ان کے مداحوں اور ساتھ کام کرنے والوں کےبیچ بھی ہندی سنیما کا عظیم اداکار تسلیم کیا جاتا ہے۔
کئی سالوں سے مودی شاہ کی جوڑی نے انتخاب جیتنے کی مشین ہونے کی جو امیج بنائی تھی، وہ کئی شکست کی وجہ سے کمزور پڑ رہی تھی، مگر اس بار کی چوٹ بھرنے لائق نہیں ہے۔ وہ ایک ایسے صوبے میں لڑکھڑا کر گرے ہیں، جو کسی ہندی بولنے والےکی زبان سے یہ سننا پسند نہیں کرتا کہ وہ ان کے صوبے کو کیسے بدلنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔
سنگھ کے مقاصدکو حاصل کرنے کے لیے یوگی آدتیہ ناتھ ایک مثالی شخصیت ہیں۔وہ مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ دلتوں کو اپنی جگہ پتہ ہونی چاہیے۔
کنگنارناوت کے اشتعال انگیز بیانات پرشیوسینا کاردعمل ان کی غلط ترجیحات کو ظاہرکرتا ہے۔
ان کا اخبار دی بامبے کرانیکل جدو جہدآزادی کا زبردست حامی تھا؛ جس کا خمیازہ بھی اس کوبھگتنا پڑا۔
نظریاتی دنیا میں اعتبارحاصل کرنارائٹ ونگ کی تمنا رہی ہے، لیکن جب تک وہ اس بنیادی بات کو نہیں سمجھ لیتا کہ اعتبارحاصل کرنا پڑتا ہے، اس کو خریدا نہیں جا سکتا یہ کبھی بھی زیادہ دوری نہیں طے کر پائےگا۔
امُول مکھن کے مقبول اشتہارات کشمیر کےخصوصی درجے میں تبدیلی سے لےکر چینی مصنوعات کے بائیکاٹ تک کے مدعے پرحکومت کے رویے کے ساتھ حامی بھرتے نظر آتے ہیں۔
پچھلے چھ سالوں میں مودی حکومت کے کئی فیصلوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس کو عوام میں دہشت اور خوف و ہراس پھیلانا پسند ہے۔ نوٹ بندی میں لمبی قطاروں میں کھڑے ہوکر پرانے نوٹوں کو بدلنا ہو، شہریت ثابت کرنے کے لئے کاغذ اکٹھا کرنا ہو یا اچانک ہوئے لاک ڈاؤن میں انہونی کے ڈر سے ہجرت اورحکومت کے فیصلوں کی مار سماج میں اقتصادی طور پر کمزور طبقے پر ہی پڑی ہے۔
سماج میں مسلم مخالف تعصب تو پہلے سے ہی موجود تھا، آر ایس ایس کی نگرانی میں ان کے خلاف مسلسل چلائی گئی مہم کو اب لہلہانے کے لئے زرخیززمین مل گئی ہے۔
بی جے پی کا ایجنڈہ انتخاب کی جیت سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔
خصوصی انٹرویو: گزشتہ دنوں دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ بھاٹیا کے ساتھ بات چیت میں معروف فلم اداکار نصیرالدین شاہ نے سی اے اے-این آر سی-این پی آر کے خلاف جاری احتجاج اورمظاہرہ، فرقہ پرستی کے عروج اور دیگراہم مسائل پرانڈسٹری کے نامور ہستیوں کی خاموشی اوردوسرے کئی اہم موضوعات پر اظہار خیال کیا۔
اگر شہریت قانون دوسرے ملکوں کے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتا ہے، تو این آر سی ہندوستان کے موجودہ شہریوں کے تئیں عداوت ہے، جس کی وجہ سے یہ کہیں زیادہ خطرناک ہے۔
ایودھیا کے فیصلے کے بعد ‘امن ‘ اور معاملے کے آخرکار ‘ختم ‘ ہونے کی باتوں کے درمیان ان ہزاروں لوگوں کو بھلا دیا گیا ہے، جن کی زندگی بابری مسجد کےانہدام کے بعد برباد ہو گئی۔
مودی کے انتخاب جیتنے کے بعد یا پھر اس سے کچھ پہلے ہی میڈیا نے اپنا غیر جانبدارانہ رویہ طاق پر رکھنا شروع کر دیا تھا۔ ایسا تب ہے جب حکومت اور وزیر اعظم نے میڈیا کو پوری طرح سے نظرانداز کیا ہے۔ میڈیا اہلکاروں کی جتنی زیادہ توہین کی گئی ہے، وہ اتنا ہی زیادہ اپنی وفاداری دکھانے کے لئے بےتاب نظر آ رہے ہیں۔
سیڈیشن کا سنگین الزام یہ بتاتا ہے کہ حکومت ٹرولس سے متفق ہے اور یہ مانتی ہےکہ شہلا ایک خطرناک انسان ہیں۔
حکومت کی مداخلت یا انتظامیہ کے دباؤ کا الزام لگانا ایک کمزور بہانہ ہے-میڈیا پیشہ وروں نے خود ہی خود کو اپنے اصولوں سے دور کر لیا ہے۔ وہ بےآواز کو آواز دینے یا حکمراں طبقے سے جوابدہی کی مانگ کرنے والے کے طور پر اپنے کردارکو نہیں دیکھتے ہیں۔ اگر وہ خود سسٹم کا حصہ بن جائیںگے، تو وہ ان سے سوال کیسے پوچھیںگے؟
یہ بات سمجھ میں آنے والی ہے کہ لوگ کچھ لاکھ خرچ کرنے میں ہچک رہے ہیں، لیکن جب وہ 5 روپے خرچ کرنے سے بھی کترانے لگیں، تو اس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ ہم ایک بڑے اقتصادی بحران میں ہیں
ابلاغ کے سارے ذرائع کو کاٹکر، ان کو کنٹرول میں رکھنے کے لئے سکیورٹی اہلکاروں کے استعمال کا مقصد کشمیریوں کو یہ یاد دلانا ہے کہ ان کا اپنا کوئی وجود نہیں ہے-ان کا وجود اقتدار کے ہاتھ میں ہے، وہ اقتدار جس کی نمائندگی وہاں ہرجگہ موجود فوج کر رہی ہے۔
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کا سالوں سے سنجویا گیا ہندو راشٹر کا خواب پورا ہونے کے بہت قریب ہے، جس کے جشن میں اب ہندوستانی آبادی کا ایک بڑا حصہ بھی شامل ہے۔
گزشتہ ایک مہینے میں ہی اکثریت سے دوبارہ اقتدار میں آئی نریندر مودی حکومت نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ اپنی تنقید کے تئیں صبروتحمل کا اس کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
بہت کچھ اس پر منحصر کرےگا کہ بی جے پی کو کتنی سیٹیں ملیںگی-200 سے کم سیٹیں آنے پر اس کو رعایتیں دینی پڑیںگی، 220 سے اوپر سیٹیں آنے پر یہ مول بھاؤ کرنے کی بہتر حالت میں ہوگی۔
بی جے پی اس انتخاب میں اچھا مظاہرہ کرے یا خراب، امت شاہ پارٹی کے اندر ایک اہم طاقت ہوںگے۔
میڈیا کا ایک بڑا طبقہ، جس کا مذہب اقتدار میں بیٹھے لوگوں سے سوال پوچھنا ہونا چاہیے، گھٹنے ٹیک چکا ہے اور ملک کے کچھ سب سے طاقتور لوگوں نے خاموشی اختیار کرلی ہے، لیکن عام لوگ ایسا نہیں کرنے والے ہیں۔ ان کی آواز اونچے تختوں پر بیٹھے لوگوں کو سنائی نہیں دیتی، لیکن جب وقت آتا ہے وہ اپنا فیصلہ سناتے ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے یہاں وہاں کیے گئے مذاق اور طنز سے اگلی قطار میں بیٹھنے والوں کو ہنسایا تو جاسکتا ہے ، لیکن انتخابات میں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔