writer

سنجے چوہان۔ (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک)

فلم پان سنگھ تومر کے اسکرین رائٹر سنجے چوہان نہیں رہے

سنجے چوہان نے ‘صاحب بیوی اور گینگسٹر’، ‘دھوپ’، ‘ سلام انڈیا’، ‘رائٹ یا رانگ’، ‘میں نے گاندھی کو نہیں مارا’ اور ‘آئی ایم کلام’ جیسی فلموں کے لیے رائٹنگ کا کام کیا تھا۔ انہوں نے 2003 میں ریلیز ہونے والی سدھیر مشرا کی ہٹ فلم ‘ہزاروں خواہشیں ایسی’ کے مکالمے بھی لکھے تھے۔

کملا بھسین۔ (السٹریشن:پری پلب چکرورتی/دی وائر)

کملا بھسین: سرحد پر بنی دیوار نہیں، اس دیوار پر پڑی دراڑ …

حقوق نسواں کی علمبردارکملابھسین اپنی سادگی اور صاف گوئی سےکسی بھی مسئلہ کےاندرون تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی تھیں۔انہوں نے ماہرین تعلیم اورحقوق نسواں کے علمبرداروں کےدرمیان جس سطح کی عزت حاصل کی، وہ سماجی کارکنوں کے لیےعام نہیں ہے۔ان کے لیے وہ ایک آئی-کان تھیں،تانیثی ڈسکورس کو ایک نئے نظریے سے برتنے کی ایک کسوٹی تھیں۔

کملا بھسین۔ (فوٹو بہ شکریہ: Tanveer Shehzad, White Star/Herald)

حقوق نسواں کی علمبردار اور معروف سماجی کارکن کملا بھسین نہیں رہیں

ہندوستان اورجنوب ایشیائی خطے میں تحریک نسواں کی علمبردار رہیں 75 سالہ کملا کا سنیچر کوانتقال ہو گیا۔ وہ صنفی مساوات ،تعلیم ، غریبی کے خاتمے،انسانی حقوق اور جنوبی ایشیا میں امن کے مسئلوں پر 1970 سے مسلسل سرگرم تھیں۔

منو بھائی ، فوٹو بہ شکریہ محمد حمید شاہد

منو بھائی

منو بھائی کی تیسری برسی پرخصوصی تحریر:یہ ماں سے محبت ہی تھی کہ وہ لکنت کا شکار ہو گئے۔ اِس لکنت کا سبب ماں کے گال پر پڑنے والا وہ تھپڑ تھاجو طیش میں آکر منو بھائی کے والد نے جڑ دیا تھا۔ یہ منو بھائی کے بچپن کا واقعہ ہے مگر ان کا کہنا تھا کہ وہ چیزوں کو بہت سمجھنے لگے تھے۔ ماں کو یوں پٹتا دیکھ کر وہ چارپائی کے نیچے چھپ گئے اور جب وہ وہاں سے نکلے تو لکنت کا شکار ہو چکے تھے۔

محمد حمید شاہد اور آصف فرخی، فوٹو بہ شکریہ، فیس بک محمد حمید شاہد

پیارے آصف فرخی ! کیاکوئی یوں بھی مرتا ہے!

انتظار حسین مر گئے تو آصف جنازے میں شریک ہونے کے لیے کراچی سے فلائٹ لے کے لاہور پہنچے تھے۔ادھر اسلام آباد سے میں اور کشور ناہید وہاں پہنچے توآصف پہلے سےپہنچ گئے تھے ۔ مجھے دیکھا ، لپک کر آئے اور میرے گلے لگ کر یوں دھاڑیں مار مار کر روئے کہ میرے دل کا بوجھ بھی اتر گیا تھا۔ مجھے اپنے دل کا بوجھ اتارنا تھا کسی سے گلے لگ کر اور اُسی طرح دھاڑیں مار کر رونا تھاجیسے آصف اور میں انتظار حسین کی موت پرروئے تھے ۔

مارچ کے آخری ہفتے میں لاک ڈاؤن کے بعد دہلی سے اپنے گاؤں لوٹ رہے مزدوروں کے لیے یوپی سرکار نے بسوں کا  انتظام  کیا تھا، لیکن کئی لوگوں  کو ا ن میں جگہ نہیں مل سکی۔ آنند وہار بس اڈے پر ایسی  ہی ایک فیملی۔ (فوٹو: رائٹرس)

لاک ڈاؤن: اگر سچ میں کچھ جاننا یا پڑھنا ہے تو یہ کتاب بند کر دینے کا وقت ہے

اس لاک ڈاؤن کو اتنے بھر کے لیے درج نہیں کیا جا سکتا کہ لوگوں نے کچن میں کیا نیا بنانا سیکھا، کون سی نئی فلم ویب سیریز دیکھی یا کتنی کتابیں پڑھ گئے۔ یہ دور ہندوستانی سماج کے کئی چھلکے اتار کر دکھا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ کی نظر کہاں ہے؟

perumal-murugan-1

اپنی موت کا اعلان کرنے والے ادیب پیرومل موروگن کی ادبی دنیا میں واپسی

شدت پسندوں کی مخالفت کے بعد اپنی موت کا اعلان کرنے والے تمل ادیب اور شاعر موروگن کا نیا شعری مجموعہ’بزدل کے نغمے’شائع  ہوچکا ہے۔ نئی دہلی :اپنے ناول کے خلاف شدت پسندوں کے شورشرابے اور مخالفت کے بعد 2015میں اپنی موت اور تخلیقی کام سے دستبردار ہونے […]